کیا فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ جج آئینی بینچ
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
یہ کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟
اٹارنی جنرل نے خود اپنا حق خواجہ حارث کو دے دیا تو ہم انہیں کیوں سنیں؟ریمارکس
سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا ہے کہ سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے 23 اکتوبر 2023 کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں اور شہدا فورم بلوچستان سمیت دیگر کی جانب سے دائر 38 انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل جاری رکھتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ مجھ سے جو سوالات ہوئے میں نے تحریری معروضات کی شکل میں عدالت کے سامنے رکھے ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوجی عدالتوں میں منصفانہ ٹرائل ہوتا ہے ، فوجی عدالتیں قانون کے تحت وجود میں آئی ہیں۔ انہوں نے استدلال کیا کہ لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے ، فوجی عدالتوں کے ٹرائل میں مروجہ طریقہ کار اور فئیر ٹرائل دونوں میسر ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں مکمل انصاف کے لیے افسر باقاعدہ حلف لیتے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ آرٹیکل 175 پڑھیں، واحد آرٹیکل ہے جو عدالتوں کو جواز فراہم کرتا ہے ۔خواجہ حارث نے کہا کہ محرم علی آوے لیاقت حسین کیس میں کہا گیا کہ کورٹ مارشل 175 میں نہیں آتا، یہاں تک کہ جس فیصلے کیخلاف اپیل دائر ہوئی اس میں بھی کہا گیا کہ فوجی عدالتیں آرٹیکل 175میں نہیں آتیں، آرٹیکل 142 کے تحت وفاقی حکومت کو فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت قانون بنانے کا اختیار ہے ۔انہوں نے مزید استدلال کیا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں سے متعلق قانون بھی اسی اختیار کے تحت بنایا، یہ اختیار اور قانون تو 1956 اور 1962 کے آئین میں بھی تھا، تب آرٹیکل 175 اور 1973 کا آئین موجود نہیں تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں، اگر عدالت کہا جاسکتا ہے تو دوبارہ آرٹیکل 175 پڑھیں۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ فوجی عدالتیں عدالتیں ہی ہیں جو خصوصی دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے فوجداری ٹرائل کرتی ہیں۔آئینی بینچ نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو کل تک جواب الجواب مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کل کے بعد کیس کی سماعت 28تاریخ تک ملتوی کریں گے ، 28تاریخ تک بینچ دستیاب نہیں ہوگا، 28تاریخ کو اٹارنی جنرل اپنے دلائل کا آغاز کریں۔جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کو مزید کتنا وقت درکار ہے ؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس جمال کے سوالات کے جواب دینا ہیں، مجھے آدھا گھنٹہ یا چالیس منٹ مزید درکار ہونگے ۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اگر مسئلہ میرے سوالات کا ہے تو میں اپنا سوال واپس لیتی ہوں۔جسٹس جمال مندوخیل نیکہا کہ میں ابھی اپنا سوال واپس لیتا ہوں، اٹارنی جنرل کی کیا پوزیشن ہے وہ کہاں ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو دو سے تین دن کا وقت درکار ہے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے خود کہا تھا میں دس منٹ لوں گا، صرف اپیل کا حق دینا ہے یا نہیں اس پر بات کرنی تھی۔عامر رحمان نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے عدالتی حکم پر ہی پیش ہونا ہے ورنہ وفاق کی وکالت خواجہ حارث کر رہے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل نے خود اپنا حق خواجہ حارث کو دے دیا تو ہم انہیں کیوں سنیں؟اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے خواجہ حارث نے کہا جاسکتا ہے فوجی عدالتوں عدالتوں کو ہے یا نہیں آرٹیکل 175 نے کہا کہ کہ فوجی کیس کی کیا کہ کے تحت
پڑھیں:
غزہ ظلم اور بربریت کے آگے فصیل کی طرح کھڑا ہے، خواجہ آصف
سماجی رابطے کی ویب سائٹس’ایکس‘ پر وزیر دفاع کا اپنے جاری بیان میں کہنا تھا کہ عالم اسلام حق ادا نہیں کررہا، غزہ ظلم اور بربریت کے آگے فصیل کی طرح کھڑا ہے، عالمی ضمیر زندہ ہونے کا ثبوت دے رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ غزہ ظلم اور بربریت کے آگے فصیل کی طرح کھڑا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس’ایکس‘ پر خواجہ آصف کا اپنے جاری بیان میں کہنا تھا کہ دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں لوگ سڑکوں پر ہیں، اسرائیلی اور ان کے سرپرستوں کے خلاف فلسطین کی آواز بن گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالم اسلام حق ادا نہیں کررہا، غزہ ظلم اور بربریت کے آگے فصیل کی طرح کھڑا ہے، عالمی ضمیر زندہ ہونے کا ثبوت دے رہا ہے۔
وفاقی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ 1.5 ارب مسلمان بھی اپنا حصہ ڈالیں اس فصیل کو گرنے نہ دیں ورنہ یہ سب کو بہالے جائے گا۔ آخر میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا، تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کر خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے۔