ٹرانسفر ججز نے وکیل نہیں کیا، فیصلہ قبول کرینگے: اٹارنی جنرل
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق درخواستوں پر جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی۔ وفاقی حکومت نے پہلے ہی تحریری جواب جمع کروا رکھا ہے، جس میں عدالت سے درخواستوں کو مسترد کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تینوں ججز کو نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ان تینوں ججز کا وکیل کون ہے؟۔ اس پر اٹارنی جنرل منصور نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم سومرو اور جسٹس محمد آصف نے کوئی وکیل مقرر نہیں کیا۔ ان ججز کا موقف ہے کہ آئینی بنچ جو بھی فیصلہ کرے گا، وہ اسے قبول کریں گے۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر کردہ درخواست کو واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دیا۔ تاہم درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے درخواست واپس لینے کی کوئی استدعا نہیں کی اور بغیر ہدایت درخواست کی واپسی کی تحریری استدعا دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا بیان ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے وضاحت کی کہ بار ایسوسی ایشن کی مجلس عاملہ نے قرارداد کے ذریعے درخواست واپس لینے کا فیصلہ کیا اور متاثرہ ججز نے علیحدہ سے اپنی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ عدالت نے کہا کہ اگر بار ایسوسی ایشن خود درخواست واپس لے رہی ہے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فی الحال اسلام آباد ہائی کورٹ کا مستقل چیف جسٹس مقرر نہیں کیا جا رہا اور جوڈیشل کمشن کے ایجنڈے میں یہ معاملہ شامل نہیں ہے۔ چیف جسٹس کی تقرری کے لیے کم از کم 14 روز پہلے آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔2 مئی کو ہونے والے جوڈیشل کمشن کے اجلاس میں پشاور اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز کا معاملہ زیر غور آئے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت منگل سے کی جائے گی اور آئینی بنچ نے سماعت22 اپریل تک ملتوی کر دی۔ ادھر خیبر پی کے حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کے موقف کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے نے عدالت کو بتایا کہ وہ متاثرہ ججز کی پٹیشن کی حمایت کرتے ہیں۔ جب جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا انہوں نے تحریری جواب جمع کرایا ہے، تو ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ابھی جواب جمع نہیں کرایا گیا۔ جس پر عدالت نے انہیں جواب جمع کرانے کی اجازت دی۔ متاثرہ ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دئیے کہ وفاقی حکومت نے ججز کی آمادگی کے بیانات یا صدر و چیف جسٹس کی منظوری کا کوئی دستاویزی ثبوت جمع نہیں کرایا۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ یہ سارا پراسیس متنازعہ ہے۔ تاہم اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ تمام عمل رضامندی سے ہوا ہے اور یہ معاملہ متنازعہ نہیں ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ اگر یہ معاملہ متنازعہ نہیں تو آمادگی کے بیانات عدالت میں پیش کیے جائیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ یہ بیانات جمع کرا دیئے جائیں گے۔ بنچ کے رکن جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ یہ معاملہ شروع کہاں سے ہوا۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ مجھ سے جو سوالات ہوئے میں نے تحریری معروضات کی شکل میں عدالت کے سامنے رکھے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوجی عدالتوں میں منصفانہ ٹرائل ہوتا ہے، فوجی عدالتیں قانون کے تحت وجود میں آئی ہیں۔ لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹر ائل ہوسکتا ہے، فوجی عدالتوں کے ٹرائل میں مروجہ طریقہ کار اور فیئر ٹرائل دونوں میسر ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں میں مکمل انصاف کے لیے افسر باقاعدہ حلف لیتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ آرٹیکل 175 پڑھیں، واحد آرٹیکل ہے جو عدالتوں کو جواز فراہم کرتا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ محرم علی آوے لیاقت حسین کیس میں کہا گیا کہ کورٹ مارشل 175 میں نہیں آتا، یہاں تک کہ جس فیصلے کیخلاف اپیل دائر ہوئی اس میں بھی کہا گیا کہ فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 میں نہیں آتیں، آرٹیکل 142 کے تحت وفاقی حکومت کو فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت قانون بنانے کا اختیار ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جا سکتا ہے یا نہیں، اگر عدالت کہا جاسکتا ہے تو دوبارہ آرٹیکل 175 پڑھیں۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کل کے بعد کیس کی سماعت 28 تاریخ تک ملتوی کریں گے۔28 تاریخ تک بنچ دستیاب نہیں ہو گا۔28 تاریخ کو اٹارنی جنرل اپنے دلائل کا آغاز کریں۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا آپ کو مزید کتنا وقت درکار ہے؟۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس جمال کے سوالات کے جواب دینا ہیں، مجھے آدھا گھنٹہ یا چالیس منٹ مزید درکار ہوں گے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئیے کہ اگر مسئلہ میرے سوالات کا ہے تو میں اپنا سوال واپس لیتی ہوں۔ جسٹس جمال مندوخیل کہا کہ میں ابھی اپنا سوال واپس لیتا ہوں، اٹارنی جنرل کی کیا پوزیشن ہے وہ کہاں ہیں؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو دو سے تین دن کا وقت درکار ہے۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دئیے کہ یہ کیا مذاق ہے، بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئیے کہ اٹارنی جنرل نے خود کہا تھا میں دس منٹ لوں گا، صرف اپیل کا حق دینا ہے یا نہیں اس پر بات کرنی تھی۔ عامر رحمان نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے عدالتی حکم پر ہی پیش ہونا ہے ورنہ وفاق کی وکالت خواجہ حارث کر رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل نے خود اپنا حق خواجہ حارث کو دے دیا تو ہم انہیں کیوں سنیں؟۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
سابق ائیر وائس مارشل کا کورٹ مارشل، وزارت دفاع سے ریکارڈ طلب
راولپنڈی:اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس خادم حسین سومرو نے سابق ائیر وائس مارشل جواد سعید کو سیکرٹ ایکٹ کے تحت 14 سال قید، سزا کے بعد اڈیالہ جیل بھجوانے کے بجائے میس میں رکھنے اور مقدمہ کی تفصیلات فراہمی کی نظر ثانی درخواست پر وزارت دفاع اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر کے29 اپریل کو ریکارڈ طلب کر لیا۔
ان کے وکیل کرنل( ر) انعام الرحیم کا موقف تھا کہ جواد سعید 18 مارچ 2021 کو ریٹائر ہوئے، ان کا نام ائیر چیف کے لیے نامزد افراد کی فہرست میں بھی شامل تھا، انہیں یکم جنوری 2024 کوگرفتار کیا گیا۔
انہیں کس جرم پر سزا دی گئی اس کا علم نہیں، چارج شیٹ بھی نہیں دی گئی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ انہیں ملٹری کورٹ نے گرفتاری کے بعد دو دن میں سزا سنائی، اپیل میں سزا میں چھ سال کمی کر دی گئی۔
ان کی رحم کی اپیل ائیر چیف کے پاس التوا میں ہے، وہ اسلام آباد میں ائیرفورس کے ایک میس میں قید ہیں جسے سب جیل کا درجہ دیا گیا ہے۔