WE News:
2025-04-22@01:22:54 GMT

کیا ہم اسٹیج کو زندہ کر سکیں گے

اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT

کیا ہم اسٹیج کو زندہ کر سکیں گے

کچھ ہی برس قبل، پنجاب کے تھیٹر اپنی پُر مغز داستان گوئی اور سچائی پر مبنی بے باک لفظوں کے لیے ایک پہچان رکھتے تھے۔ کیسی ہی تلخ حقیقت ہو، اسے برملا کہنے کی جرات ان کا خاصہ تھی۔ مگر اب ان کی روشنیاں، بجھتے ہوئے تاروں کی مانند، وقفے وقفے سے کوندتی ہیں اور اپنے مدھم ہوتے سائے سے فن کے شیدائیوں کے دلوں میں ایک کسک سی پیدا کرتی ہیں۔

کبھی ان کے لبریز ہال قہقہوں کی گونج سے معمور رہتے تھے، جیسے کسی گلشن میں بلبلوں کا چہچہانا۔ لیکن اب وہ ہنسی، ایک نشتر کی طرح، بے چینی کی کراہت اور اسٹیج پر رینگتی ہوئی فحاشی کو چھپانے کی ناکام کوشش میں ایک ناگوار کھانسی کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ یہ ایک ایسا صدمہ تھا، ایک ایسی بے رخی، جو ہماری ثقافتی میراث کی روح پر ایک کاری ضرب تھی – ہم سب کے لیے جنہوں نے پروسینیم کی جادوئی چھتری تلے ہوش سنبھالا: امان اللہ کی کاٹ دار ظرافت، رفیع خاور (ننھا) کی دلگداز اداکاری، سہیل احمد جیسے فنکاروں کی خالص تھیٹری کرشمہ سازی۔ یہ ان لوگوں کا سوگ ہے جنہوں نے اپنی محبت کے خون سے اس فن کی پرورش کی تھی۔ :

؎ کہاں گئی وہ رونق، وہ بزمِ یاراں
؎ بجھ گئے وہ چراغ، اب ہے بس دھواں دھواں

اسی آشفتہ صورتحال میں پنجاب کی وزیر اطلاعات و ثقافت عظمیٰ بخاری کسی دبی ہوئی سرگوشی یا روایتی نصیحت کے بجائے ایک واضح عزم کے ساتھ سامنے آئی ہیں۔ ان کی اصلاحات محض ایک معمولی پیش رفت نہیں؛ یہ تو ایک مکمل ثقافتی بیداری ہے، ان عناصر سے اس مقدس مقام کو چھڑانے کی ایک پرزور کوشش ہے جو بظاہر اسے اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ ایک آر یا پار کی جنگ ہے، ایک ایسا بڑا قدم جس نے فن کی دنیا میں جہاں پرجوش داد و تحسین حاصل کی ہے، وہیں دبے ہونٹوں سے تشویش کی سرگوشیاں بھی پیدا کی ہیں – جو خود فن کی پیچیدہ اور نازک فطرت کا کھلا اعتراف ہے۔

بخاری کا ہمہ جہت اندازِ کار، ایک ماہر حکمت عملی ساز کی طرح معیارات کے نفاذ اور فنکارانہ آزادی کی حوصلہ افزائی کے درمیان ایک محتاط توازن ہے۔ بار بار فحاشی کے مرتکب فنکاروں پر تاحیات پابندی، بظاہر ایک وقتی ردعمل لگ سکتی ہے، مگر ایک ایسی صنعت کے لیے جو طویل عرصے سے تجارتی مافیا کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے، یہ سنسرشپ کی کوئی لکیر نہیں، بلکہ ایک بے لچک اعلان ہے، ریت پر کھینچی گئی ایک حتمی حد ہے، ایک واضح پیغام کہ اسٹیج سستے سنسنی کے لیے کوئی تفریح کا اڈہ نہیں۔ ان تھیٹروں کے لائسنس کی منسوخی کا خوف، جو اپنی پروڈکشن کی گراوٹ پر جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں، ایک سخت تنبیہ ہے: جوابدہی صرف انفرادی فنکاروں پر ہی نہیں، بلکہ ان اداروں پر بھی عائد ہوتی ہے جو ان کی سرپرستی کرتے ہیں۔ اور پھر ایک مشاورتی کمیٹی کا قیام ہے، بزرگوں کی ایک مجلس، انھی معتبر فنکاروں کا ایک اجتماع جن کی عظمت موجودہ دور کی گھٹیا پرفارمنس سے مجروح ہو رہی ہے۔ یہ کسی سرکاری بابو کی مشاورتی کمیٹی نہیں؛ یہ سہیل احمد اور نسیم وکی جیسے قدآور فنکاروں کی بیٹھک ہے، وہ نام جو پنجاب کے تھیٹر کے سنہری دور کی علامت ہیں، جن کا فرض اس فن کو اس کی جڑوں، اس کے شاندار ماضی کی طرف واپس لے جانا ہے۔

