Daily Ausaf:
2025-04-22@00:09:47 GMT

فتوی آ گیا جہاد فرض ہے

اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT

کتِب علیکم القِتال ۔ مسلمان مظلوم ہوں تو ان کی مدد کے لئے جہاد کرنے کو اللہ تعالیٰ نے خود بلایا ہے، جھنجھوڑ کر بلایا ہے۔ اور جب وہ مدد کے لئے پکاریں تو ان کی مدد کے لئے فوری اقدام کرنا ہی مسلمانوں کی لازمی ذمہ قرار دیا ہے۔
وِانِ استنصروکم فِی الدِینِ فعلیکم النصر فعلیکم النصر کے جملے میں صرف مدد کا حکم نہیں تین تاکیدوں کے ساتھ حکم ہے ۔ وجوب کی تاکید، علیکم کا معنی ہے کہ یہ کام لازم ہے ۔حصر کی تاکید یعنی صرف یہی آپشن ہے۔ جلدی کی تاکید کہ یہ کام فوری کرنے کا ہے ۔اگر مسلمان اب تک فتوے کے انتظار میں رہے تو الحمد للہ وہ بھی آ گیا ہے اور متفقہ آ گیا ہے۔ اور جب جہاد کی فرضیت کا حکم آ جائے تو معاشرہ ہمیشہ تین طرح کے لوگوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
-1 جہاد کے لئے نکل پڑنے والے الحمدللہ امت میں ایسے اہل ایمان ہیں اور ہمیشہ رہیں گے جو مسلمانوں کی مدد کے لئے قتال کرنے کو اپنی لازمی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ اپنی اولین ترجیح بنائے رکھتے ہیں۔ ان کے کان ہمیشہ مظلوموں کی پکار کی طرف لگے رہتے ہیں۔ ان کے دل ہمہ وقت امت کے لئے دھڑکتے ہیں۔ ان کے بازو شجاعت کے جوہر دکھانے اور اللہ کے ان دشمنوں کو عذاب دینے کے لئے مچلتے رہتے ہیں جو اہل ایمان پر ظلم و ستم کریں اور اللہ کے دین کو مٹانے کے در پے ہوں۔ وہ اپنے جسموں کو مضبوط اور عزائم کو توانا رکھتے ہیں۔ وہ اپنی دنیا کو آخرت کے بدلے میں بیچ ڈالتے ہیں اورجنت کے حصول کے میدانوں کی طرف دیوانہ وار لپکتے ہیں۔ وہ نہ فتاوی کا انتظار کرتے ہیں نہ دلائل کی موشگافیوں میں الجھتے ہیں۔ انہیں قرآن سے ، آقا مدنی ﷺ کی سیرت مبارکہ سے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے طرز عمل سے یہ مسئلہ سمجھ آ چکا ہے اور ذہن نشین ہو چکا ہے کہ ایسے وقت میں ان مظلوموں کی مدد کو پہنچنا ہی ان کی اولین ذمہ داری ہے۔ ان کے گھوڑے تیار اور تلواروں کی دھار آبدار رہتی ہے اور وہ میدانوں کی کھوج میں رہتے ہیں۔ وہ دن رات یہی پیغام لے کر پھرتے ہیں اور اسی فکر کو عام کرتے ہیں۔ اگرچہ ملامتیں سہتے ہیں اور تنہائیاں برداشت کرتے ہیں۔ انہیں مبارک ہو یہ اصل کامیابی کے راستے پر ہیں۔ یہ قرآن کا فیصلہ ہے۔ انہوں نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا اور ان کی مبارک جماعت کا راستہ پایا ہے۔
لِکنِ الرسول و الذِین امنوا معہ جاھدوا بِاموالِہِم و انفسِہِم ۔ رسول اللہﷺ اور ان کی مبارک جماعت ہر طرح کے حالات میں جہاد پر نکلے۔ یہ ان کا طرز عمل اور اسوہ حسنہ ہے۔ بدر جیسی بے سروسامانی ہو یا احزاب جیسے ایمانی امتحان کے مواقع۔ احد کے لاشوں سے اٹے میدانوں سے بھی نکل پڑنے کا حکم آ گیا تو اپنے زخموں کو سہلاتے ہوئے چل پڑنے والے۔
الذِین استجابوا لِلہِ و الرسولِ مِن بعدما اصابہم القرح ۔ ان اہل ایمان کے لئے کیا انعام ہے؟ و اولٓئک لہم الخیرت۔ یہی بھلائیاں پانے والے ہیں۔ دنیا آخرت کی خیریں سمیٹنے والے اور رب سے رضا کی اکبر نعمت پانے والے ہیں۔ و اولٓئک ہم المفلِحون اور کامیابی تو بس انہی کے لئے ہے۔
بھائیو! دوستو ! بزرگو!اللہ تعالیٰ نے دنیا آخرت کی کامیابی جہاد میں رکھ دی ہے اوریہ قرآن کا واضح اعلان ہے۔یہ جہاد ہماری زندگیوں میں کیسے آئے گا؟اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔ہر وقت جہاد، دعوت جہاد، سچے نظریہ جہاد اور جہاد کی مکمل تیاری سے جڑے رہنے والوں کو خوشخبری ہو۔ ان کی یقینی کامیابی اور ان کے لئے دنیا آخرت کی بھلائیوں کا وعدہ رب تعالیٰ کی طرف سے آ چکا ہے۔
ومن اوفی بِعہدِہ مِن اللہ۔ معذوری کی وجہ سے جہاد میں نہ نکل پانے والے یہ اگر چاہیں کہ نہ نکل سکنے کی وجہ سے تارکین میں شمار نہ کئے جائیں، انہیں اس محرومی پر سوال اور عذاب کا سامنا نہ کرنا پڑے اور گنہگار نہ ہوں تو انہیں دو کام کرنے ہوںگے۔ -1 جہاد کی مکمل حسب استطاعت تیاری میں رہ کر اپنی نیت کی صداقت ثابت کرنا ہو گی۔ اگر تیاری سے غافل رہے تو یہ دعویٰ قبول نہ کیا جائے گا۔ قرآن مجید نے واضح اعلان فرما دیا ہے اور ان لوگوں کا دعوی جھوٹ قرار دے دیا ہے ولو ارادوا الخروج لاعدوا لہ عدۃ ۔ ٹھیک ہے کہ آج امت کی اکثریت اسی حالت میں ہے کہ ان مظلوم مسلمانوں کی عملی مدد کو نہیں پہنچ سکتی۔ سرحدوں کی رکاوٹیں ہیں اور عالمی قوانین کی جکڑ بندیاں۔ اور سب یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم اگر ان مجبوریوں میں نہ ہوتے تو ضرور جاتے۔ تسلیم بجا لیکن وہ تیاری کی وہ شرط کہاں ہے جو اس عذر کو سچا ثابت کر سکتی؟اور تیاری کے بغیر اگر پہلوئوں کا عذر ناقابل قبول ٹھہرا تو پچھلوں کے حق میں کیونکر قابل قبول ہو سکتا ہے؟جہاد کی فرضیت کے فتوے کا مخاطب حکمرانوں کو قرار دیا گیا۔ اللہ کرے انہیں شرم و حیا آئے اور وہ اپنے اختیار کو اسلام کے اس لازمی فرض کی ادائیگی میں استعمال کریں۔ لیکن ان سے امید کتنی ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔ عام المسلمین کو حسب طاقت مالی معاونت، بائیکاٹ اور آواز اٹھانے کا مکلف قرار دیا گیا۔ سب مسلمان یہ کام ضرور کریں کہ ایمانی غیرت کا کم سے کم تقاضا ہے۔
لیکن کیا جہاد کرنے کی ذمہ داری حکمرانوں کو سونپ دینے سے عام مسلمان اس فرض کی عملی ادائیگی سے بری ہو گئے؟کیا انہیں یہ نہیں بتانا چاہئے کہ ہر مسلمان پر عملی جہاد کی حسب استطاعت تیاری رکھنا ہر حال میں لازم ہے، اور ان حالات میں بطور خاص اس کا کیا حکم ہے؟ واعِدوا لہم ( دشمنوں سے مقابلے کی تیاری کرو)کیا یہ حکم صرف اہل اقتدار کے لئے ہے؟مِن قوۃ جسمانی قوت، اسلحہ، نشانہ بازی اور جہاد میں کام آنے والی ہر طاقت کا حصول کیا امت کے ایک طبقے پر لازم ہے دوسرے پر نہیں؟و مِن رِباطِ الخیل ِ۔گھوڑے پالنے، گھڑ سواری سیکھنے شہسوار بننے کا حکم کیا مخصوص مسلمانوں کے لئے ہے؟کیا جہاد کی سچی نیت کے بغیر موت آ جانے پر مات علی شعبۃ من نفاق کی وعید کسی کے لئے ہے اور کسی کے لئے نہیں؟اور اس سچی نیت کی جانچ کا پیمانہ اور کسوٹی جہاد کی تیاری کو کسی ایک طبقے میں حق میں قرار دیا گیا ہے یا سب مسلمان اس کے مخاطب ہیں؟ہم بائیکاٹ ضرور کریں اور ایسی تمام مصنوعات کو اپنی ذاتی استعمال سے بھی باہر کریں اور کاروبار سے بھی جن کا نفع ان دشمنان اسلام کو پہنچتا ہے۔
جہاد کو نہ ماننے والے، تاویلیں کرنے والے، بہانے ڈھونڈنے والے، مجاہدین پر طعن و تشنیع کے تیر برسانے والے، ان کے مقابل اپنی بزدلی اور بے حمیتی کو عقلمندی سمجھنے والے۔ انہیں برے حالات کا ذمہ دار قرار دینے والے اور ان سب سے بڑھ کر لوگوں کو جہاد سے روکنے والے عبد اللہ بن ابی کے فرزندقرآن مجید کا زندہ معجزہ ہے کہ اس کا کوئی کردار بھی محو نہیں ہوتا۔ کسی نہ کسی شکل میں زمین پر ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ کل بدر تھا آج غزہ ہیکل عبد اللہ بن ابی اور اس کی جماعت تھے تو آج غامدی اور اس کے ہمنوا ہیں ماضی میں غزوہ تبوک سے رہ جانے پر آنسو بہانے والے تھے تو آج بھی رات کی تاریکیوں میں سسکیوں اور آہوں سے اپنی بے بسی پر رونے والے موجود ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مدد کے لئے کے لئے ہے قرار دیا ہیں اور جہاد کی ہے کہ ا ہے اور کا حکم اور اس اور ان کی مدد

