WE News:
2025-04-22@01:26:20 GMT

قدرت ناراض ہے

اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT

16 اپریل کی شام، پاک سیکریٹریٹ اسلام آباد میں روٹین کا کام جاری تھا۔ میں اور میری کولیگ مریم دفتر میں کافی کے کپ کے ساتھ کام میں مصروف تھے۔ ایسے میں گھٹا کا اٹھنا، تیز ہوا چلنا اور ہلکی بارش ہونا ایک خوشگوار سا وقفہ لگا۔ ہم دونوں مارے اشتیاق کے کھڑکی سے باہر جھانکنے لگے۔

ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اچانک بارش تیز ہو گئی۔ پہلے کھڑکیاں بند کیں۔ پھر یوں لگا جیسے شیشے پر برسنے والے بڑے بڑے، بے رحم اولوں نے الٹی میٹم دے دیا ہو۔ ایک لمحے میں اندازہ ہو گیا کہ بارش نہیں، ژالہ باری ہے اور ساتھ نقصان بھی متوقع ہے۔ ہم نے فوراً کمرہ چھوڑا اور کوریڈور کی جانب بھاگے، جہاں دوسری طرف دفتر کے ملازمین ایک شیشے کے سامنے جمع تھے۔

ہم نے بھی ویڈیو بنانے کے لیے موبائل نکالا۔ اولے شدت سے گرتے رہے۔ آنکھوں کے سامنے گاڑیوں کی ونڈ اسکرینز، دفتر کی کھڑکیاں اور بیرونی شیشے ٹوٹتے جا رہے تھے۔ بارش برسنے کی خوشی پہلے حیرت میں بدلی، پھر خاموشی میں اور پھر ایک عجیب سے دکھ میں ڈھل گئی۔

اسی دوران دفتر کی چائے کے برتن سمیٹتی ملازمہ سے میں نے کہا، ’بہت نقصان ہو گیا، گاڑیاں ٹوٹ گئیں، شیشے چکنا چور ہو گئے۔‘

وہ رُکی، میری طرف دیکھا، اور دُکھی لہجے میں بولی، ’میڈم! نقصان تو گندم کی فصل کا ہوا ہے، کھڑی فصل خراب ہو جائے گی۔‘

اُس کی بات نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ واقعی، نقصان کی شدت اور نوعیت ہر طبقے کے لیے مختلف ہے۔ ایک شہری کے لیے گاڑی کی مرمت کا خرچ، اور ایک دیہاتی کے لیے ساری فصل کا تباہ ہو جانا۔ ژالہ باری مختصر تھی لیکن میرا فلیش بیک طویل ہوگیا۔

مجھے یاد ہے، بیس سال پہلے جب ہم مقابلے کے امتحانات کی تیاری کرتے تھے، اساتذہ ہمیں مضمون لکھواتے تھے: ’موسمیاتی تبدیلی — افسانہ یا حقیقت؟‘

اُس وقت بیشتر طلباء اسے مغرب کی سازش اور بین الاقوامی اداروں کا واویلا سمجھتے تھے۔

میرا خیال ہے ہمارے خلاف سب سے بڑی سازش وہ اندرونی جہالت ہے جس سے ہم  پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ اُس وقت موسمیاتی تبدیلی کو سازش کہنے والے شاید آج بھی اسے صرف عذاب سے تعبیر کرتے ہوں گے۔

ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ جب 2022 کے تباہ کن سیلاب نے ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈبو دیا،  لاکھوں افراد بے گھر ہوئے،  معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا اور آج میری فیس بک پوسٹ پر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی دوست بشری مسعود نے لکھا ‘ شام کے 7 بجے ہیں اور حیدرآباد میں درجہ حرارت 46 ڈگری ہے جو کہ 49 محسوس ہو رہا ہے‘۔ کہیں شدید بارشیں، فلیش فلڈنگ تو کہیں قحط۔ درختوں کی کٹائی، زمین کی بنجر ہوتی حالت، اور پانی کی کمی۔

 یہ سب ایک مربوط موسمیاتی بحران ہے اور زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ مسلسل بگڑ رہا ہے۔

کل کا ’مفروضہ‘  آج کی سب سے اہم حقیقت بن چکا ہے۔ مگر افسوس، ہم نے اِسے یا تو عذاب کہہ کر رد کر دیا، یا دعا مانگ کر اپنی ذمہ داری پوری سمجھی۔ ہمارے یاں عمل کا خانہ کیوں خالی ہے؟

 دین میں تدبیر کی بھی تلقین ہے، اس پر توجہ کیوں نہیں؟

اب تدبیر کی بات کرو تو ساری ذمہ داری حکومتوں پر ڈال دیتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے نپٹنے کے لیے  سماجی شعور بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنے حکومتی اقدامات۔

