Daily Ausaf:
2025-04-22@00:21:18 GMT

نادر معدنیات یا سی پیک کا گھیرا ئو؟

اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT

پاکستان ایک بار پھر عالمی طاقتوں کے شطرنجی کھیل کا مرکز بن چکا ہے۔ عمران خان کی رہائی کے لیے امریکہ کے مبینہ دبائو، نادر معدنیات کی تلاش میں غیر معمولی دلچسپی، اور سی پیک کے روٹ کی متنازعہ تبدیلیوں کے اشارے۔ یہ سب ایک ایسی گریٹ گیم کی نشان دہی کر رہے ہیں جس میں صرف سیاست نہیں، بلکہ معیشت، سلامتی اور اسٹریٹجک اثر و رسوخ دائو پر لگے ہوئے ہیں، یقینا، یہ ایک سنجیدہ اور پیچیدہ موضوع ہے جس میں بین الاقوامی سیاست، معاشی مفادات، اور اسٹریٹیجک چالیں ایک ساتھ چلی جا رہی ہیں۔
عمران خان اور مبینہ امریکی دلچسپی‘ حالیہ رپورٹس اور سیاسی بیانات کے مطابق واشنگٹن کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے لیے نرم یا سخت سفارتی دبائو کے آثار نظر آتے رہے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت ابھی تک مہیا نہیں ہو سکا، پی ٹی آئی کے ناقدین کا موقف ہے کہ عمران خان کی رہائی کیلئے امریکی دبائو صرف سوشل میڈیا پروپیگنڈہ کی حد تک ہے، اس کا ثبوت یہ دیا جا رہا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جیک برگ مین کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی کانگریس کے 3 رکنی وفد نے پاکستان میں اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کے دوران اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں لی، حالانکہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے اس حوالے سے توقعات کا کوہ ہمالیہ کھڑا کر دیا تھا۔ تاہم اگر امریکہ عمران خان کی رہائی میں دلچسپی لیتا بھی ہے تو پھر بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ صرف انسانی حقوق کا معاملہ ہے، یا اس کے پیچھے کچھ اور مقاصد پوشیدہ ہیں؟ ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی کے تناظر میں اگر یہ رابطے مستقبل کی کسی سیاسی پالیسی کی بنیاد رکھ رہے ہیں تو پھر یہ شکوک پیدا ہوتے ہیں کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت کو ایک بار پھر امریکی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
نادر معدنیات اور سی پیک کا ہائی جیک‘ بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں نادر معدنیات کی موجودگی ایک کھلا راز ہے، مگر حالیہ مہینوں میں بین الاقوامی کمپنیوں اور اداروں کی غیر معمولی دلچسپی نے کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی خطے میں چینی اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا نادر معدنیات کی تلاش کے بہانے سی پیک کے روٹس پر قبضہ یا اس خاص ایریا میں اثر حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ صرف ایک معاشی مسئلہ نہیں، بلکہ پاکستان کی خودمختاری کیلئے خطرہ بھی تصور کیا جا سکتا ہے۔
چین کی ناراضی اور خطے کی صورتحال‘ چین جو سی پیک میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر چکا ہے، حالیہ مہینوں میں خاموش مگر پریشان نظر آتا ہے۔ منصوبوں کی سست روی، سیکورٹی کے خدشات، اور بعض معاملات میں پاکستانی پالیسی کی غیر یقینی کیفیت نے بیجنگ کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔ اگر پاکستان نے غیر متوازن پالیسی اختیار کی، تو چین کا اعتماد مجروح ہو سکتا ہے جو کہ نہ صرف سی پیک بلکہ پاکستان کی معاشی بقا کے لیے بھی خطرناک ہو گا۔
نتیجہ: کھیل ہے مگر خطرناک‘ پاکستان کو اس’’گریٹ گیم‘‘ میں اپنی پوزیشن سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ کسی بھی بیرونی طاقت کے لیے استعمال ہونا یا کسی ایک بلاک کی طرف جھکائو صرف وقتی فوائد دے سکتا ہے، مگر اس کے طویل المدتی اثرات قومی خودمختاری، معاشی استحکام، اور علاقائی تعلقات پر منفی پڑ سکتے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی جمہوری و سیاسی قیادتِ اور اسٹیبلشمنٹ اس حوالے سے سر جوڑ کر بیٹھے اور اس بڑے اسٹریٹجک ایشو پر سیاست کرنے کی بجائے خالصتاً قومی مفاد میں ٹی او آرز طے کیے جائیں۔ کیونکہ محض خدشات کی بنیاد پر نادر معدنیات کی تلاش اور ان سے فائدے اٹھانے کے اس نادر موقع سے استفادہ نہ کرنا بھی دانشمندی نہیں، اور نادر معدنیات کی تلاش کی آڑ میں سی پیک روٹ پر غلبے کی نئی بین الاقوامی پراکسی جنگ کی دلدل میں دھنس جانا بھی عقلمندی نہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر پاکستان دانشمندی اور شفاف حکمتِ عملی کے ساتھ اپنے نادر معدنیات کے ذخائر سے استفادہ کرے تو یہ ملکی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ ریکوڈک، تھر، اور شمالی علاقہ جات میں موجود سونے، تانبے، لیتھیئم، اور دیگر قیمتی دھاتوں کے ذخائر عالمی سطح پر انتہائی قیمتی سمجھے جاتے ہیں، خاص طور پر جب دنیا قابلِ تجدید توانائی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ صرف ریکوڈک منصوبہ ہی آئندہ چند دہائیوں میں پاکستان کو سالانہ اربوں ڈالر کی آمدنی دے سکتا ہے۔ اگر ان معدنیات کی کان کنی اور برآمد مقامی انڈسٹری کے فروغ، روزگار کی فراہمی اور برآمدات کے اضافے کے ساتھ کی جائے تو پاکستان کا تجارتی خسارہ نمایاں حد تک کم ہو سکتا ہے، اور ملک آئی ایم ایف جیسے اداروں کا محتاج بننے سے بچ سکتا ہے۔
اب فیصلہ ریاستی اداروں اور سیاسی قیادت کو کرنا ہے، کیا ہم تاریخ سے سبق سیکھیں گے یا ایک بار پھر کسی اور کے کھیل میں مہرہ بنیں گے؟

