اسٹیبلشمنٹ نے زبردستی لوگوں کو اٹھا کر حکومتیں بنانی شروع کر دیں،علی امین گنڈا پور
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
یہ جوتے پالش کرنے والے لوگ چاہتے ہیں، ایسے چلتا رہا تو ہم غلام ہی رہیں گے
عمران خان کا مسئلہ کرسی نہیں، بلکہ وہ پاکستان کو آزاد، خودمحتار بنانا چاہتا ہے ، خطاب
وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے وکلا سے خطاب کرتے کہا ہے اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے زبردستی لوگوں کو اٹھا کر حکومتیں بنانی شروع کر دیں، یہ جوتے پالش کرنے والے لوگ چاہتے ہیں، ایسے چلتا رہا تو ہم غلام ہی رہیں گے ۔لاہور ہائی کورٹ جنرل ہاؤس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں آپ لوگوں سے نہایت اہم بات کرنے لگا ہوں، مدینہ کی ریاست کیا تھی مدینہ کی ریاست انصاف پر مبنی تھی، آج ہمارے ملک میں ایسا کچھ نہیں نظر آتا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے بڑوں نے بہت کچھ کیا، اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے زبردستی لوگوں کو اٹھا کر حکومتیں بنانی شروع کر دیں، انہوں نے مارشل لا لگا دیے ، پاکستان کی تاریح گواہ ہے ، پہلے بھٹو کو پھانسی دی، اب بھٹو کو ایوارڈ دیا گیا، اس طرح اپنے لوگوں کو لانے کے لیے بہت کچھ کیا۔علی امین نے کہا کہ آج پاکستان قرض میں ڈوب گیا، اب پاکستان خود محتار ہی نہیں رہا، ہم غلام بن گئے ، کیبنٹ، ہمارے لیڈر سب غلام بن گئے ہیں، پاکستان میں جمہوریت ہے لیکن دھاندلی کی گئی، تم لوگوں کو سیلکٹو لوگ نہیں چاہئیں۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے کہا کہ آپ لوگ وکیل بھی خود ہو، مدعی بھی خود ہو، عمران مسلمان کی بات کرتا ہے ، وہ ناموس رسالت پر بات کرتا ہے ، وہ بے گناہ جیل میں ہے ، ان کو اس سے خطرہ یہ ہے کہ وہ رول آف لا کی بات کرتا ہے ، وہ پاکستان کی خود محتاری کی بات کرتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ جوتے پالش کرنے والے لوگ چاہتے ہیں، ایسے چلتا رہا تو ہم غلام ہی رہیں گے ، عمران خان کا مسئلہ کرسی نہیں، بلکہ وہ پاکستان کو آزاد، خودمحتار بنانا چاہتا ہے ، آج 24 کڑور عوام کی آواز، اسٹبلشمنٹ تک نہیں جارہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ورکز جیل میں، قیادت جیل میں، اس کی بیوی جیل میں ہے ، ان لوگوں نے ہمارے کارکنان کو گولیاں ماری، کیا آپ لوگ جنگ چاہتے ہیں، کیا آپ لوگ اپنے لوگوں سے جنگ چاہتے ہیں۔علی امین گنڈاپور نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا رہا تو لوگ یہاں سے نکل جائیں گے ، آپ وعدہ کریں کہ آپ لوگ عمران خان کا ساتھ دیں گے ، آگے بڑھیں، متحد ہوجائیں، بہت جلد عمران خان ہمارے درمیان ہوگا۔وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ ہمارے پاس بہت پیسہ ہے ، ہمارا صوبہ امیر ترین ہے ، میں لاہور ہائی کورٹ بار کے لیے 5کڑور روپے گرانٹ دینے کا اعلان کرتا ہوں۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: بات کرتا ہے چاہتے ہیں نے کہا کہ علی امین لوگوں کو جیل میں ہم غلام ا پ لوگ رہا تو
پڑھیں:
گری ہوئی چیز کو اٹھا کر کھانے کا 5’ سیکنڈ رول’، حقیقت کیا ہے؟
یقین کریں… آپ نے بھی ہماری طرح یہ حرکت تو ضرور کی ہوگی، کہ چپس، چاکلیٹ یا شاید گرما گرم سموسہ نیچے گرا… اور آپ نے فوراً نظریں دوڑائیں، تیزی سے اسے اٹھایا، اور منہ میں ڈال لیا!
