پاکستان کی افغان پالیسی میں شفٹ کیوں آیا؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
دو تین ہفتے قبل وی نیوز کے لئے اپنے کالم میں پاکستان اور اٖفغانستان کے درمیان بڑھتی تلخی کے حوالے سے لکھا تھا، تب یہ ذکر کیا کہ اس ایشو پر افغان امور کے ایک بہت باخبر اور رموز شناس مفتی عبدالرحیم نے جو تفصیلی پوڈکاسٹ کئے ہیں، ان پر بھی بات کروں گا۔ ہوا مگر یہ کہ اس کے فوری بعد صدر ٹرمپ نے ٹیرف وار مسلط کر کے پوری دنیا کو ہلا دیا، ہم لکھنے والوں کی توجہ بھی اسی طرف ہوگئی اور دیگر ایشوز پیچھے چلے گئے۔
اب زرا معاملہ کچھ دنوں کے لئے پرسکون ہوا ہے تو پھر سے افغان مہاجرین اور پاک افغان باڑ والا معاملہ یاد آیا۔ مفتی عبدالرحیم صاحب افغانستان کے ایک بڑے محسن مولانا رشید احمد لدھیانوی مرحوم کے شاگرد رشید اور ان کی فکر کے وارث ہیں۔ جامعتہ الرشیدجیسی ممتاز دینی درسگاہ کے سربراہ اور نامور دینی سکالر ہیں۔
مفتی عبدالرحیم صاحب کا افغانستان میں بہت وقت گزرا۔ طالبان کی پچھلی حکومت میں ان کے ساتھ گہرا تعلق رہا، طالبان کی تعمیر وترقی میں بہت مدد کی۔ امریکہ کے خلاف طالبان کی تحریک مزاحمت میں مفتی صاحب جیسے لوگ افغان طالبان کے ہمدرد اور معاون رہے۔ افغانستان کا چپہ چپہ انہوں نےدیکھا ہوا ہے اور وہاں کے حالات پر گہری نظر ہے۔
مفتی عبدالرحیم صاحب کے پوڈ کاسٹ “جے ٹی آر میڈیا” پر موجود ہیں، تین پارٹ ہیں، سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔ افغان ایشو، پاکستان کی پوزیشن اور اس حوالے سے موجود نزاکتوں، پیچیدگیوں کو انہوں نے بڑے عام فہم اور سلیس انداز میں بیان کر دیا ہے۔ مفتی صاحب افغان طالبان اور پاک افغان تعلقات کے مختلف ادوار کے محرم راز ہیں، بہت سے اہم اور حساس راز ان کے سینے میں دفن ہیں۔ وہ معاملات کی نزاکت اور حساسیت کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں اور کبھی غیر ضروری نکتہ سنجی نہیں کرتے۔ اس بار مگر انہوں نے خاصا کھل کر گفتگو کی۔
ان پر یہ تنقید بھی ہوئی کہ انہوں نے اتنے عرصے بعد کیوں زبان کھولی ۔ اپنی گفتگو کی تیسری نشست میں مفتی عبدالرحیم صاحب نے اس کی وضاحت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بائیس تیئس سال خاموش رہے، اس لئے کہ اگر ایسا نہ کرتے تو تب پاکستان اور افغانستان دونوں کو نقصان پہنچ جاتا۔ اب افغان طالبان اور امریکہ کی جنگ ختم ہوگئی، غیر ملکی افواج واپس چلی گئیں، صورتحال پہلے جیسی نہیں۔ اب بھی وہ مجبور ہو کر یہ چیزیں بیان کر رہے ہیں کیونکہ انہیں لگ رہا ہے کہ اگر خاموش رہے تو یہ غلط ہوگا اور گناہ کے زمرے میں آئے گا۔
مفتی عبدالرحیم صاحب کا کہنا ہے کہ اس وقت جو صورتحال ہے اس میں پاک افغان بارڈز پاکستانیوں کے لئے پاک بھارت بارڈر سے بھی زیادہ خطرناک اور پریشان کن ہے۔ پاک افغان بارڈر چھبیس سو کلومیٹر کے لگ بھگ ہے، یہاں سے پاکستان کی سالمیت، معیشت اور امن وامان کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
مفتی عبدالرحیم نے انکشاف کیا کہ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں خاص کر سی آئی اے، ایف آئی اے ، ایم آئی سکس وغیرہ کا بہت اثرونفوذ ہوگیا تھا۔ صرف کراچی میں امریکیوں ایجنسیوں نے پانچ ہزار کے قریب نوجوان اپنے طور پر بھرتی کئے، اسی طرح تب جو فاٹا کہلاتا تھا، اس کی ساتوں قبائلی ایجنسیوں میں بڑے پیمانے پر ان ایجنسیوں نے بھرتیاں کیں۔
