پنجاب: چنگ چی رکشہ ساز فیکٹریوں کو سیل کرنے کا عندیہ
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
---فائل فوٹو
لاہور ہائی کورٹ نے چنگ چی رکشوں سے متعلق اپنے ریمارکس میں چنگ چی رکشہ بنانے والی فیکٹریوں کو سیل کرنے کا عندیہ دے دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کےجج جسٹس شاہد کریم نے جسٹس ہارون فاروق کے ہمراہ اسموگ کے تدارک اور چنگ چی رکشوں سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔
محکمۂ ماحولیات، چیف ٹریفک آفیسر ڈاکٹر اظہر وحید و دیگر محکموں کے افسران عدالت میں پیش ہوئے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد علی باجوہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
سی ٹی او اظہر وحید نے عدالت کو بتایا کہ چنگ چی رکشے پر پابندی کے لیے سمری ہوم ڈیپارٹمنٹ کو بھجوا دی ہے۔
جسٹس شاہد کریم نے چنگ چی رکشہ بنانے والی فیکٹریوں کو سیل کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ چنگ چی رکشوں کے مینوفیکچررز کے لائسنس ابھی روک رہا ہوں، مینوفیکچررز 3 ماہ میں ٹرانسپورٹ قوانین کا عمل درآمد یقینی بنائیں ورنہ انہیں سیل کر دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے چنگ چی رکشہ پر پابندی، عدالت نے اسٹے آرڈر دے رکھا ہے، شرجیل میمن شملہ پہاڑی کے گردونواح میں چنگ چی رکشاؤں پرپابندی پنجاب حکومت کا چنگ چی رکشہ بند کروانے کا اصولی فیصلہچیف ٹریفک آفیسر اظہر وحید نے عدالت کو بتایا کہ چنگ چی رکشے لوگوں کی اموات کا باعث بن رہے ہیں۔
جسٹس شاہد کریم نے حکم دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت کے وکیل چنگ چی رکشہ بنانے والوں کو 3 ماہ کا نوٹس جاری کریں، غیر قانونی چنگ چی رکشوں پر پابندی لگانا بہت ضروری ہے، آئندہ ہفتے یہ سمری وزیرِ اعلیٰ کے پاس پہنچ جانی چاہیے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ چنگ چی رکشوں کو روکنا ضروری ہے، نہیں تو یہ پورے شہر میں پھیل جائیں گے، چنگ چی رکشہ بنانے والی کمپنیوں کو بند کر دینا چاہیے، ان کمپنیوں کو 3 ماہ میں ریگولیٹ ہونے کا وقت دیں۔
سی ٹی او لاہور نے عدالت کو بتایا کہ چنگ چی رکشے کے ایکسیڈنٹ میں 10 لوگ جاں بحق ہوئے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ یہ نہایت ضروری ہے کہ چنگ چی رکشوں کو کنٹرول کیا جائے، آئندہ سماعت پر وزیرِ اعلیٰ کو اس سے متعلق سمری بھجوانے کی رپورٹ دیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے مال روڈ پر احتجاج سے ٹریفک جام ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج اور مذاکرات کا مطلب یہ نہیں کہ سارے شہر کو بند کر دیا جائے۔
جسٹس شاہد کریم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سڑک پر کئی روز سے احتجاج ہو رہا ہے، ان سے بات کریں، انہیں کسی اور جگہ بٹھائیں۔
اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ مظاہرین سے ڈائیلاگ ہو رہے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے اسموگ کنٹرول کرنے میں حکومتی محکموں کو ناکام قرار دے دیا۔
جسٹس شاہد کریم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ احتجاج کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سڑکیں بند کر دیں، ایک سڑک کے بند ہونے سے پورے شہر کا ٹریفک متاثر ہو رہا ہے، موسمی حالات بدل رہے ہیں، اپریل میں 3 طرح کے شدید موسمی حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے، اپریل میں شدید گرمی، شدید بارش اور شدید ژالہ باری کا سامنا کرنا پڑا، ہمیں اس کا کوئی مستقل حل نکالنا ہو گا۔
جسٹس شاہد کریم نے استفسار کیا کہ مال روڈ پر بیٹھے مظاہرین کا کیا ایشو یے ؟ آپ ان کا معاملہ دیکھیں اور ان کو کسی اور جگہ بٹھائیں۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ مظاہرین سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔
اس پر عدالت نے کہا کہ مظاہرین کی وجہ سے ٹریفک مشکلات بڑھ گئی ہیں، 10 منٹ ٹریفک رکنے سے آلودگی کئی گنا بڑھ جاتی ہے، آنے والے دنوں میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گا، بہرحال اس صورتِ حال کو بہتر بنائیں۔
سی ٹی او لاہور نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے اس سے قبل بھی اہم ایونٹس پر سڑکیں بند نہیں کیں، وارڈنز کے الاؤنسز کی تجویز بھیج رکھی ہے، بھکاریوں کے خلاف کارروائی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، جرمانوں کے ڈیجیٹل ٹکٹ جاری کر رہے ہیں۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ان سب کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔
سی ٹی او نے بھکاریوں کے خلاف کارروائی سے متعلق رپورٹ پیش کر دی۔
چیف ٹریفک آفیسر نے عدالت میں کہا کہ بھکاریوں سے متعلق قانون سازی کی ضروت ہے۔
اس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ عدالت کافی عرصے سے کہہ رہی ہے کہ مستقل قانون سازی بہت ضروری ہے۔
بعد ازاں کیس کی مزید سماعت 25 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جسٹس شاہد کریم نے چنگ چی رکشہ بنانے لاہور ہائی کورٹ چنگ چی رکشوں کہ چنگ چی عدالت نے ضروری ہے سی ٹی او کرنے کا رہے ہیں سیل کر
پڑھیں:
بیٹا مجرم ہو تو سزا دیں مگر غائب نہ کریں، وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد کی استدعا
پشاور:وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد نے عدالت میں مقدمے کی سماعت کےد وران کہا کہ میرا بیٹا مجرم ہے تو اسے سزا دیں مگر ایسے غائب نہ کریں۔
ہائی کورٹ میں وزارت داخلہ کے ملازم کمپیوٹر آپریٹر محمد عثمان کی گمشدگی سے متعلق درخواست پر سماعت قائم مقام چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کی، جس میں لاپتا شخص کے والد، وکیل، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کے ساتھ سفید کپڑوں میں ملبوس افراد نے درخواست گزار کو گھر سے اٹھایا۔
وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد نے بتایا کہ گزشتہ 7 ماہ سے میرے بیٹے کو لاپتا کیا گیا ہے۔ ہم محب وطن ہیں، ہمارے خاندان کا کوئی بھی فرد وطن کے ساتھ غداری نہیں کرسکتا۔
جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کے بیٹے نے کیا کیا ہے کہ اسے غائب کیا گیا، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میرے بیٹے نے اگر کچھ کیا ہو تو سزا دیں، لیکن اس طرح غائب نہ کریں۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رپورٹس دیکھنے کے بعد ہم فیصلہ کر سکیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے پولیس سمیت وفاقی اور صوبائی حکومت سے رپورٹ طلب کرلی۔