پڑھیں:

باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی

گزشتہ ایک صدی میں انسانیت ایک خاموش تبدیلی سے گزری ہے۔ سچا روحانی علم، جو کبھی اخلاص والے دلوں میں چھپا ہوتا تھا، اب مادی حرص و ہوس کے نیچے دفن ہو گیا ہے۔ دین اور روحانیت کے علمبردار علما، مشائخ اور مبلغین اکثر اس علم کو دولت، شہرت اور اقتدار کے لیے استعمال کرنے لگے۔
تزکیہ نفس، ذکر، اور باطنی سچائی کی دعوت اب سیاسی و مالی مفادات کی نذر ہو چکی ہے۔
حدیث ‘ ’’ایسا وقت آئے گا جب لوگ صرف اپنے پیٹ کی فکر کریں گے، دین ان کے لیے مال کا ذریعہ ہوگا، ان کا قبلہ ان کی خواہشات ہوں گی، اور وہ قرآن پڑھیں گے مگر اس پر عمل نہیں کریں گے۔
جب سچے ذکر اور باطنی بیداری کا چراغ بجھنے لگا، تب آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت (AI) جیسے نئے علوم نے دنیا میں جگہ لی شاید ہمیں یہ یاد دلانے کے لیے کہ ہم نے کیا کھو دیا، اور دوبارہ نظام، ترتیب، اور ربانی حکمت کی طرف لوٹنے کا وقت ہے۔
روحانی علم کی آلودگی۔ اخلاص، جو کبھی دین و تصوف کی روح تھی، اب لالچ، شہرت اور طاقت کے ہاتھوں ماند پڑ گئی ہے۔ اکثر مبلغین اور اداروں نے دین کو تجارت بنا دیا ہے۔
حقیقی تصوف، جو کبھی صرف اہلِ دل کے سینوں میں چھپا ہوتا تھا، اب رسموں اور نعروں فتوئوں میں بدل گیا ہے۔علم بغیر عمل کے دیوانگی ہے، اور عمل بغیر علم کے بیکار ہے۔
امام غزالی، احیاء العلوم۔ روح کی کھوئی ہوئی حقیقت ‘ لطائف کا علم‘ جو انسان کے اندر موجود روحانی مراکز کی نشاندہی کرتا ہے صدیوں تک خفیہ طور پر استاد سے شاگرد تک منتقل ہوتا رہا۔
ذکر، مجاہدہ، اور سچائی کے ذریعے یہ لطائف بیدار ہوتے ہیں اور اللہ کی قربت کی راہیں کھولتے ہیں۔مگر آج یہ علم یا تو چھپا لیا گیا ہے یا بیچا جا رہا ہے۔
جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔
حدیث ‘اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘ نور پر نور۔ اللہ جسے چاہے اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (سورۃ النور، 24:35)
آئی ٹی اور AI ‘ واپسی کی ایک نشانی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے پیچھے جو نظریہ ہے، وہ مسلمان سائنسدانوں کی تحقیق پر مبنی ہے۔
الگوردم ‘ کا تصور محمد بن موسی الخوارزمی سے آیا، جو ایک مومن مسلمان ریاضی دان تھے۔ہمیں سچائی کو جہاں سے بھی ملے، قبول کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
الکندی‘یاد رکھیں: ٹیکنالوجی بذاتِ خود نہ حرام ہے نہ حلال اصل چیز نیت اور استعمال ہے۔