مفتی صاحب کے مطابق امریکیوں نے کراچی کو برطانوی ایجنسی ایم آئی سکس کو دے رکھا تھا، اسی ایجنسی ہی نے کراچی میں الطاف حسین وغیرہ سے اپنے راوبط استوار کئے اور دیگر معاملات بھی چلتے رہے۔ اسی وجہ سے پاکستانی حساس ادارے بہت پریشان اور مضطرب رہے۔
مفتی عبدالرحیم صاحب کے مطابق دو ہزار دس میں ایک بڑےپیمانے پر ایکسرسائز ہوئی، (مفتی صاحب نے اس کے لئے مشورہ کی اصطلاح استعمال کی جو دینی حلقوں میں زیادہ عام فہم اور مستعمل ہے۔)
پاکستانی حساس اداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب پاکستان میں غیر ملکی ایجنٹوں کو محدود تر کیا جائے اور پاک افغان بارڈر کو بھی پاک انڈیا بارڈر کی طرح سیل کر دیا جائے، باڑ لگائی جائے تاکہ آمدورفت کم ہو اور اسے ریگولرائز کیا جا سکے۔ باڑ لگانے کا فیصلہ تب ہی ہوگیا تھا، تاہم اس وقت حالات ایسے نہیں تھے، یہ خدشہ بھی تھا کہ کہیں امریکی ادارے اس خطے میں جم کر ہی نہ بیٹھ جائیں۔ پھر جب یہ یقین ہوگیا کہ امریکی جانے والے ہیں تو پھر باڑ لگانے کے فیصلے پر عملدرآمد بھی کردیا گیا۔ یہ بہت مشکل ٹاسک تھا جسے بڑی مہارت سے سرانجام دیا گیا۔
مفتی عبدالرحیم صاحب نے یہاں پر ایک ایسی بات کہی، جس سے بعض کئی لوگ متفق نہیں ہوں گے، خاص کر مسلم لیگ ن کے لوگ۔ مفتی صاحب کے بقول جنرل کیانی، جنرل پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام کو کریڈٹ دینا چاہیے (یہ تینوں یکے بعد دیگرے ڈی جی آئی ایس آئی رہے )کہ انہوں نے پاکستان سے غیر ملکی ایجنسیوں کے دائرہ کار کو محدود کیا، انہیں نکلنے پر مجبور کیا اور باڑ لگانے کا عمل بھی شروع کیا۔ جس کا جو کریڈٹ ہے ، وہ اسے ملنا چاہیے ۔
مفتی صاحب نے امریکی میڈیا اور سوشل میڈیا کے حوالے سے برسبیل تذکرہ ایک فقرہ کہا کہ افغانستان میں امریکی بیس سال رہے، امریکیوں کے بقول ساڑھے تین ہزار امریکی فوجی یہاں ہلاک ہوئے جبکہ آزاد ذرائع یہ تعداد بارہ تیرہ ہزار بتاتے ہیں ، بعض کے خیال میں انتالیس ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔ بہرحال جتنی بھی اموات ہوئیں، امریکی میڈیا پر کسی ایک تابوت کی تصویر بھی نہیں دکھائی گئی کہ فوج کا مورال ڈائون نہ ہو۔ جبکہ ہمارے ہاں اس حوالے سے کیسا منفی اور کمزور رویہ میڈیا اور سوشل میڈیا کا ہے۔
مفتی عبدالرحیم نے وہ چند وجوہات بیان کیں جن کے باعث پاکستان کی افغان پالیسی میں شفٹ آیا اور بارڈر مینجمنٹ کا مشکل فیصلہ کیا گیا۔ سب سے پہلے تو جو بھرتیاں امریکی ، برطانوی خفیہ اداروں نے پاکستان میں کر رکھی تھیں، وہ بذات خود ایک خطرہ تھا۔ دوسرا امریکیوں نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں بڑے مراکز بنا کر ہزاروں لوگوں کو ٹرینڈ کیا تھا، وہ جو بیج بوئے گئے تھے، انہیں ختم کرنا آسان نہیں۔ یہ پوٹینشل تھریٹ اتنا بڑا تھا کہ پاکستان کے اثآثہ جات کو اب خطرہ انڈیا سے زیادہ افغانستان سے ہے، وہاں کے لوگوں کی آمدورفت سے ہے، اس لئے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ پاکستان آنے والا کوئی افغان کس نیت سے آیا ہے؟