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نادر معدنیات کی تلاش عمران خان کی رہائی سکتا ہے رہے ہیں کرنے کی سی پیک اور سی کے لیے اور اس

پڑھیں:

کینالز تنازع پر ن لیگ پیپلزپارٹی آمنے سامنے، کیا پی ٹی آئی کا پی پی پی سے اتحاد ہو سکتا ہے؟

دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن آمنے سامنے ہیں۔ جمعہ کو حیدر آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہاکہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ وفاق کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، اسلام آباد والے اندھے اور بہرے ہیں، یہ نہ سننے کو تیار ہیں اور نہ ہی دیکھنے کے لیے تیار ہیں، ہم وزارتوں کو لات مارتے ہیں، کینالز منصوبہ کسی صورت منظور نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت فوری طور پر اپنا متنازع کینالز کا منصوبہ روکے، ورنہ پیپلز پارٹی ساتھ نہیں چل سکتی۔

یہ بھی پڑھیں متنازع کینالز منصوبہ: نواز شریف اور شہباز شریف کی پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت

اس ساری صورتحال میں اگر پیپلز پارٹی حکومت کی حمایت سے دستبردار ہو جاتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی اکٹھی ہو سکتی ہیں؟ اور یہ ممکنہ اتحاد پی ٹی آئی کے لیے کم بیک کرنے میں کتنا مفید ثابت ہو سکتا ہے؟

کینالز کے معاملے پر اختلاف پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ میں ہوگا، ماجد نظامی

سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی نے کہاکہ پیپلز پارٹی اس وقت مشکل صورتحال سے اس لیے دوچار ہے کیونکہ 9 فروری کے بعد سے لے کر اب تک وہ وفاقی حکومت پر تنقید تو کرتے تھے، لیکن ساتھ شامل بھی تھے، لیکن اب معاملہ تھوڑا مختلف ہے کیوں کہ کینالز کے معاملے پر یہ اختلاف پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ میں ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ سندھ میں قوم پرستوں کے مؤقف کی وجہ سے بھی پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے، اس لیے وفاقی حکومت پر پیپلز پارٹی تنقید تو کررہی ہے، لیکن ان کے اصل مخاطب اسٹیبلشمنٹ کے افراد ہیں، کیونکہ کینالز جو خصوصاً پنجاب میں آئیں گی، وہ ماڈرن فارمنگ کے ایریاز کے لیے تشکیل دی جا رہی ہیں۔

’براہِ راست اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرنا پیپلز پارٹی کے لیے ذرا مشکل ہے‘

انہوں نے سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہاکہ چونکہ سیاسی صورتحال پر براہِ راست اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرنا پیپلز پارٹی کے لیے ذرا مشکل ہے، اس لیے وہ وفاقی حکومت پر تنقید کررہے ہیں، لیکن یہ معاملہ پیپلز پارٹی بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ ہے، اس سے مسلم لیگ ن کا کوئی تعلق نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ماجد نظامی نے کہاکہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان اتحاد کا کوئی امکان نہیں، کیوں کہ نہروں کے معاملے پر پیپلزپارٹی کی یہ لڑائی مسلم لیگ ن سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان میں کوئی ایسی حکومت تشکیل نہیں پا سکتی جس کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہ ہو، اس لیے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کا معاملہ ذرا مشکل نظر آتا ہے۔