تاہم، یہ اصلاحات ایک بنیادی سوال ضرور کھڑا کرتی ہیں: کیا محض قانون سازی واقعی فن کو نئی زندگی دے سکتی ہے؟ کیا کسی نیک نیتی پر مبنی سرکاری اقدام سے تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھ سکتی ہیں؟ فن کی برادری میں کچھ حلقے پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ فن تو صرف مکمل آزادی کے ماحول میں ہی پھلتا پھولتا ہے، کہ کوئی بھی قدغن، چاہے کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، حقیقی اظہار کے جوہر کو دبا دیتی ہے۔ وہ تھیٹر کو ایک بے روح، جراثیم زدہ تماشے میں بدلنے کے ایک فطری خطرے کا حوالہ دیتے ہیں، جو معاشرے کی اس بے لاگ، کھری تنقید سے محروم ہو جائے گا جو طویل عرصے سے اس کی قوت، اس کے وجود کا جواز رہی ہے۔ انہیں ایک جمود طاری ہونے کا خدشہ ہے، فنکارانہ تجربات کی حوصلہ شکنی کا خوف ہے، ایک ایسی یکسانیت کی طرف پھسلنے کا اندیشہ ہے جو بالآخر اس فن کی روح کو کھوکھلا کر دے گا۔:

؎ مرغِ قفس کو باغ سے کیا نسبت اے صیّاد
؎ چُھٹ جائے گر قفس تو چمن دیکھے، جی کھلے

دوسری طرف اس تمام جذباتی بحث کے پنجاب میں تھیٹر کے ان دیرینہ حامیوں کے خاندان ہیں جن کی نشستیں برسوں سے خاک آلود ہیں، جن کی ہنسی مایوسی کی تلخی میں بدل چکی ہے۔ کیا ہمیں ان گھرانوں کے اعداد و شمار کی ضرورت ہے جنہوں نے طویل عرصے سے تھیٹر کا رُخ کرنا چھوڑ دیا ہے؟ وہ ان دنوں کو حسرت سے یاد کرتے ہیں جب تھیٹر جانا ایک اجتماعی خوشی کا موقع ہوتا تھا، حقیقی تفریح اور فکری بصیرت کا ایک لمحہ، نہ کہ شرمندگی یا ناگواری کا سبب۔ وہ ان اصلاحات کو سنسرشپ نہیں، بلکہ ایک اصلاحی قدم، ڈوبتے ہوئے فن کے لیے بڑھائی گئی ایک آخری سہارا سمجھتے ہیں۔

