Express News:
2025-04-22@01:35:17 GMT

اور پھر بیاں اپنا ( پہلا حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT

اخبار پڑھنا ہماری عادت ہے، جیسے صبح کی چائے کی۔ جب تک اخبار کے ساتھ چائے نہ ہو، چائے کا مزہ آتا ہے نہ اخبار کا۔ لیکن ان دنوں جس طرح کی خبریں سنائی جا رہی ہیں، ان پرکالم لکھنے سے بہتر ہے کہ کتابیں پڑھی جائیں،کتابیں آپ کی دوست بن جاتی ہیں۔ چلیے! آج آپ کی خدمت میں ایک اور بہت دلچسپ کتاب سے اقتباسات پیش کروں۔

کتاب کا نام ہے ’’ اور پھر بیاں اپنا ‘‘ اور اس کے خالق ہیں اخلاق احمد دہلوی، جن کا نام ادب نوازوں کے لیے نیا نہیں۔ اخلاق صاحب ادیب، صحافی،کالم نگار اور براڈ کاسٹر تھے۔ ساتھ ہی خاکہ نگار بھی بہت اچھے تھے۔ ان کے ہاں دلّی کی ٹکسالی زبان کا مزہ ملتا ہے۔ سادہ اور شگفتہ زبان ان کی میراث ہے۔

مضمون کا عنوان ہے ’’ طب کے بادشاہ ‘‘ حکیم اجمل خاں کے متعلق لکھتے ہیں ’’حکیم اجمل خاں کے عزیزکا ایک حیرت انگیز واقعہ ملاحظہ کیجیے۔ بھورے میاں جمعرات کو رات اور جمعہ کا دن دلی سے چالیس کوس دور میرٹھ جا کر اپنے ایک جگری دوست کے ساتھ گزارتے تھے، شکارکھیلتے اورگھڑ سواری کرتے تھے۔ ایک جمعرات جو یہ حضرت شکار کی نیت سے وہاں پہنچے تو معلوم ہوا دلی سے کوئی سرجن آیا ہوا ہے اور مزید مقامی اور باہر کے کئی ڈاکٹر اور سرجن ہیں اور ان کے دوست کی پوری ٹانگ کٹنے والی ہے، کیونکہ اس میں پیپ پڑنے والی ہے۔ آٹھ دن پہلے بال توڑ ہوگیا تھا، جس کا یہ فتور ہے۔

حکیم صاحب نے کہا کہ ابھی صبح کے دس بجے ہیں اور شام کو پانچ بجے ہم ان کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ کر شکار کھیلنے جائیں گے، اگر ٹانگ کٹ گئی تو یہ گھوڑے کی سواری کیسے کریں گے؟ چنانچہ ان دوست کے صاحبزادگان کو بلایا اورکہا کہ میاں ذرا ان سول سرجن کو تو بلوانا اور اس انگریز کے بچے سے پوچھنا کہ ٹانگ کہاں سے کاٹی جائے گی اور کیسے کاٹی جائے گی، انگریز سول سرجن نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ اس طرح ٹانگ کٹے گی،گنڈیری کی طرح۔ حکیم نے سول سرجن سے کہا، اچھا اب آپ جائیے اور شام کو آکر آپریشن کیجیے۔ پھر جیب سے ایک ڈبیہ نکالی اور اس میں سے کچھ سفوف نکال کر جہاں سے ٹانگ کٹنی تھی اس جگہ پر چھڑکا اور ایک کپڑے کی پٹی اس پر لپیٹ کرکہا، اس پٹی پر برف کی ٹکور کرو، اور جب دو من برف کی ٹکورکر لو تو ہمیں آ کر بتاؤ۔ اب ہم آرام کرتے ہیں۔

ان دوست کے صاحبزادگان نے دن کے گیارہ بجے سے شام کے چار بجے تک جب دو من برف کی سل کی ٹکورکر لی تو حکیم صاحب کو اطلاع دی، وہ آئے اورکہا، اب پٹی ہٹا دو، پٹی ہٹائی تو دیکھا جس جگہ سفوف چھڑکا تھا وہاں خربوزے کی پھانک سی کھل گئی ہے۔ پھرکہا دیسی جراح کو بلاؤ، جو اسے دبا کر سارا مواد کسی تسلے میں نکالے۔ سبز کاہی رنگ کا مواد اس خربوزے کی پھانک میں جمع ہوگیا تھا۔ جراح نے بھینچ کر نکالا تو بیروں کی سی سبزکاہی رنگ کی گٹھلیوں سے تسلہ بھرگیا، اور سارا فاسد مادہ جو اس سفوف سے کھینچ کر ایک جگہ جمع کیا گیا تھا اب نکل گیا تو بڑے میاں نے آنکھیں کھول دیں اور حکیم صاحب نے جراح سے کہا، اب کوئی زخم کو مندمل کرنے کا مرہم اس جگہ لگا دو اور پٹی کر دو۔ ایسی پٹی کہ یہ گھوڑے کی سواری فوری طور پرکرسکیں اور پٹی اپنی جگہ سے نہ سرکے، اب یہ تمہارا ہنر ہے، اپنا ہنر دکھا چکے۔ شام کو اس انگریز زادے سول سرجن اور باقی سب ڈاکٹروں کو بھی دکھا دو اور پوچھو کہ کیا ٹانگ اب بھی کٹے گی؟