کینالز کے معاملے پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی نشست کامیاب نہیں ہوسکی، احمد بلال

تجزیہ کار احمد بلال نے کہاکہ سندھ تو پہلے سے ہی شور مچاتا آرہا ہے کہ انہیں پانی کم ملتا ہے، اگر اب ایسی صورت میں نہریں بھی نکلیں گی تو ان کے ساتھ زیادتی ہوگی، اسی لیے پیپلزپارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں باقاعدہ مہم چلا رہی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ متنازع کینالز منصوبے کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہونے والی نشست کامیاب نہیں ہو سکی، جس کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید بڑھتا جارہا ہے، اور بلاول بھٹو نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر انہوں نے ساتھ چھوڑ دیا تو یہ حکومت نہیں چل سکے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان پیپلزپارٹی کبھی بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد نہیں کرےگی، ان کے مسلم لیگ ن کے ساتھ معاملات حل ہو جائیں گے، اس وقت جو کچھ ہورہا ہے یہ صرف ایک پریشر ہے۔

’پیپلزپارٹی حکومتی حمایت سے دستبردار ہوگئی تو مرکز میں انتخابات دوبارہ ہوں گے‘

انہوں نے مزید کہاکہ اگر پیپلز پارٹی حکومت سے علیحدگی اختیار کرتی ہے تو وفاق کی یہی صورتحال ہوگی کہ انتخابات دوبارہ ہوں گے، اور ایسی صورت میں مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں کیوں کہ اس وقت ملک درست سمت میں گامزن ہو چکا ہے، اور معیشت ٹریک پر آگئی ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ یہ افورڈ نہیں کر سکتے کہ اس وقت دوبارہ سے سے انتخابات کروائے جائیں، بلاول بھٹو نے جلسے میں جو کہا یہ صرف بیان کی حد تک تھا۔

انہوں نے کہاکہ صدر مملکت آصف زرداری منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کیسے آگے بڑھنا ہے، کیسے پریشر ڈالنا ہیں اور مطالبات منوانے کے لیے کیا آپشن استعمال کرنے ہیں۔

نہروں کا معاملہ پیپلزپارٹی کے لیے اہمیت کا حامل ہے، رانا عثمان

سیاسی تجزیہ کار رانا عثمان نے بتایا کہ نہروں کا مسئلہ پیپلزپارٹی کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے، چونکہ اس کا سارا ووٹ بینک سندھ میں ہے، اور وہاں پر ان کی حکومت بھی ہے۔

انہوں نے کہاکہ پانی کے معاملے پر سندھ کے عوام بہت جذباتی ہیں، کالا باغ ڈیم کے معاملے پر یہ چیز واضح بھی ہو چکی ہے، کچھ بھی ہو جائے پیپلزپارٹی نہریں نکالنے کے معاملے پر راضی نہیں ہو سکتی۔

رانا عثمان نے کہاکہ بلاول بھٹو کی جانب سے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی ایک سیاسی پریشر ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو جمہوریت کے لیے کیا خطرات ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں حکومت متنازع نہری منصوبہ روکے ورنہ ساتھ نہیں چل سکتے، بلاول بھٹو نے شہباز شریف کو خبردار کردیا

انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ ملک اس وقت نئے انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا، کیونکہ پاکستان کی معاشی صورتحال ہی ایسی ہے، اس لیے پیپلزپارٹی حکومت کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آصف زرداری بلاول بھٹو پی ٹی آئی پی پی پی اتحاد پیپلزپارٹی شہباز شریف عمران خان کینالز معاملہ مسلم لیگ ن نواز شریف وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • سندھ کا پانی پنجاب نہیں لے سکتا: عظمیٰ بخاری
  • ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ جات جیپ ریلی نادر مگسی نے جیت لی
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
  • کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جا سکتا: رانا ثناء اللّٰہ
  • علاقے میں پائی جانے والی خاموشی کو ہرگز امن کا نام نہیں دیا جا سکتا
  • کینالز تنازع پر ن لیگ پیپلزپارٹی آمنے سامنے، کیا پی ٹی آئی کا پی پی پی سے اتحاد ہو سکتا ہے؟
  • وزیراعظم کی 60ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت
  • 60 ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے، شہباز شریف
  • 60 ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دی، شہباز شریف
  • وزیراعظم کی 60 ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت