Express News:
2025-04-22@00:06:54 GMT

پاک امریکا تعلقات کا نیا موڑ

اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT

موجودہ حالات اور سیاسی تناظر میں پاکستان امریکا تعلقات میں کافی سنگین مسائل ہیں۔اصل مسئلہ دونوں اطراف کی سیاسی ترجیحات میں فرق اور اعتماد سازی کا فقدان ہے۔ایک بار سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت ساس اور بہو کے رشتے کی طرح ہے جس میں بہتری اور بگاڑ دونوں پہلو نمایاں نظر آتے ہیں۔

امریکا میں نئے انتخابات اور ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی قیادت کے منتخب ہونے کے بعد عالمی اور علاقائی سیاست سمیت پاکستان اور امریکا تعلقات میں بہت سی نئی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔اسی تناظر میں حالیہ دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت ریپبلکن پارٹی اور امریکی کانگریس کا ایک تین رکنی وفد پاکستان کے دورے پر آیا ۔اس وفد میں امریکی کانگریس کے نمایاں اراکین شامل ہیں جن کی قیادت کانگریس مین جیک برگمین کر رہے ہیں جب کہ دیگر ارکان میں ٹام سوزی اور جو نتھن جیکسن شامل ہیں۔ٹام سوزی اور جیک برگمین پاکستان کاکس کے ممبران کی حیثیت سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

اس دورے کا مقصد پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنا اور مختلف صوبوں میں تعاون کے نئے امکانات کو تلاش کرنا ہے۔یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ امریکی کانگریس میں یہ کاکس گروپ ایک غیر رسمی گروپ ہے جو پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے خواہش مند ہوتے ہیں۔اسی ماہ میں اب تک دو امریکی وفوداسلام آباد کا دورہ کرچکے ہیں۔پہلا دورہ امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی اور مرکزی ایشیا کے امور کے سینیٹرابلکارمائر کا تھا جس میں انھوں نے منرلزسرمایہ کاری فورم کا دورہ سمیت عسکری قیادت سے ملاقات کی۔

امریکا کے اس حالیہ تین رکنی وفد نے اپنے دورے میں پاکستان کی سیاسی اور سول قیادت سمیت پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقات کی۔ان ملاقاتوں میں علاقائی سلامتی کی صورتحال،دفاعی تعاون کو مزید وسعت دینے، اقتصادی تعاون اور تجارت کو فروغ دینے،  سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنے،تجارتی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے جیسے امور سمیت دہشت گردی سے جڑے مسائل بھی سرفہرست تھے۔امریکی کانگریس کے ان اراکین کا دورہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب بہت سے لوگوں کا خیال ہے امریکا کی موجودہ سیاسی ترجیحات میں پاکستان کو بہت زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے اور امریکا کی بڑی ترجیح بھارت ہے۔اسی طرح امریکا کو پاک چین تعلقات میں بڑھتے ہوئے نئے امکانات پر بھی تحفظات ہیں۔

اس وقت امریکا افغانستان کے حوالے سے براہ راست پاکستان پر انحصار کرنے کی بجائے خود طالبان سے رابطوں میں ہے۔پاکستان کا ایک بڑا چیلنج موجودہ حالات میں امریکا وچین کے ساتھ توازن پر مبنی تعلقات ہیں۔پاکستان کے جہاں امریکا کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں وہیں اس کا انحصار چین پر بھی ہے۔اسی طرح یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ پاکستان کو علاقائی سطح پر بھارت و افغانستان کے تناظر میں کافی سنگین مسائل کا سامنا ہے جن میں سیکیورٹی اور دہشت گردی جیسے مسائل بھی سرفہرست ہیں۔

پاکستان امریکا سے کئی بار یہ مطالبہ کر چکا ہے کہ وہ خطے کی سیاست میں پاکستان کے مفادات کو اہمیت دے اور خاص طور پر بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں موجود بد اعتمادی کو کم کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرے۔مگر ان معاملات میں امریکا کسی بڑے کردار کے لیے تیار نہیں۔ لیکن جس انداز میں امریکا بھارت پر انحصار کر رہا ہے یا اس کی توجہ کا مرکز بھارتی ریاست ہے وہ خود پاکستان کے لیے کافی تشویش کا پہلو ہے۔کیونکہ اگر پاکستان کو نظر انداز کر کے یا پاکستانی مفادات کو پشت ڈال کر امریکا بھارت کی جانب آگے بڑھتا ہے تو اس سے پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہوگا۔خاص طور پر ایک ایسے موقع پر جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سخت ڈیڈ لاک اور بات چیت کے دروازے بند ہیں امریکا کابھارت کی طرف جھکاؤ کسی بھی طور پر پاکستان کے مفاد میںنہیں ہوسکتا۔

اس لیے امریکا پر لازم ہے وہ اس خطہ کی سیاست میں پاکستان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرے بلکہ اس کے مفادات کے تحفظ کوبھی یقینی بنائے ۔اسی طرح امریکا کو افغانستان میں چھوڑے گئے اربوں ڈالر کے اسلحے کے دہشت گردی میں استعمال کو روکنے کے لیے بڑی سطح کا کردار ادا کرنا ہوگا۔کیونکہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہورہی ہے اور اس میں جہاں ٹی ٹی پی کی کالعدم تنظیم ملوث ہے وہیں ان دہشت گردوں کو افغان طالبان حکومت اور پس پردہ بھارت کی سہولت کاری بھی حاصل ہے۔لیکن اس اہم اور سنگین مسئلہ پر امریکا پاکستان کے تحفظات کو نظر انداز کررہا ہے۔

پاکستان کو جہاں امریکا سمیت چین اور خطہ کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر اور موثر بنانا ہے وہیں اسے جیو تعلقات ، جیو اسٹرٹیجک یا جیو معیشت سے جڑے معاملات پر بھی توجہ دینی ہے۔ اس لیے علاقائی ممالک بشمول بھارت اور افغانستان سے تعلقات کی بہتری اس کی اہم ترجیحات کا حصہ ہے۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب علاقائی ممالک سمیت بڑے عالمی ممالک کا بڑا ایجنڈا علاقائی سیاست کا استحکام اور معاشی ترقی ہوگا۔اسی طرح تمام بڑے اور چھوٹے ممالک اپنے سیاسی خسارہ کو کم کریں عملی طور پر ایک دوسرے پر اعتماد کرکے آگے بڑھنے کا کوئی مشترکہ فریم ورک یا حکمت عملی کو ترتیب نہیں دیں گے حالات میں بہتری کا عمل کسی بھی طور پر ممکن نہیں ہوگا ۔

اسی طرح پاکستان کو امریکا سے تعلقات بہتر بنانے ہیں تو اس کی اپنی داخلی ترجیحات پر توجہ دینا بھی شامل ہے۔کیونکہ جب تک ہم اپنے داخلی مسائل پر توجہ نہیں دیں گے اور ملک کا سیاسی ،جمہوری،آئینی اور قانونی تشخص سمیت انسانی حقوق سے جڑے معاملات کی بہتر تصویر پیش نہیں کریں گے امریکا ان معاملات کو بنیاد بنا کر ہم پر یک طرفہ دباو ڈالنے کی پالیسی کو جاری رکھے گا۔

ہمیں اپنے داخلی مسائل کا بھی درست ادراک ہونا چاہیے اور درست تجزیہ کو بنیاد بنا کر ہمیں اپنی داخلی ترجیحات کا بھی تعین کرنا ہوگا۔نئے عالمی اور علاقائی بلاکس اور نئی صف بندیاں ہورہی ہیں ایسے میں ہمارا داخلی سیاسی خسارہ اور حالات کا درست تجزیہ نہ کرنا یا اپنی ترجیحات کے تعین میں مختلف نوعیت کی داخلی سطح کی کمزوریاں ہمارا مقدمہ خراب کرسکتی ہیں۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ایسی عالمی یا علاقائی پالیسیوں سے گریز کیا جائے جو ہمیں داخلی سیاست میں اور زیادہ کمزور کرنے کا سبب بن سکیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکی کانگریس میں پاکستان تعلقات میں پاکستان کو پاکستان کے کے ساتھ ہیں اس

پڑھیں:

کوئٹہ میں افغان مہاجرین کی تذلیل کی جا رہی ہے، سماجی و سیاسی رہنماء

سماجی و سیاسی رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی پالیسی بنائی جائے، گرفتار کرکے انکی تذلیل کی جا رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سیاسی و سماجی رہنماوں نے کہا ہے کہ ملک سے بے دخلی کے نام پر افغان شہریوں کی تذلیل کی جارہی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے اپنے ملک واپس بھیجے۔ مساجد کے باہر سے گرفتاریوں سے نفرتوں میں اضافہ ہوگا۔ حکومت مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے واضح پالیسی مرتب کرے۔ یہ بات کوئٹہ فاونڈیشن کی چیئرپرسن روزینہ خلجی، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی سینئر نائب صدر سلمان خان خلجی، درانی قومی اتحاد کے چیئرمین عباس درانی، انجمن تاجران کے رہنماء حاجی صالح محمد نورزئی، سماجی رہنماء سردار صدیق ہوتک و دیگر نے کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔

کوئٹہ فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن روزینہ خلجی نے کہا کہ افغانستان جنگ کے بعد پاکستان نے لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کو پاکستان میں جگہ دی، جو ایک احسن اقدام تھا۔ افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کے بعد یو این ایچ سی آر سمیت دیگر عالمی اداروں نے افغان مہاجرین کیلئے حکومت پاکستان کو اربوں روپے کی امداد فراہم کی، تاکہ مہاجرین کو سہولیات کی فراہمی میں مدد مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ اب حکومت پاکستان کی طرف سے بے دخلی کے نام پر افغان مہاجرین کی تذلیل کی جارہی ہے، جو کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے واپس افغانستان واپس بھیجنے کیلئے حکومت اقدامات اٹھائے، تاکہ معاملہ افہام وتفہیم سے حل ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں حکومت نے مہاجرین کے نام پر کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور افغان شہریوں کو گرفتار کرکے انکی تذلیل کی جارہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے سینئر نائب صدر سلمان خلجی نے کہا کہ پاکستان میں 40 سے 45 سال سے افغان مہاجرین اپنی زندگی گزار رہے ہیں، انکی یہاں رشتہ داریاں ہیں۔ حکومت پاکستان کا اچانک انکی واپسی سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ افغان مہاجرین کی اپنے وطن واپسی کو باعزت طریقے سے یقینی بنانے کیلئے ایک واضح پالیسی بنائے اور افغان مہاجرین کی تذلیل کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
  • پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے، طلال چودھری
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے، وزیر مملکت طلال چودھری
  • کوئٹہ میں افغان مہاجرین کی تذلیل کی جا رہی ہے، سماجی و سیاسی رہنماء
  • پاکستان اور ایران کے تعلقات، چیلنجز اور تعاون کی راہ
  • عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت
  • ورلڈکپ، پاکستان کی ویمن ٹیم بھارت نہیں جائے گی : چیئرمین پی سی بی
  • گورننس سسٹم کی خامیاں
  • بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آئندہ ہفتے دو روزہ دورے پر سعودی عرب جائیں گے