پاکستان میں موجود افغانوں کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے، گیارہ لاکھ، اکیس لاکھ وغیرہ، تاہم مفتی صاحب کے مطابق حقیقی تعداد بہت زیادہ ہے، یہ سب خام اندازے ہیں۔ زیادہ امکانات ہیں کہ پاکستان میں موجود افغانوں کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے کیونکہ مختلف ادوار میں افغان وہاں سے ہجرت کر کے یا پناہ لینے کی خاطر یہاں آتے رہے ہیں اور وہ کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں۔ جتنے لوگ پاکستان سے افغانستان گئے ہیں، اس سے زیادہ یہاں واپس آئے ہیں۔
سب سے اہم معاملہ پاک افغان بارڈر کراس کرنے والے سمگلروں کا ہے، یہ تین چار قسم کے ہیں۔ معیشت کی کمر توڑ دینے والی ڈالر کی سمگلنگ تھی۔ پاکستان سے سات ارب ڈالر سالانہ افغانستان جاتے رہے، جس سے ڈالر کرائسس آیا۔ آج کل ڈالر کنٹرول میں ہے تو سب سے بڑی وجہ اس سمگلنگ پر کنٹرول ہے۔ دوسری قسم اسلحے کے سمگلرز کی ہے،امریکہ یہاں پر سات ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑ گیا، یہ سب سمگل ہو رہا ہے اور پاکستان کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ تیسری بڑی قسم منشیات کے سمگلرز ہیں۔ افغانستان کے کئی علاقوں میں پوست کی کاشت ہوتی ہے۔ اعلانیہ کاشت ہوتی ہے۔
مفتی عبدالرحیم صاحب نے یہاں ایک ایسی بات بتائی جو میرے لئے تو بالکل نئی ہے۔ان کے مطابق پوست کی کاشت علما میں ایک متنازع ایشو رہا ہے، بعض علما کا خیال ہے کہ جس چیز کے استعمال کے فوائد زیادہ ہوں، وہ جائز ہے، اسی بنیاد پر افغان علما کا فتویٰ تھا کہ پوست کی کاشت جائز ہے کیونکہ یہ ادویات میں استعمال ہوتی ہے۔ ویسے انڈیا میں بھی چار ارب ڈالر کے لگ بھگ پوست کاشت ہوتی ہے، مگر وہ تمام کی تمام ادویات میں استعمال ہوتی ہے۔ پوست کاشت جائز ہونے کا افغان علما کا پرانا فتویٰ تھا جو کہ بعد میں بھی جاری رہا۔
مفتی عبدالرحیم صاحب سے سوال پوچھا گیا کہ ملا عمر نے کیسے کاشت صفر کر دی تو مفتی صاحب نے جواب دیا کہ ملا عمر نےکاشت کو حرام نہیں قرار دیا۔ ملا عمر نے عقلمندی کی کہ فتوے کو چھیڑے بغیر انتظامی حکم جاری کیا کہ بے شک یہ جائز ہو مگر ہمارے لئے انتظامی مسائل ہیں اس لئے اس کی کاشت فوری روک دی جائے اور یوں ان کے حکم پر عملدرامد ہوا اور یہ کاشت صفر ہوگئی ۔ یہ ایک حیران کن انتظامی کامیابی تھی ۔
یہاں ایک اور نکتہ بھی بیان کرتا چلوں، اپنی جگہ یہ بھی دلچسپ بات ہے اور اگر اسے کلچرل حوالے سے دیکھاجائے، معروضی زمینی حقائق کے طور پر تو بات سمجھ آ جاتی ہے۔ مفتی عبدالرحیم صاحب نے برسبیل تذکرہ بتایا کہ جب پوست کی فصل تیار ہوجاتی ہے تو افغانستان کے مدارس میں ایک مہینے کے لئے چھٹی ہوجاتی ہے، طلبہ وہاں جا کر پوست کے ڈوڈے پر نیش لگاتے ہیں یعنی ایسا کٹ جس سے اس کا شیرہ بہہ کر جمع کیا جا سکے۔ یہ طلبہ ایک مہینہ یہ کام کر کے اپنا سال بھر کا خرچہ پورا کر لیتے ہیں۔
منشیات کا یہ مال پھر کانوائے کی صورت میں سمگل ہوتا ہے جن کے پاس جدید ترین ہتھیار ہوتے ہیں۔ یہ ایران کے راستے بھی سمگل ہوتا ہے، پاکستان کے راستے بھی۔ ایران میں اس کی سزا پھانسی ہے اور اس پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ پاکستان میں قوانین اور ان پر عملدرآمد کمزور ہے تو یہ یہاں سے سمگلنگ کی کوشش کرتے ہیں۔
سمگلرز کی ایک قسم عام تجارت کا سامان سمگل کرنے والے ہیں،افغان ٹریڈ وار کے نام پر بھی بہت ساساماں منگوایا جاتا ہے جو دراصل پاکستان میں سمگل ہوتا ہے۔ ایک اورفیکٹر پاکستان میں آزاد قبائلی علاقہ تھا جہاں پر بہت سی بیرونی مداخلت ہوتی ہے، اس لئے ہمارے اداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ بہت ہوا، اب یہ سب ٹھیک کیا جائے، تب ہی فاٹا کا انضمام کے پی کے ساتھ ہوا تاکہ یہ سیف ہیون ختم کی جائے۔
مفتی عبدالرحیم صاحب مختلف اعدادوشمار اور دلائل سے یہ بات کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد پاکستان کو بہت زیادہ نقصان ہوا، معاشی نقصان اور جانی بھی۔ اس وقت پاکستان میں جہاں کہیں شورش اور عسکریت پسندی چل رہی ہے ،ان سب کے پیچھے افغانستان ہے۔ یہ سب ایسی وجوہات تھیں جن کے باعث پاک افغان بارڈر کو کنٹرول کرنا لازمی ہوگیا تھا۔
بارڈر مینجمنٹ اور وہاں موجود باڑ کی یہ تمام مافیاز مخالفت کرتے ہیں، مگر پاکستان کی سالمیت ، ہمارے نیوکلیئر پروگرام کی حفاظت اور ملک میں امن وامان کے لئے ہمیں کسی نہ کسی طرح پاک افغان بارڈرز کو مکمل بند رکھتے ہوئے آمدورفت کو ریگولیٹ کرنا ہوگا، مقررہ راستوں کے ذریعے ہی آنا جانا۔ باڑ کو کاٹنے اور توڑپھوڑ کی بہت سی کوششیں کی گئیں۔ پاک فوج نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا مگر اب زیرو ٹالرنس ہے۔ اب یہ طے ہوچکا ہے آئندہ ایسی ہر کوشش کو ناکام بنایا جائے۔
مفتی عبدالرحیم صاحب کے بقول پاک افغان تعلقات میں شفٹ اسی وجہ سے آئی ہے۔ ہمارے پالیسی ساز ادارے اگر اپنے پاس موجود شواہد اور دلائل عوام کے سامنے رکھیں تو لوگ اسے سمجھ لیں گے۔ بات سادہ ہے۔ ایک ہمارا پڑوسی ملک ہے جو یہاں کے نوجوانوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے، وہاں سے ڈالر، اسلحے اور منشیات کی سمگلنگ ہو رہی ہے، ہر قسم کے عسکریت پسندوں کی پشت پناہی ہو رہی، افغان میڈیا اور سوشل میڈیا پاکستان کے اتنا شدید مخالف ہے کہ انڈین میڈیا بھی اتنی مخالفت نہیں کرتا۔ کسی کو یہ علم ہی نہیں کہ پاکستان میں کتنے افغان لوگ ہیں۔
ہمارے ملک میں جنگ کی سی صورتحال ہے اور ہمارے اندر اتنی بڑی تعداد میں افغان حکومت کے آلہ کار موجود ہوں تو کیسی بڑی بحرانی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ افغانستان کے دیگر پڑوسی ممالک بھی ہیں، کیا وہاں انہیں کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ؟
ابھی ایران نے تیرہ لاکھ افغانوں کو اپنے ملک سے نکالا ہے، مگر ان کا کوئی ذکر تک نہیں کرتا۔ اس لئے بارڈر پر کنٹرول ہونا چاہیے۔پاکستان میں جو افغان موجود ہیں، ان کا ہمیں علم ہونا چاہیے ۔زیادہ سے زیادہ مسئلہ ان قبائل کا ہے جو سرحد کے دونوں اطراف میں رہتے ہیں، انہیں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے رجسٹرڈ کیا جائے، انہیں پرمٹ مل جائے اور وہ آتے جاتے رہیں۔
آخر میں مفتی عبدالرحیم صاحب نے افغان طالبان حکومت کو ایک مفت مشورہ دیا کہ پاکستان میں ان سے ہمدردی رکھنے والے لوگ موجود ہیں، ایسے جو بااثر ہیں اور جو یہ معاملات اچھے طریقے سے سیٹل کرا سکتے ہیں۔کاروباری لوگ بھی ہیں،ریٹائر حضرات بھی ، علما میں بھی ہیں۔
مفتی صاحب کے بقول مذہبی طبقات کا ایک مسئلہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں جو بے اثراور بے بس ہوں ، جبکہ وہ لوگ جو ان سے ہمدردی رکھتے ہوں اور جن کے اہم حلقوں میں روابط ہوں، ان پر مختلف الزامات لگا کر دور کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ لڑائی کے بجائے یہ معاملات آرام سے حل ہوسکتے ہیں۔ ٍاگر ایسا نہیں ہو رہا تو اس کے ذمے دار خود افغان طالبان ہی ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