مالی نتائج کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فحاشی سے پاک، ایک ایسا تھیٹر جو خاندانی اقدار کو اپیل کرنے والے ڈراموں سے مالا مال ہو، اس میں ان ناظرین کو دوبارہ اپنی طرف کھینچنے کی ایک غیر معمولی صلاحیت موجود ہے جو طویل عرصے سے ان محفلوں سے دور ہو چکے ہیں۔ آپ انہیں وقتی ٹکٹ بیچنے والے کہہ سکتے ہیں، لیکن ذرا ٹکٹ کھڑکی پر لگی لمبی قطاروں، بھرے ہوئے ہالوں، ایک تقریباً مردہ صنعت کی بحالی کے بارے میں سوچیے، جو فنکاروں اور تھیٹر مالکان کی خالی جیبوں میں اشد ضرورت کی رقم ڈال رہی ہے۔ لیکن مالی فائدے سے کہیں زیادہ اہم داؤ پر لگا ہوا ہے۔ تھیٹر، ہر صورت میں، معاشرے کی اپنی پیچیدگیوں کا ایک عکاس ہے، ہمارے لیے اجتماعی طور پر خود شناسی کا ایک منبر ہے، ایک ایسا کیمیائی عمل ہے جس میں ہماری اقدار کو نکھارا جاتا ہے اور ہمارے خوابوں کو زبان دی جاتی ہے۔ اس کی حرمت کو بحال کر کے، اس ابتذال کو مٹا کر جس نے اسے بدنام کیا، پنجاب میں تھیٹر ایک بار پھر وہ طاقت بن سکتا ہے جو اچھے سماجی اخلاق کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے، جو برادریوں کو ایک ساتھ جوڑتا ہے، جو ریاست کے ثقافتی ورثے میں حسن کا اضافہ کرتا ہے۔

عظمیٰ بخاری کا یہ منصوبہ پاکستان کے دیگر علاقوں، بلکہ دنیا کے ان حصوں کے لیے بھی ایک ممکنہ مثال اور سبق ہو سکتا ہے، جنہیں ثقافتی زوال کے ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے اور فنکاروں کی آزادی اظہار اور ان کے اخلاقی فرض کے درمیان ایک نازک توازن تلاش کرنا ہے۔ یہ ایک احتیاط سے اٹھایا گیا قدم ہے، ایک ایسی اونچی رسّی پر چلنا ہے جس پر معیار کو نافذ کرنا بھی ضروری ہے اور حقیقی اظہار کی حفاظت اور حمایت کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ کیا یہ پرجوش کوشش بالآخر رنگ لائے گی اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا حکومت ایک ایسا سازگار ماحول فراہم کر سکتی ہے جس میں فنکاروں کو زیادہ ریگولیٹ نہ کیا جائے، بلکہ ان کی مدد کی جائے، جس میں تخیل کی پرورش اور حوصلہ افزائی کی جائے، جس میں اسٹیج ایماندارانہ کہانی گوئی، اشتعال انگیز خیالات اور انسانی تجربے کے سینکڑوں مختلف پہلوؤں کی نمائندگی کے لیے ایک زندہ جگہ ہو۔

مثال کے طور پر، تھیٹر کے اہم سماجی مسائل سے نمٹنے کے امکان پر غور کریں۔ ایک ایسا ڈرامہ لیں جو غیرت کے نام پر قتل کے سنگین مسئلے کو اٹھاتا ہے، سنسنی خیزی سے نہیں، بلکہ ایک فکری کردار نگاری اور ایک دل چسپ کہانی کے ذریعے جو لوگوں کو ناگوار حقائق سے روبرو کراتی ہے۔ یا ایک ایسا ڈرامہ جو کام کی جگہ پر خواتین کے مسائل کا مزاح اور درد کے ذریعے جائزہ لیتا ہے تاکہ لوگوں کو سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کیا جا سکے۔ یا ایک پرانے پنجابی لوک داستان کا تھیٹر ورژن، آج کے سامعین کے لیے دوبارہ تخلیق کیا گیا، جو ہمارے بھرپور ثقافتی ورثے کا احترام کرتے ہوئے ہماری معاصر سماجی حقیقتوں کی عکاسی کرتا ہو۔ یہ اس قسم کے ڈرامے ہیں جو ابتذال کی مضبوط گرفت سے پردہ چھین کر اسے اس کے اصل مقصد کے لیے دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں: سماجی تبدیلی کا ایک طاقتور ذریعہ۔

