ملک کو ڈنڈے کے زور پر نہیں چلایا جاسکتا، علی امین گنڈاپور
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ملک کو ڈنڈے کے زور پر نہیں چلایا جاسکتا، 2024 کے الیکشن میں جس طرح سے بدترین دھاندلی کی گئی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تمہیں پاکستان میں الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ لوگ چاہئیں، عمران خان اس لیے جیل میں ہے کیوں کہ وہ نظام کے لیے خطرہ ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق لاہور ہائیکورٹ بار میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا کہ عوام پر اپنے لوگوں کو مسلط کرنے کے لیے بار بار تجربے کیے گئے، وہ تجربات پوری قوم کے سامنے ہیں، ان تجربات کے نتیجے میں پاکستان 76 ہزار ارب کے قرضوں میں ڈوب چکا ہے، آج پاکستان کی یہ حالت ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والا ملک نہ خوددار رہا نہ خودمختار رہا۔
علی امین نے کہا کہ یہ کہتے ہیں پاکستان کے لیے لگے ہوئے ہیں، اگر تم پاکستان کے لیے لگے ہوئے ہو، تو پاکستان کے آئین کے مطابق پاکستان میں جمہوریت ہے اور جمہوریت میں الیکشن میں تم ہمیشہ دھاندلی کرتے ہو۔
انہوں نے کہا کہ 2024 کے الیکشن میں جس طرح سے بدترین دھاندلی کی گئی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تمہیں پاکستان میں الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ لوگ چاہئیں، کیونکہ تم ہی نے اصل میں حکومت چلانے ہوتی ہے اور تم نے ہی حکومت گرانی ہوتی ہے، تو پھر جب حکومت تم چلاؤ اور تم گراؤ تو پھر یہ اسمبلیاں اور آئین کیوں بنایا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے مزید کہا کہ تو پھر اگر آپ جج بھی وکیل بھی ہو اور مدعی بھی ہو تو پھر ایسے ملک نہیں چل سکتے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان صرف اور صرف اس قوم، مسلمانوں، اسلام اور ناموس رسالتﷺ کی بات کرتا ہے، اس لیے وہ آج جیل میں ہے، کیونکہ اس سے نظام کو خطرہ ہے، خطرہ یہ ہے کہ وہ پاکستان قانون کی حکمرانی چاہتا ہے، پاکستان میں اسلامی حققوق اور پاکستان کی خودمختاری اور خودداری کی بات کرتا ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاکستان میں نے کہا کہ علی امین کے لیے تو پھر
پڑھیں:
افغانستان اور دہشت گردی
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں بین الاقوامی سال برائے امن و اعتماد 2025عالمی دن برائے غیرجانبداری اور ترکمانستان کی مستقل غیرجانبداری کے30سال مکمل ہونے پر منعقدہ اعلیٰ سطحی عالمی فورم سے خطاب کیا۔
اپنے اس خطاب میں انھوں نے اہم امور پر پاکستان کا مؤقف پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی، غربت اور عدم مساوات دنیا کے بڑے خطرات ہیں، انھوں نے خبردار کیا کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کا خطرہ بڑھ رہا ہے جس پر عالمی برادری افغان طالبان حکومت پر اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔
وزیراعظم نے کہا پاکستان عالمی امن و سلامتی کے فروغ کے لیے بھرپور کردار ادا کر رہا ہے،پاکستان نے2025میں سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست سنبھالنے کے بعد عالمی امن کے فروغ کے لیے مؤثر اقدامات کیے،غزہ میں جنگ بندی کے لیے قطر، ترکیہ، سعودی عرب، یو اے ای اور ایران کی کوششوں کی حمایت کی اور فلسطینیوں و کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔
وزیراعظم نے کہا مشرق وسطی میں تادیر جنگ بندی اور انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی ضروری ہے ۔پاکستان نے خواتین اور کمزور طبقات کی معاشی شمولیت کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم میاں شہباز شریف نے روسی صدر ولادیمیر پوتن، ترک صدر رجب طیب ایردوان، ایرانی صدر مسعود پزشکیان، تاجک صدر امام علی رحمن اور کرغیزستان کے صدر سادر جپاروف سے غیر رسمی اور خوشگوار ملاقاتیں کیں۔