کیوں؟ کیونکہ آپ نے دل ہی دل میں کہا ہوگا: ’پانچ سیکنڈ نہیں ہوئے… ابھی کھایا جا سکتا ہے!‘۔
لیکن… اگر ہم آپ سے کہیں کہ یہ پانچ سیکنڈ والا رول صرف ایک جھوٹ ہے؟ جی ہاں، آپ برسوں سے ایک غلیظ فسانے کے ہاتھوں بےوقوف بن رہے ہیں!
”خان رول“ — جرم کی ابتدا!
پانچ سیکنڈ کا یہ عجیب قانون آخر آیا کہاں سے؟
1995 میں پہلی بار یہ اصول چَھپ کر سامنے آیا، مگر اس کا اصل قصہ تو بارہویں صدی میں، چنگیز خان کے زمانے سے جُڑا ہے۔
جی ہاں! افسانوی منگول فاتح چنگیز خان کے دربار میں ایک اصول تھا: ”جو کھانا خان کے لیے بنایا گیا ہے، وہ اتنا پاک ہے کہ اگر زمین پر بھی گر جائے، تب بھی کھانے کے قابل ہے!“
چاہے کھانے کے ذرے فرش پر کتنی دیر بھی پڑے رہیں — بس آنکھوں دیکھی مٹی جھاڑو، اور کھا جاؤ!
اس زمانے میں جراثیم کا کوئی تصور نہیں تھا۔ صفائی کا مطلب تھا: ”جو نظر آئے، اسے صاف کرو… باقی اللہ مالک!“
لیکن پھر سائنس بولی: ”خان صاحب، آپ غلط تھے!“
انیسویں صدی میں لؤی پاسچر نے سائنس کی دنیا کو چونکا دیا۔
انہوں نے بتایا کہ جراثیم نہ صرف موجود ہیں، بلکہ وہ ہر جگہ ہیں! ہوا میں، ہاتھوں پر، کپڑوں میں، اور زمین پر بھی!
مگر اس کے باوجود، پانچ سیکنڈ والا یہ جھوٹ صدیوں تک زندہ رہا۔
اور پھر آئی تباہ کن تحقیق!
2016 میں ایک امریکی سائنسدان، پروفیسر ڈونلڈ شیفر نے پانچ سیکنڈ رول کی دھجیاں اُڑا دیں۔
انہوں نے دو سال ایک تحقیق کی، جس میں کھانے کی مختلف اشیاء مثلاً مکھن لگی بریڈ، بغیر مکھن کی بریڈ، سٹرابری کینڈی اور تربوز کو مختلف سطحوں پر گرایا: لکڑی، ٹائل، اسٹیل، اور یہاں تک کہ کارپٹ پر بھی۔
اور ہر بار وقت بدلا گیا: ایک، پانچ، تیس، اور تین سو سیکنڈ۔ کُل 2560 تجربے کیے گئے۔
نتیجہ؟
جتنی بھی جلدی کھانے کو زمین سے اٹھا لیں — وہ جراثیم سے بچ نہیں سکتا!
کچھ دلچسپ حقائق:
حیرت انگیز طور پر کارپٹ پر جراثیم کی کھانے ممیں منتقلی سب سے کم تھی۔ کیونکہ اُس کی سطح اونچی نیچی ہوتی ہے، اور کھانے کو کم چھوتی ہے۔
سب سے زیادہ جراثیم چوسنے والی چیز نکلی تربوز! کیونکہ وہ گیلا ہوتا ہے، اور جراثیم کو نمی چاہیے ٹرانسفر ہونے کے لیے۔
خشک چیزوں جیسے ٹافی یا روٹی پر تھوڑے کم جراثیم چپکتے ہیں، لیکن ”کم“ کا مطلب ”صفر“ نہیں!
تو، اگلی بار کیا کریں؟
جب ٹافیاں، چپس یا فرائز نیچے گریں تو ”پانچ سیکنڈ“ گننے کی بجائے، سیدھا اسے کوڑے دان میں ڈالیں۔
کیونکہ جراثیم نظر نہیں آتے، مگر آپ کا پیٹ، آپ کی صحت، آپ کی ذمہ داری ہے۔
Post Views: 3