کچھ علماء AI اور IT کو کفر یا بدعت کہتے ہیں، مگر خود سوشل میڈیا، آئی فون، اور لیپ ٹاپ پر دن رات سرگرم ہوتے ہیں۔یہ ریاکاری ہے، دین نہیں۔
جبکہ سچے طالبانِ حق جدید علم کو اخلاص اور حکمت سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ علم علمِ نافع ہے جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا:علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر تک۔
حدیث‘ تم میں سے بہترین وہ ہے جو علم سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ (صحیح بخاری)
اللہ والے مخلصین ایسے لوگ پوری حکمت اور فراست سے لیس ، کمپاس، GPS اور روحانی WiFi رکھتے ہیں جو انہیں رب سے جوڑ دیتا ہے۔
لطائف دل کی روشنی‘ تصوف کے مطابق، انسان کے اندر کئی لطائف ہیں جو روحانی ترقی کی منزلیں طے کرواتے ہیں۔ لطیفہ قلب‘ ذکر کا مقام۔ لطیفہ روح ‘الہام و وحی کا مرکز۔ لطیفہ سر ‘ دل کی گہرائیوں کا راز۔ لطیفہ خفی و اخفی ‘ باطنی اسرار کی انتہا۔
مولانا روم فرماتے ہیں:تم کمرے کمرے پھر رہے ہو اس ہار کو تلاش کرنے کے لیے جو تمہارے گلے میں پہلے ہی ہے۔
تمہارا کام محبت کی تلاش نہیں، بلکہ ان رکاوٹوں کو ختم کرنا ہے جو تم نے اس کے خلاف کھڑی کی ہیں۔
طالبِ حق کے نام پیغام۔ اے سچے طالب!یہ راہ تیرے لیے ہے۔ نہ ان کے لیے جو دنیا چاہتے ہیں، بلکہ ان کے لیے جو قربِ الہی کے خواہاں ہیں۔
دل کی طرف لوٹ،باطن کو بیدار کر،اس نور کو جگا،جو اللہ نے تیرے اندر رکھا ہے۔خبردار! دلوں کا سکون صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔ (سور ۃالرعد، 13:28؟)
آئو، ذکر کو اپنا ساتھی بنائو،لطائف کو روشن کرو،اور رب کی طرف بڑھو۔
اللہ ھو ۔ ھو کا ورد کرو پھر دیکھو دل میں اللہ کی محبت ا نور افضل الذکر لاا لہ ا لا اللہ۔

متعلقہ مضامین

  • خیبرپختونخوا حکومت نے آئندہ مالی سال کیلیے بجٹ کی تیاری شروع کر دی
  • پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات واپس اسی سطح پر لانا چاہتے ہیں جہاں مشترکہ امور پر بات ہوسکے، فضل الرحمان
  • پنجاب میں تنخواہ دار ملازمین پر ٹیکس شکنجہ کسنے کی تیاری، بل آج پیش کیا جائے گا
  • فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں
  • یہودیوں کا انجام
  • باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی
  • پنجاب حکومت کا فلم کی تیاری کے لیے مالی امداد فراہم کرنےکا اعلان
  • امریکہ اور اسرائیل آنے والے دنوں میں بڑے سرپرائز کی توقع کریں، انصار اللہ
  • اماراتی عوام کیلئے جدید ٹیکنالوجی والا آئی ڈی کارڈ متعارف کرانے کی تیاری
  • یہود کا علاج صرف جہاد سے ممکن ہے، سید کفیل بخاری