ان ملاقاتوں میں انھوں نے عالمی امور سمیت باہمی تجارتی معاملات پر بھی گفتگو کی ہے۔ انھوں نے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کے دوران پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے میں شکریہ بھی ادا کیا لیکن اس بات پر زور دیا کہ امن تب ہی ممکن ہو گا جب پاکستان کے سلامتی کے خدشات کو پوری طرح سے حل کیا جائے گا۔
صدررجب طیب اردوان نے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی جانب سے نیک خواہشات پر ان کا شکریہ ادا کیا اور دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات استوار کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
وزیراعظم نے دیگر عالمی رہنماؤں کے ہمراہ ترکمانستان کی مستقل غیرجانبداری کی پالیسی کی علامت یادگار غیرجانبداری کا دورہ کیا اور پھول چڑھائے ۔اس موقع پر روس کے صدر ولادی میر پیوٹن، ترک صدر رجب طیب اردوان اور ترکمانستان کے صدر بردی محمدوف سمیت متعدد عالمی رہنما بھی موجود تھے جن سے وزیراعظم کا خوشگوار جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں ہونے والے اس اہم فورم میں خطے کے اہم ممالک نے شرکت کی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ فورم کس قدر اہمیت کا حامل تھا۔ اس فورم میں موسمیاتی تبدیلیوں پر بھی گفتگو ہوئی اور دہشت گردی خصوصاً افغانستان کے معاملات پر بھی لیڈروں کے ساتھ تبادلہ خیال ہوا۔
افغانستان اس وقت وسط ایشیا سے لے کر مشرق وسطیٰ تک اور دوسری طرف روس تک بحث ومباحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ افغانستان میں آپریٹ کرنے والے دہشت گرد گروپ اردگرد کے ممالک کے لیے مسلسل خطرہ بنتے نظر آ رہے ہیں۔
سارے ممالک اس صورت حال سے پریشان ہیں۔ پاکستان کا مؤقف تو اس حوالے سے بالکل واضح ہے کہ جب تک افغانستان کی حکومت پاکستان کے خدشات کو دور نہیں کرتی اس وقت تک صورت حال نارمل نہیں ہو سکتی۔
افغانستان پر برسراقتدار طالبان حکومت بھی عالمی موڈ کو دیکھ رہی ہے۔ طالبان حکومت مختلف حکمت عملیوں کے تحت کوشش کر رہی ہے کہ وہ کسی طریقے سے اقوام عالم کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جائے کہ وہ ایک ذمے دار حکومت ہے اور کوشش کر رہی ہے کہ عالمی برادری کے تحفظات کو دور کرے۔
اس سلسلے میں گزشتہ دنوں کابل میں افغانستان کے علماء کی کانفرنس بھی ہوئی جس میں دہشت گردی کی مذمت بھی کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان کے لوگوں کا کسی دوسرے ملک میں جا کر لڑنا خلاف اسلام ہے۔
جہاد کا حکم صرف ریاست ہی دے سکتی ہے۔ بظاہر یہ ایک اچھا اقدام نظر آتا ہے لیکن سوال پھر وہی ہے کہ جب تک عملی طور پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں نہیں ہوتیں، اس وقت تک معاملات درست نہیں ہو سکتے۔
پاکستان ہی نہیں بلکہ تاجکستان اور دیگر ممالک بھی افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی سے تنگ ہیں۔ ان کا بھی مطالبہ ہے کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کیا جائے۔
پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان میں مقیم ہے۔ افغانستان کی طالبان رجیم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں داعش، خراسان صوبہ کے نام سے بھی دہشت گرد تنظیم کام کر رہی ہے۔
القاعدہ سے منسلک تنظیمیں بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ وسط ایشیائی نژاد لوگ بھی افغانستان میں موجود ہیں جو دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اس صورت حال میں اگر افغانستان پر برسراقتدار طالبان حکومت کی طرف دیکھا جائے تو اس کی جانب سے کوئی قابل ذکر کارروائی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