اس راستے کا انتخاب آسان نہیں ہوگا۔ مزاحمت ہوگی، ناکامیاں ہوں گی، اور اس بات پر بحث ہوگی کہ “فحاشی” کی صحیح تعریف کیا ہے اور آزادی اظہار کی حدود کیا ہیں۔ لیکن اسے نہ چننا – پنجاب میں اپنے تھیٹر کو مزید زوال پذیر ہونے دینا – کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ یہ ہماری قوم کی ثقافتی روح کی بقا کی جنگ ہے، اپنی کہانی خود کہنے کی جدوجہد ہے، اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارے تھیٹروں میں گونجنے والی ہنسی حقیقی ہو اور جو کچھ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہیں وہ ہماری شناخت کی ایک ایماندارانہ تصویر ہو۔ یہ ایک بگل کی پکار ہے، ایک فوری اپیل ہے کہ دھول جھاڑیں، روشنی واپس لیں، اور پنجاب میں تھیٹر کو اس کی اصل عظمت پر بحال کریں: ہماری قوم میں ایک زندہ، دھڑکتی ہوئی طاقت۔ کیا یہ انقلاب کامیاب ہوگا، کیا ہم اسٹیج کو زندہ کر سکیں گے، کیا ہنسی سچی ہو سکے گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن ایک بات یقینی ہے: ہم نے بات کرنا شروع کر دی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

دُرِ اکرم

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: طویل عرصے سے ایک ایسی ایک ایسا یہ ایک کی ایک کے لیے ہے اور کا ایک

پڑھیں:

