سی آئی ڈی میں نئے اے سی پی کی انٹری، ساتھی کرداروں کا ردعمل کیسا تھا؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
مشہور کرائم شو سی آئی ڈی میں اے سی پرادیومن کی جگہ لینے والے اداکار پرتھ سمتھان نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اپنے نئے کردار ’اے سی پی انشومن‘ کے حوالے سے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
اداکار نے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی جس میں انہیں ڈرامے کے دیگر کرداروں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیو میں ادکار چائے کا کپ ہاتھ میں اٹھائے ہوئے ہیں جبکہ ڈرامے کے دیگر کردار انہیں عجیب نظروں سے دیکھتے دکھائی دیتے ہیں۔
انہوں نے ویڈیو کے ساتھ ایک جذباتی نوٹ بھی لکھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ کبھی بھی اس مشہور شو کا حصہ بننے کا تصور نہیں کرتے تھے۔
View this post on Instagram
A post shared by Parth Samthaan (@the_parthsamthaan)
اپنے تجربے کو شیئر کرتے ہوئے، انہوں نے لکھا، ’سب سے مشہور، پسندیدہ اور سب سے طویل چلنے والا شو سی آئی ڈی شو ہمیشہ ہمارے بچپن اور بھارتی ٹیلی ویژن کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے تمام مشہور ڈائیلاگ اور افسران (اے سی پی پرادیومن، دیا اور ابھجیت) لیجنڈز بن گئے ہیں۔ اور اس کا حصہ بننا میری خوش قسمتی ہے‘۔
اداکار نے مزید کہا، ’5 سال بعد ٹی وی پر واپسی کرتے ہوئے، ایمانداری سے کہوں تو سی آئی ڈی وہ شو تھا جس کا میں کبھی حصہ نہیں بننا چاہتا تھا، لیکن پھر، یہی ہے زندگی۔ ہمیشہ غیر متوقع اور پراسرار، اور میں ہمیشہ اپنے لیے غیر منظم راستہ اختیار کرتا ہوں، ’کیسی یہ یاریاں‘ اور ’کسوٹی زندگی کی‘۔
یہ بھی پڑھیں: سی آئی ڈی میں اے سی پی پردیومن کی جگہ اب کون لے گا؟
انہوں نے آخر میں کہا کہ آئیے اس خوبصورت سفر کا آغاز کرتے ہیں اور کچھ کیسز حل کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے اداکار نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ سی آئی ڈی میں شمولیت کی پیشکش ان کے لیے غیر متوقع تھی اور انہوں نے ابتدائی طور پر اسے مسترد کر دیا تھا کیونکہ وہ اتنے بڑے کردار کے لیے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں یہ عجیب لگا کہ سینئر اداکار جیسے دایانند شیٹی اور ادیتہ شرواستاو انہیں ’سر‘ کہہ کر پکاریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انڈین ڈرامے اے سی پی پرادیومن سی آئی ڈی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انڈین ڈرامے اے سی پی پرادیومن سی ا ئی ڈی سی آئی ڈی انہوں نے اے سی پی ڈی میں
پڑھیں:
بنگلہ دیش کے معافی کے مطالبے پر پاکستانی دفتر خارجہ کا ردعمل
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ اعلیٰ سطحی سفارتی مشاورت کے دوران بعض دیرینہ معاملات پر بات چیت ہوئی، جن میں 1971 کے واقعات پر بنگلہ دیش کی جانب سے رسمی معافی اور معاوضے کے مطالبات شامل تھے۔
دفتر خارجہ کی سیکریٹری آمنہ بلوچ گزشتہ دنوں 15 سال بعد دفتر خارجہ کی مشاورت کے لیے ڈھاکہ پہنچیں۔ ملاقات کے بعد بین الاقوامی میڈیا اور بنگلہ دیشی اخبارات ”ڈیلی اسٹار“ اور ”ڈھاکہ ٹریبیون“ نے رپورٹ کیا کہ بنگلہ دیش نے 1971 کے واقعات پر معافی، معاوضے، غیر ادا شدہ فنڈز اور 1970 کے سمندری طوفان کے لیے ملنے والے بین الاقوامی عطیات کی رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈیلی اسٹار کے مطابق بنگلہ دیشی سیکریٹری خارجہ جاشم الدین نے کہا کہ ’ان معاملات کو حل کیے بغیر مضبوط دوطرفہ تعلقات ممکن نہیں‘۔
ڈھاکہ ٹریبیون نے ان کے حوالے سے لکھا کہ ’یہ معاملات ہماری باہمی بنیاد کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔‘
جس کے بعد ہفتہ وار پریس بریفنگ میں سوال و جواب کے دوران دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’کچھ دیرینہ معاملات واقعی زیر بحث آئے، تاہم دونوں فریقوں نے انہیں باہمی احترام اور افہام و تفہیم کے ماحول میں پیش کیا۔‘
شفقت علی خان نے کہا کہ بعض عناصر ’جھوٹی یا سنسنی خیز خبریں پھیلا کر‘ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، انہوں نے زور دیا کہ مذاکرات انتہائی خوشگوار اور تعمیری ماحول میں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ’15 سال کے تعطل کے بعد ان مشاورتوں کا انعقاد دونوں ممالک کے درمیان خیرسگالی اور ہم آہنگی کا ثبوت ہے، اور گمراہ کن رپورٹس اس اہم پیشرفت کی اہمیت کو کم نہیں کر سکتیں۔‘
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ دونوں ممالک نے سیاسی، معاشی، ثقافتی، تعلیمی اور تزویراتی تعاون پر وسیع تبادلہ خیال کیا، جو مشترکہ تاریخ، ثقافتی ہم آہنگی اور عوامی امنگوں پر مبنی ہے۔ دونوں فریقوں نے نیویارک، قاہرہ، ساموآ اور جدہ میں ہونے والی حالیہ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور تعلقات میں بہتری کے لیے مسلسل ادارہ جاتی رابطے، زیر التواء معاہدوں کی جلد تکمیل، تجارت، زراعت، تعلیم اور روابط میں تعاون بڑھانے پر زور دیا۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق، پاکستان نے اپنی زرعی جامعات میں تعلیمی مواقع فراہم کرنے کی پیشکش کی، جبکہ بنگلہ دیش نے فشریز اور میری ٹائم اسٹڈیز میں تکنیکی تربیت کی پیشکش کی۔ بنگلہ دیشی فریق نے پاکستانی نجی جامعات کی جانب سے اسکالرشپ کی پیشکش کو سراہا اور تعلیم کے شعبے میں مزید تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس اگست میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ دسمبر میں قاہرہ میں ڈی-8 کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ ڈاکٹر محمد یونس کے درمیان ملاقات میں 1971 کے تناظر میں باقی ماندہ شکایات کو حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔
دونوں ممالک کی افواج بھی جنوری میں اس بات پر متفق ہوئیں کہ ان کے باہمی تعلقات کو بیرونی اثرات سے محفوظ رکھا جائے اور دیرپا شراکت داری کو فروغ دیا جائے۔
Post Views: 2