ٹی ٹی پی کے لوگ کھلے عام افغانستان میں موجود ہیں بلکہ وہاں کاروبار بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان نے اس حوالے سے افغانستان کی حکومت کو ثبوت بھی فراہم کیے ہیں۔ افغانستان کے اربابِ اختیار بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اس دہشت گرد تنظیم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہے۔
نہ ہی وہ یہ بتا رہے ہیں کہ افغانستان کی حکومت میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف لڑائی لڑ سکے۔ اگر وہ اس بات کا اعتراف کر لیں کہ وہ تنہا دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ نہیں لڑ سکتے اور پاکستان کے ساتھ اس حوالے سے تعاون طلب کریں تو معاملات پر غور کر کے دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائیاں بھی ہو سکتی ہیں۔
پاکستان زیادہ دیر تک اپنی شمال مغربی سرحدوں پر جاری اس سنگین صورت حال کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اسی طرح تاجکستان اور افغانستان کے دیگر ہمسائے بھی افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں سے نظریں نہیں چرا سکتے۔
اقوام متحدہ بھی افغانستان کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔ یورپی ممالک بھی اپنی تشویش ظاہر کر رہے ہیں۔ اشک آباد میں وزیراعظم پاکستان نے بھی افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات کا ذکر کر دیا ہے۔
اس ساری پیش رفت سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان کی حکومت پر عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ افغانستان کی طالبان رجیم اندرونی طور پر بھی مشکلات کا شکار ہے۔ افغانستان میں سابقہ شمالی اتحاد نئے رنگ میں متحد ہوتا نظر آ رہا ہے۔
این آر ایف نامی تنظیم احمد مسعود کی سربراہی میں سرگرم ہے۔ اس تنظیم نے پچھلے دنوں پنج شیر میں طالبان پر حملہ بھی کیا تھا۔ اس میں طالبان کا خاصا جانی نقصان بھی ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بھی مختلف تنظیمیں وہاں سرگرم عمل ہیں۔
یوں دیکھا جائے تو طالبان کے لیے اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تشویش ناک امر ہے۔ افغان طالبان نے دوحہ میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دوران جو وعدے کیے تھے، ان پر پورا اترنا لازم ہے۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان وعدوں پر عمل بھی نہ کیا جائے اور افغانستان پر حکمرانی بھی جاری رکھی جائے۔ افغانستان کے عوام مسلسل جبر اور زیادتی کا سامنا کر رہے ہیں۔ افغانستان کا انفرااسٹرکچر برباد ہو چکا ہے۔
افغانستان کے وسائل کو اونے پونے داموں عالمی کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ افغانستان میں جوابدہی کا نظام بھی موجود نہیں ہے۔ طالبان حکومت کے عہدیداروں کا احتساب کون کرے گا، اس کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔
افغانستان کو امن وترقی کے راستے پر ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان کی تمام قومیتوں، زبانوں اور ثقافتوں کو حکومت میں نمایندگی ملے۔ افغانستان کثیرالقومیتی اور کثیر اللسانی ملک ہے۔ اس پر کسی ایک گروپ کی حکومت دوسرے گروپوں کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔
طالبان کی حکومت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ افغانستان میں تاجک، ازبک، ہزارہ، مینگول، گجر، پامیری اور دیگر قومیتیں آباد ہیں۔ حکومت میں ان کی نمایندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں بھی ان کی نمایندگی کم ہے۔
افغانستان کو ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو افغانستان کے تمام لوگوں کی نمایندہ ہو۔ افغانستان میں عام انتخابات وقت کی ضرورت بن چکے ہیں۔ طالبان کی حکومت کو اس جانب پیش قدمی کرنی چاہیے اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لیے عملی اقدام کرنے چاہئیں جس کے بغیر افغانستان میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