جنگلات کی بے دریغ کٹائی، صنعتی دھوئیں، گاڑیوں کی آلودگی، پلاسٹک کا بے تحاشہ استعمال—یہ سب ماحول کے توازن کو بگاڑتے ہیں۔ اور جب توازن بگڑتا ہے تو قدرت اپنا ردِ عمل دیتی ہے۔

 ہمیں تو فرد، معاشرہ اور ریاست، تینوں سطحوں پر اپنی ذمہ داری نبھانی ہے تب کہیں بچاؤ ممکن ہے۔  یہ تو طے ہے کہ سیمینار، کانفرنسوں، یا ہیش ٹیگز سے موسمیاتی تبدیلی نہیں رک سکتی۔

جب تک ہمیں احساس نہ ہو کہ درخت لگانا اور سبزہ اگانا فیشن نہیں ہماری بقا کے لیے ضروری ہے۔

خدارا ! اپنے گھروں، گلیوں، دفاتر، اسکولوں اور خالی مقامات پر درخت لگائیں۔ درخت بارش کے نظام کو بحال کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ درخت لگانے کے ساتھ ہی زمین اور اس سے جُڑی ہوئی نعمتوں کے بے جا استعمال سے بھی گریز کریں۔ کھانا اتنا کھائیں جتنی ضرورت ہو، پانی اتنا استعمال کریں جتنی ضرورت ہو اور  گھر بھی اتنا بنائیں جتنی ضرورت ہو، باقی زمین سبزہ کے لیے چھوڑ دیں۔ زمین کو سانس لینے دیں۔

سیمنٹ کے جنگل اور ہاؤسنگ سوسائٹی کے پھیلاؤ کو مل کر روکیں ، اب عمودی ہاؤسنگ کو فروغ دیں۔ اگر عمودی ہاؤسنگ سے دبئی، یورپ وغیرہ میں رہنے والوں کی شان نہیں گھٹی تو آپ کی بھی نہیں گھٹے گی۔

پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کر دیں۔ کپڑے کے تھیلوں کو فروغ دیں۔ حکومت کو چاہیے کہ صنعتی اداروں کو ماحولیاتی ضوابط کا سختی سے پابند بنائے تاکہ کاربن اخراج کم ہو اور ہوا صاف رہے۔

اور بھی بہت کچھ ہے لکھنے اور کرنے کو لیکن کہیں سے تو شروع کریں۔

اگر ہم سمجھیں تو  ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے موسمیاتی واقعات دراصل وارننگ ہیں کہ نظام قدرت ہماری حرکتوں سے ناراض ہے۔

آسمان اور زمین دونوں کو ناراض کرکے جائیں گے کہاں؟ سوچا ہے؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

قرۃ العین فاطمہ

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی کے لیے

پڑھیں:

فلسطین اور غزہ کے نام پر لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے: عظمیٰ بخاری

عظمیٰ بخاری— فائل فوٹو

وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ فلسطین اور غزہ کے نام پر لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔

اپنے ایک بیان میں عظمیٰ بخاری نے کہا کہ مسیحی برادری کو ایسٹر کی مبارکباد دیتی ہوں، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی طرف سے بھی مسیحی برادری کو مبارک باد دیتی ہوں۔

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ فلسطین اور غزہ کے نام پر لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، ان فوڈ چین میں 25 ہزار پاکستانی ملازم ہیں، فوڈ چین پر حملوں میں جاں بحق ہونے والا بھی پاکستانی تھا۔

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ فوڈ چین پر حملوں کا نقصان پاکستان کو ہو رہا ہے، کسی کو بھی امن و امان خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، فوڈ چین پر حملے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ فوڈ چین پر حملوں میں ملوث 149 ملزمان گرفتار کرلیے گئے ہیں، حملے ایک منصوبہ بندی کے تحت صرف پنجاب میں ہو رہے ہیں، ترقی کرتے پنجاب پر تشدد پسند گروہ حملے کررہا ہے، کسی گروہ کو امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں زلزلے کا خدشہ!
  • پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے، طلال چودھری
  • وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی کل گلگت بلتستان کا دورہ کرینگے
  • پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے، وزیر مملکت طلال چودھری
  • فلسطین اور غزہ کے نام پر لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے: عظمیٰ بخاری
  • ریلوے میں بدانتظامی، مسافر ناراض، ری فنڈنگ میں ریکارڈ اضافہ
  • کوئی کتنا ہی ناراض ہو انصاف دباؤ کے بغیر ہونا چاہیے، آغا رفیق
  • کینال منصوبوں سے سندھ اور پنجاب کے کسانوں کو نقصان ہوگا، سعید غنی
  • عالمی فوڈ چین پر حملہ: گرفتار ملزمان نے قوم سے معافی مانگ لی
  • خیبرپختونخوا میں بارشوں سے نقصان کی تفصیل جاری