افغان پالیسی افغانستان پاکستان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان پالیسی افغانستان پاکستان مفتی عبدالرحیم صاحب نے پاک افغان بارڈر افغانستان کے افغان طالبان مفتی صاحب کے پاکستان میں کہ پاکستان پاکستان کے پاکستان کی حوالے سے انہوں نے کے مطابق غیر ملکی کے ساتھ کی کاشت پوست کی سمگل ہو اور پاک کے بقول ہوتی ہے ہوتا ہے اور وہ کیا کہ کے لئے رہا ہے ہے اور ہیں کہ
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
پاکستان اور افغانستان نے باہمی فائدہ مند تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اعلیٰ سطح کے روابط کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحق ڈار نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی کے ساتھ تفصیلی ملاقاتیں کی۔ ان ملاقاتوں میں دوطرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں بشمول سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون، کنکٹیویٹی اور عوامی سطح پر رابطوں سمیت تعاون بڑھانے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
طویل سرد مہری اور باہمی بد اعتمادی کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں ایک نئی رمق پیدا ہوئی ہے، جہاں کابل میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح کے سیکیورٹی مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ اس تاریخی موقع پر دونوں ملکوں کے وفود سیکیورٹی، تجارت اور عوامی رابطوں جیسے اہم مسائل پر مذاکرات میں مصروف ہیں۔
سیاسی مبصرین اس دورے کو دوطرفہ تعلقات میں جمود کو توڑنے کی سنجیدہ کوشش قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ معاشی و تجارتی سرگرمیوں کو سیاسی تناؤ سے متاثر ہونے سے بچانے کے لیے سیاست اور تجارت کو الگ الگ معاملات کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں ممالک کو غیر معمولی سفارت کاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تجارت اور معاشی تعاون کو درپیش سیاسی چیلنجز کے باوجود مسابقتی صلاحیت بڑھانے، ٹرانزٹ ٹریڈ کے مسائل حل کرنے اور تجارتی سہولیات کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک منظم طریقہ کار کے تحت جاری رکھنا ہوگا،دونوں ممالک کو ایک ڈیجیٹل دستاویزی نظام اپنانا چاہیے جو کاروباری مقاصد کے لیے نقل و حرکت کو آسان بنائے۔ سرحد کے ساتھ تجارتی زون قائم کیے جاسکتے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان ڈیوٹی فری تجارت کی اجازت دیتے ہوں۔
پاکستان کو یو این ایچ سی آر اورکابل کے تعاون سے وطن واپسی کی ہم آہنگ پالیسی اپنانے کی بھی ضرورت ہے جو غیر امتیازی اور انسانیت پسند ہو۔کابل کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ تجارت کے فروغ میں رکاوٹ دونوں ممالک کے درمیان بارڈرز تنازعات ہیں، اچانک راستے بند ہوجاتے ہیں،کنٹینرزکو پورٹ پر روک دیا جاتا ہے، گزشتہ برس ساڑھے 4 ہزارکنٹینرز کراچی کے پورٹ پر کھڑے رہے۔ تاجروں کا مال ایسے پڑا رہے تو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے، دراصل دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جو بگڑتا جا رہا ہے۔