اکادمی ادبیات کا اندھا یدھ

پہلی بار نہ سہی مگر اکادمی ادبیات پاکستان نے ادبی ایوارڈ زکی صورت میں جو اندھا یدھ برپاکیا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔قومی معاملات میں مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تو ہوہکار کے طوفان تو اٹھتے اور بیٹھ جاتے ہو ئے دیکھے ہیں مگر علم و دانش اور شعر و ادب کے حوالے سے ایسی رستاخیز کبھی برپا نہیں ہوئی تھی۔اس پر مستزاد اہل قلم مداہنت آمیز خاموشی…! اور تو اور جن کا قلم درد و الم کی گنگا بہانے کی’’خیالی نقش گری‘‘ میں کمال مہارت رکھتا ہے ، جن کی زنبیل میں سیاسی بد عنوانیوں اور بداعمالیوں پر ڈالنے کے لئے اطلس و کم خاب کے پارچہ جات کی کمی نہیں ،وہ جو ہر فیصلے اپنی پسند و ناپسندی کی جہت دینے کے وسیع اختیارات رکھتے ہیں ۔جو سفید کو سیاہ اور سیاہ کے سفید ہونے کی تصدیقی مہریں ہر پل اپنی جیبوں میں رکھتے ہیں اور طاقت پرواز ایسی کہ کاغذی بیمانوں پر سوار ہوکر جدہ پیلس پناہ جلینے میں ساعت بھر نہیں لگاتے ۔اپنا یہ حسن ظن بھی خیال خام ثابت ہوا کہ اس بار وہ بچ بچا کر ہونے والے امکانات کی روشنی میں فیصلے صادر کروائیں گے کہ اس پیرانہ سالی میں کفاروں کی ادائیگی کا اہتمام صاف و شفاف دکھائی دے گا ۔مگر وائے افسوس وہ دہکتے ہوئے ادبی ماحول کی بابت کچھ کہنے کی بجائے ’’لق و دق صحرا میں بگولے کی طرح رقص کرتے گھمن گھیریاں کھاتے‘‘
پی ٹی آئی کے وجود کا نوحہ لکھنے ہی میں مست رہے ،کیونکہ ان کے حکم اذاں کی تعمیل کے لئے عمرہ جاتی یا جاتی عمرہ کی جانب رخ انور سجائے رکھنا ضروری ہے ۔ اکادمی ادبیات کی نیاز بانٹنے والوں نے جو ’’یدھ‘‘ مچایا اس کی مثال نہیں ملتی اور مجال کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ قومی خزانے پر انہیں کا حق ہے جنہیں ان کے اجداد سانپ کی طرح اس کی نگرانی پر مامور کر گئے تھے۔یوں بھی اپنے اپنے خدا گھڑلینے کا رواج اب نہیں پڑا یہ بہت پرانی رسم ہے زمین پر خدا بنالینے والوں کی اپنی احتیاجات اور اپنی ضروریات ہوتی ہیں ۔مورت گری کے فن پر دسترس ہوتو ضمیر آڑے نہیں آتا کہ یہ تو ہنر ہی باد فروشوں ہی کا ہے ۔اب کی بار اکادمی ادبیات کی شہ نشین صنف نازک ہیں نزاکتوں بھرے فیصلے ہی ان کی زبانی سنوائے جانے تھے ،انہیں کیا خبر عدل کیا ہوتا ہے ؟ انصاف کسے کہتے ہیں ؟ کہ ان کے زریں دور میں تو ایسے ہی غیر شفاف فیصلوں کا چلن ہے ،پھر ان پر کیا دوش کہ ان کے گرد بھی تو باد سنجوں کی ایک فوج ظفر موج ہوگی ، جنہیں سچ کہنے اور حق کرنے کا بھلے یارہ ہی کس نے بخشا ہوگا اور وہ بھی لکھے ہوئے فیصلوں پر دستخط کرنے کا اختیار رکھتی ہیں، خط تنسیخ کی اجازت آنہیں کہاں تفویض کی گئی یہ اختیار تو سنا ہے ریاست اور حکومت کے سربراہ کے پاس بھی نہیں ہوتا ،سوائے اس کے کہ فیصلے سارے اسی کے ہیں ہماری بابت اختیار بس اتنا کہ خبر میں رہنا ہے کتنے سخن ساز ہیں ،قلم کار ہیں بھوک رات دن جن کے آنگنوں میں رقص کرتی ہے مگرکسے خبر ہے ہمارے اندر ہر ایک منظر بہ چشم تر ہے کسے خبر ہے (مصدق سانول) ایک نابغہ روزگار نوجوان شاعر تھا عین شباب میں داعی اجل ہوا ۔آج تک کسی کی نظر سے نہیں گزرا ،اس کی نظمیں ،اس کی گائی ہوئی کافیاں ،سرائیکی شعری سرمایہ سب حالات کی بھینٹ چڑھ گیا ۔
سرائیکی وسیب کے منفرد لہجے کے شاعر حبیب فائق کسے یاد ہیں،یاد تو فقیر منش سرائیکی شاعر اسلم جاوید بھی کسی کو نہیں جو ابھی زندہ ہے اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔کس کس کا ذکر کریں کہ یہاں یہ رسم رہی ہے کہ ’’منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘ مقبول تنویر سرائیکی مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے عین جوانی میں داغ مفارقت دے گئے ۔مرحوم ڈاکٹر مقصود زاہدی اردو رباعی کے بادشاہ کبھی کسی ایوارڈ کے مستحق نہیں ٹھہرائے گئے اور ممتاز اطہر اردوغزل کو نئی جہت اور جدید رنگ عطا کرنے والے ،غربت و افلاس کے اندھیروں میں بھٹکرہے ہیں کسی نے ان کی انگلی نہیں تھامی کہ بے روزگاری کے اندھے کنویں سے نکل آتے ۔ایسے کئی اور رتن ہوں گے جو آسودہ خاک ہوئے اور وہ ہیں کہ ابھی بے سمتی اور بے حکمتی کے لق و دق صحرا میں رقص کرتی، پی ٹی آئی پر ہی سوئی اڑائے ہوئے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • عورتیں جو جینا چاہتی تھیں
  • اکادمی ادبیات کا اندھا یدھ
  • خاندان کی موت، 4 سالہ بچی کئی دن تک چاکلیٹ کھا کر زندہ رہی
  • ‘مردہ’ شخص زندہ ہوکر نادرا دفتر پہنچ گیا، ‘ہر جگہ الرٹ آتا ہے کہ آپ مرچکے ہیں’
  • میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
  • ہمارے حکمران اور سیاستدان اُمت مسلمہ سے نہیں ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری 
  • ہم نے فلسطین کی حمایت کو زندہ رکھنا ہے، ہمارے حکمران اور سیاستدان اُمت مسلمہ سے نہیں ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری 
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی
  • رواں سال پرائیویٹ حج اسکیم کے تحت جانے والے کتنے پاکستانی حج نہیں کر سکیں گے؟
  • ٹیکس گزاروں کیلئے اچھی خبر ، گوشوارے جمع کروانے کی نئی تاریخ دیدی گئی