حکیم محمد اجمل کا خطاب مسیح الملک تھا، ان جیسا حکیم ان کے بعد آج تک پیدا نہیں ہوا،کیا قحط الرجال ہے کہ فنون لطیفہ کے ہر شعبے میں زوال آ چکا ہے۔ کہاں گئے وہ سب نامور لوگ جن کے ذکر سے فانوس کی شمعیں روشن تھیں۔ اب تو بس تذکرہ سنیے اور واہ واہ کیجیے کہ کیسے کیسے لوگ اللہ نے پیدا کیے جو اپنی مثال آپ تھے۔

ایک مرتبہ حکیم محمد اجمل شریف منزل کی ڈیوڑھی میں آئے کسی تقریب میں جانے کے لیے دیکھا کہ جس برات میں وہ شرکت کرنے والے تھے وہ ان کی ڈیوڑھی کے سامنے سے گزر رہی ہے، وہیں ٹھٹھک گئے اور دولہا کا گھوڑا جب سامنے سے گزرا تو دولہا کے ماتھے پر گیلا سندور کا تلک دیکھ کر تیوری پہ بل پڑ گئے اور کہا ’’یہ دولہا نہیں، دولہا کا جنازہ جا رہا ہے، شریف منزل سے دو پہیے ڈولی پر وہ گلی تھی جس پر بارات کو اترنا تھا، اس گلی کے نکڑ پر پہنچتے پہنچتے دولہا جس کے بارے میں دو منٹ پہلے حکیم صاحب نے کہا تھا کہ یہ دولہا کا جنازہ جا رہا ہے، دھڑ سے گھوڑے پر سے گر پڑا اور ڈھیر ہو گیا۔

مصاحبوں نے حکیم صاحب سے پوچھا کہ آپ نے یہ کیسے اندازہ کر لیا کہ گھوڑے پر دولہا نہیں بلکہ دولہا کا جنازہ جا رہا ہے؟ تو حکیم صاحب بولے ’’ اس کے ماتھے پرگیلا سندور دیکھ کر۔ اگر اس کے جسم میں خون ہوتا تو یہ تلک خشک ہوتا، خون اس کا خشک ہو چکا تھا، اس لیے ماتھے کا تلک تر تھا۔‘‘ حکیم صاحب نے کہا، اسے کہتے ہیں شادیٔ مرگ۔

’’تو ہوا یوں کہ اس کامریڈ پریس میں مولانا محمد علی جوہر کے پاس ایک انگریز آیا جو بہادر شاہ ظفر پر تحقیقی کام کر رہا تھا، اس انگریز نے مولانا محمد علی سے درخواست کی کہ مجھے اس گھڑ سوار سے ملوائیے جو بہادر شاہ ظفر کے رسالے میں تھا اور اسی محلے میں رہتا ہے۔ مولانا نے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ ہے تو سہی لیکن اس کی عمر سو سے اوپر ہے اور خانہ نشین ہے کہیں آتا جاتا بھی نہیں ہے، مولانا محمد علی کی فرمائش پر یہ بزرگوار ڈولی میں بیٹھ کر تشریف لائے، اس انگریز نے اس نحیف و نزار اور ہڈیوں کے ڈھانچے ضعیف انسان کو دیکھا تو بہت مایوس ہوا، لیکن پھر بھی اس نے پوچھا کہ آپ اب بھی گھوڑے کی سواری کرسکتے ہیں؟ بڑے میاں بولے کہ گھوڑا کہاں ہے؟ چنانچہ لال قلعے سے انگریزی رسالے کا ایک فوجی گھوڑا منگوایا گیا جب گھوڑا آگیا تو ان بزرگوار نے کہا کہ ہمیں اس پر چڑھا دیجیے۔

تین چار آدمیوں نے مل کر اس بوڑھے گھڑ سوارکو گھوڑے پر بٹھایا، یہ بہادر شاہ ظفر کے رسالے کا سوار تھا جسے گھوڑے پر بٹھانے کے لیے تین چار آدمی لگے تھے، لیکن اسے اس گھوڑے سے اتارنے کے لیے تین چار ہزار بھی کم ہوتے۔ یہ بزرگوار گھوڑے پر بیٹھ کرکوئی دس قدم گئے اور پھر انھی قدموں پر اسے واپس موڑ لائے اور کہا ’’ بس اب اتنا ہی دکھا سکتا ہوں۔‘‘ سب کو حیرت ہوئی کہ یہ کیا بات ہوئی، بزرگوار بولے ’’ گھوڑے کے تسموں کے نشان دیکھیے، جن قدموں پہ گھوڑا گیا تھا انھی قدموں پہ ہم اسے واپس لے آئے ہیں۔

اس لیے سموں کے نشان کے گول گول دائرے بن گئے ہیں۔ جاتے وقت نصف دائرے بنے اور واپسی میں ان پر نصف دائرے بنے، نتیجہ یہ کہ گول دائرے نمایاں ہیں۔ سب حیران رہ گئے کہ اس عمر میں بھی کتنا قابو ہے، گھوڑے پر اور یہ فن اس لیے تھا کہ گھوڑا جتنا آگے چلتا تھا، اتنا ہی پیچھے چل کرگول دائرے بنا دے تاکہ دشمن کو یہ پتا نہ چلے کہ گھڑ سوار سالہ گیا کدھر؟ وہ انگریز گھڑسوار کے فن سے بہت محظوظ ہوا اورکہا میں نے جیسا سنا تھا اس سے بڑھ کر پایا۔

یہ اقتباس تھا ’’ دہلی مرحوم کے گمنام ستارے‘‘ کا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حکیم صاحب نے گھوڑے پر سول سرجن گیا تھا کے لیے نے کہا اور اس

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر و سینیارٹی کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنا جواب جمع کروادیا

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس  کے حوالے سے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کروادیا۔

یہ بھی پڑھیں: ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس، جوڈیشل کمیشن، رجسٹرار سپریم کورٹ اور وزارت قانون نے جواب جمع کرا دیا

ہائیکورٹ کے جواب کے ہمراہ نئی ججز سینیارٹی فہرست، ججز ٹرانسفر نوٹیفیکیشنز اور ہائیکورٹ ججز ریپریزنٹیشن بھی جمع کروائی گئی۔

جواب اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے رجسٹرار نے جمع کروایا۔

ہائیکورٹ کے جواب  میں کہا گیا کہ ججز ٹرانسفر کی سمری کا آغاز وزارت قانون کی جانب سے کیا گیا اور وزارت قانون سے وزیراعظم اور پھر صدر کو سمری بھجوائی گئی۔

مزید پڑھیے: سپریم کورٹ: اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے اور ٹرانسفر ججوں کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد

جواب میں بتایا گیا کہ صدر مملکت نے سمری منظور کی اور سمری منظور کرتے وقت چیف جسٹس پاکستان اور متعلقہ ہائیکورٹ چیف جسٹسز سے مشاورت کی گئی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کے مطابق ججز ٹرانسفر کیا گیا۔ جسٹس سرفراز ڈوگر پہلے ہی بطور ایڈیشنل جج اور پھر مستقل جج کے طور پر حلف اٹھا چکے۔

جواب میں مزید کہا گیا کہ سابقہ چیف جسٹس نے ٹرانسفر کے بعد انتظامی کمیٹی تشکیل دی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر و سینیارٹی کیس

متعلقہ مضامین

  • پہلا سسٹین ایبل انویسٹمنٹ سکوک بانڈ جاری کرنے کا فیصلہ
  • نواز شریف کی طبیعت ناساز، لندن میں اپنا قیام بڑھادیا
  • ججز ٹرانسفر و سینیارٹی کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنا جواب جمع کروادیا
  • ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، شیخ وقاص اکرم
  • پشاور، پولیس کا شادی کی تقریب میں چھاپہ، دولہا گرفتار، مقدمہ درج
  • پشاور پولیس کا انوکھا اقدام، شادی کی تقریب میں چھاپہ، دولہا گرفتار، مقدمہ درج
  • کوئی کتنا ہی ناراض ہو انصاف دباؤ کے بغیر ہونا چاہیے، آغا رفیق
  • کانپور میں انوکھا واقعہ: دلہن شادی سے قبل فرار، دولہا بارات کے ساتھ خالی ہاتھ واپس لوٹ گیا
  • سیاسی سسپنس فلم کا اصل وارداتیا!
  • گرودوارہ روہڑی صاحب میں بیساکھی کی تقریب، عبادات و لنگر کا اہتمام