سرحد کی بندش سے روزانہ تقریباً 15 لاکھ ڈالر سے زائد کا نقصان ہوتا ہے۔ اسی طرح ڈیورنڈ لائن پر کشیدگی برقرار رہی ہے، جس کی وجہ سے اکثر سرحدیں بند کی جاتی رہی ہیں۔ طالبان نے باڑ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر کے اور ہٹا کر پاکستان کی جانب سے سرحد پر باڑ لگانے کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے، افغان طالبان نے جان بوجھ کر سرحدی مسئلے پر توجہ مرکوز رکھی ہے تاکہ قوم پرست جذبات کو بھڑکایا جاسکے، خود کو پاکستان سے دور رکھا جاسکے اور مذہبی اور قوم پرست دونوں خطوط پر عوامی قانونی حیثیت حاصل کی جاسکے۔
صوبہ بلوچستان کو دو ممالک افغانستان اور ایران کی سرحدیں لگتی ہیں۔ یہ دونوں ممالک تجارتی طور پر وطن عزیز کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ وسطی ایشیائی ممالک سے تجارتی معاملات میں افغانستان اور ایران سے ترکی و یورپ تک رسائی ممکن ہے۔ اس وقت بلوچستان تجارت کے حوالے سے اپنی ایک الگ اہمیت رکھتا ہے، صوبے کو علاقائی سطح پر جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا جارہا ہے، جس کا مقصد وطن عزیز سمیت صوبائی ترقی میں ایک نئی تبدیلی کا تعین ہے۔ دوسری طرف بادینی ٹریڈٹرمینل جس جگہ واقع ہے، وہاں تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے سب سے پہلے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر انتہائی ضروری ہے، جسے ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جانا چاہیے، چونکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے یہ علاقہ انتہائی طویل فاصلے (تقریباً گیارہ گھنٹے) کی مسافت پر ہے اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر سڑکوں کی تعمیر بھی اس طرح نہیں کہ فوری طور پر تجارتی سرگرمیاں شروع کی جائیں۔
تجارتی سرگرمیوں کا انحصار اس کی لوازمات پر ہوتا ہے، افغانستان سے منسلک یہ سرحدی علاقہ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے میں واقع ہے اور اس پوائنٹ سے افغانستان چمن سرحدی علاقے سے قریب پڑتا ہے، تاہم ضروری لوازمات کے بغیر تجارتی سرگرمیوں کی بحالی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس تجارتی ٹرمینل کے روٹ کے لیے ایک خطیر رقم جلد فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی تمام متعلقہ اداروں کو آن بورڈ لیتے ہوئے اس پر ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرنے اور اِن فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو یقینا دونوں ممالک کے مابین تجارت کو نہ صرف فروغ ملے گا بلکہ اس علاقے سے جڑے ہوئے لوگوں کی زندگی میں بھی بڑی تبدیلی آئے گی۔
پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تعلقات سے متعلق معاملات میں بات چیت کو ترجیح دی ہے، پاکستان افغانستان کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتا ہے تاہم اپنے شہریوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔ پاکستان کا موقف اس معاملے میں خاصا واضح ہے، چونکہ افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے، اس لیے وہ مکمل آزادی کے ساتھ افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر تے ہیں اور حملہ کر کے واپس اپنی پناہ گاہوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ جب سے افغانستان میں طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے، اعداد و شمار بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی توقعات کے برعکس کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں کمی کے بجائے اِن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات ہوئے، جن کے تانے بانے افغانستان میں موجود تنظیموں سے ملتے ہیں۔ اگرچہ طالبان حکومت نے بارہا یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی، مگر عملی طور پر صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی افغانستان میں موجودگی پاکستان کے لیے ایک مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔
افغانستان کے معاملے میں ایک اور اہم پیش رفت امریکا کی حکمت عملی میں تبدیلی ہے۔ ماضی میں امریکا نے طالبان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے پاکستان کو انگیج کیا، لیکن اب وہ خلیجی ممالک کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے۔ اپنا ایک یرغمالی بھی امریکا خلیجی ممالک کے توسط سے رہا کروا کے لے گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا پاکستان پر اپنا انحصار کم کر رہا ہے، جو کہ پاکستان کے لیے ایک سفارتی چیلنج ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو مزید موثر بنائے اور افغانستان کے ساتھ براہ راست تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔
اگر پاکستان، افغانستان تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اس کے مثبت اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے علاوہ، اقتصادی تعاون، راہداری منصوبے، تجارتی معاہدے اور عوامی روابط دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ ایک مستحکم افغانستان کی حمایت کی ہے اور اب یہ طالبان حکومت پر منحصر ہے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو دورکرے اور بھارتی مداخلت سے دور رہے۔ دوسری جانب عالمی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات بہتر ہوں بلکہ عالمی طاقتیں تو افغانستان پر مسلط ہونا چاہتی تھیں۔ ان حالات میں بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمارے عوام کے لیے بہترکیا ہوگا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سفارتی اور سیکیورٹی کی سطح پر مشترکہ کوششیں ناگزیر ہیں۔ پاکستان نے مثبت قدم اٹھاتے ہوئے افغانستان کے ساتھ دوبارہ بات چیت شروع کی ہے، لیکن یہ یکطرفہ عمل نہیں ہونا چاہیے۔
افغانستان کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو سنجیدگی سے لے اور عملی اقدامات کرے،اگر دونوں ممالک مسائل کا حل نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک خوش آیند پیش رفت ہوگی۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور قومی یکجہتی، دونوں ہی دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ناگزیر ہیں۔ خطے میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمے داری سب پر عائد ہوتی ہے، اگر افراتفری کی کیفیت ہوگی تو اس کے اثرات سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ بات طے ہے کہ ہر معاملے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے، یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