ڈالر کو کمزور کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اپریل 2025ء) وائٹ ہاؤس کی کونسل آف اکنامک ایڈوائزرز کے چیئرمین اسٹیفن میران عالمی تجارتی اور مالیاتی نظام میں بڑی تبدیلی کی وکالت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ڈالر کمزور ہونے سے امریکی معیشت زیادہ ترقی کرے گی۔
میران نے اپنی حکمت عملی 41 صفحات پر مشتمل ایک مضمون میں پیش کی ہے۔ ''عالمی تجارتی نظام کی تشکیل نو، صارفین کے لیے ایک گائیڈ‘‘ نامی اس مضمون میں انہوں نے استدلال کیا کہ محصولات عائد کرنا اور مضبوط ڈالر کی پالیسی سے پیچھے ہٹنا ایسی پالیسیاں ہیں، جو عالمی تجارتی اور مالیاتی نظام کو از سر نو ترتیب دے سکتی ہیں۔
‘‘ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل میران کا یہ مضمون نومبر میں ٹرمپ کی انتخابی فتح کے بعد شائع ہوا تھا لیکن امریکہ کی طرف سے شروع کی گئی نئی ''تجارتی جنگ‘‘ کے بعد یہ زیادہ توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔
(جاری ہے)
المختصر، انہوں نے اپنی اس حکمت عملی میں اضافی محصولات اور کمزور ڈالر پر زور دیا ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ مضمون امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ''تجارتی جنگ‘‘ کے لیے نظریاتی جواز فراہم کرتا ہے۔
میران کا کہنا ہے کہ مضبوط ڈالر امریکی برآمدات کو غیر مسابقتی جبکہ درآمدات کو سستا کرتا ہے، جس سے امریکی مینوفیکچررز کو نقصان ہوتا ہے کیونکہ اس طرح امریکہ میں کارخانے قائم کرنے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
ڈالر ایک اہم عالمی کرنسیڈالر روایتی طور پر جنگوں یا بحرانوں کے دوران سرمایہ کاروں کے لیے ایک محفوظ کرنسی سمجھا جاتا ہے لیکن حالیہ دنوں میں ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں پر خدشات کے باعث اس کی قدر میں کمی آئی ہے۔
دنیا بھر کی کمپنیاں اور حکومتیں تیل، ہوائی جہازوں اور دیگر اشیاء کی خریداری کے لیے ڈالر کا استعمال کرتی ہیں۔
مضبوط ڈالر امریکی حکومت کے بانڈز کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش بنا دیتا ہے، جس سے امریکہ کو تقریباً لامحدود ادھار لینے کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔
'پلازا ایکارڈ‘ جیسی ایک نئی ڈیلمیران نے پلازا ایکارڈ جیسا ایک معاہدہ کرنے کی تجویز دی ہے۔
یاد رہے کہ سن 1985ء میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، مغربی جرمنی اور جاپان نے نیویارک کے پلازا ہوٹل میں ایک ڈیل کو حتمی شکل دی تھی، جس کے تحت تب ڈالر کی قدر کو کنٹرول طریقے سے کم کیا گیا تاکہ امریکی تجارتی خسارہ کم کیا جا سکے۔میران کے مطابق نئے معاہدے کو ''مار اے لاگو ایکارڈ‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ مار اے لاگو دراصل فلوریڈا میں قائم صدر ٹرمپ کے ایک ریزارٹ کا نام ہے۔
محصولات، سودے بازی کا ایک آلہمیران کے بقول صدر ٹرمپ محصولات کو سودے بازی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یورپ اور چین جیسے تجارتی شراکت داروں کو ایک نئی ڈیل کے لیے راضی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
میران نے تجویز دی کہ ڈالر کی قدر کو کم کرنے کے لیے امریکی پارٹنرز کو ڈالر کے ریزرو فروخت کرنا ہوں گے۔
ایک اور تجویز یہ ہے کہ امریکی خزانے کے بانڈز، جنہیں عموماً چند سالوں کے لیے خریدا جاتا ہے، انہیں 100 سال کی مدت والے قرض سے تبدیل کر دیا جائے۔
اس سے امریکہ کو بار بار قرض واپس کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور مارکیٹ میں ممکنہ مالی بحران کی وجہ سے شرحِ سود میں اضافے کے خدشات بھی کم ہو سکیں گے۔میران نے یہ تجویز بھی دی کہ ایسے غیر ملکی سرکاری ادارے، جو امریکی خزانے کے بانڈز رکھتے ہیں، ان پر ''یوزر فیس‘‘ عائد کی جائے تاکہ حکومتی خزانے کو دوبارہ بھرا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ جو ممالک تعاون کریں گے، ان پر عائد محصولات کم کیے جا سکیں گے جبکہ وہ اپنی اپنی سلامتی کے لیے امریکی عسکری تحفظ پر انحصار جاری رکھ سکیں گے۔
اس منصوبے پر تنقید کی وجہ کیا ہے؟برطانیہ میں قائم کیپیٹل اکنامکس کی سینئر اقتصادی مشیر وکی ریڈووڈ کا کہنا ہے کہ امریکی قرض دہندگان کو بانڈز کے تبادلے پر مجبور کرنا دراصل ''امریکی قرضوں پر عملاً ڈیفالٹ‘‘ ہو گا۔
سوئس بینک پکٹے کے ماہرین نے بھی اس حوالے سے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ملکی ادائیگیوں پر ''یوزر فیس‘‘ عائد کرنا ’’انتہائی غیر حقیقی‘‘ ہے اور یہ معاہدے کی خلاف ورزی یا ڈیفالٹ کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے۔
پیرس اسکول آف اکنامکس کے پروفیسر ایرک مونے کے مطابق سب کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ اس نئے امریکی معاہدے کی شرائط کیا ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں کہا تھا، ''اگر امریکہ دیگر ممالک کو راضی کرنے میں کامیاب ہو جائے تو قانونی طور پر یہ اقدام بغیر ڈیفالٹ کے ممکن ہے۔‘‘
ماہرین اقتصادیات نے میران کی تجاویز پر پر سخت تنقید کی ہے۔
ریڈووڈ نے کہا، ''اگر امریکہ واقعی اپنا تجارتی خسارہ کم کرنا چاہتا ہے، تو اس کے بہتر طریقے موجود ہیں۔‘‘پکٹے کے ماہرین کے مطابق، ''ممکنہ مار اے لاگو معاہدہ نظریاتی اور عملی دونوں لحاظ سے غلط ہے۔‘‘
برطانوی ادارے آکسفورڈ اکنامکس کے ماہرِ اقتصادیات ایڈم سلیٹر نے اے ایف پی کو بتایا کہ اگر واقعی تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے تو ڈالر کی قیمت میں کم از کم 20 فیصد کمی ضروری ہو گی۔
ادارت: افسر اعوان
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا کہنا ہے انہوں نے ڈالر کی کرنے کی کے لیے
پڑھیں:
چین امریکا میں تجارتی جنگ،عالمی منڈی میں تیل مہنگا
واشنگٹن:امریکا کی جانب سے چین پر نئی پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں تین فیصد سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
امریکی خام تیل کی قیمت دو ڈالر بڑھ کر 64.45 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے، دوسری جانب برطانوی خام تیل کی قیمت بھی دو ڈالر اضافے کیساتھ 67.85 ڈالر فی بیرل ہوگئی۔
مزید پڑھیں: امریکا کا چینی بحری جہازوں کے لیے نئی پورٹ فیس کا اعلان
دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتوں کے درمیان جاری تجارتی جنگ میں مزید شدت آ گئی ۔ چین نے امریکا کیلئے سات نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندی عائد کر دی۔
یہ معدنیات جدید دفاعی ٹیکنالوجی، گاڑیوں اور ہتھیاروں میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے بغیر لڑاکا طیارے، آبدوزیں، میزائل، ریڈار سسٹمز اور ڈرونز کی تیاری ممکن نہیں ۔