پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان 2 طرفہ سفارتی تعلقات 15 سال بعد بحال ہوگئے، پاکستان اور بنگلا دیش کی دفترخارجہ کا مشاورتی اجلاس آج ڈھاکا میں ہو گا۔

نجی ٹی وی کے مطابق بنگلا دیشی میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے دفتر خارجہ کا مشاورتی اجلاس آج ڈھاکا میں ہو گا، جس میں دونوں ممالک کے خارجہ سیکریٹری وفود کی قیادت کریں گے۔

پاکستان کی خارجہ سیکریٹری آمنہ بلوچ دفتر خارجہ کی مشاورت (ایف او سی) میں شرکت کے لیے گزشتہ روز ڈھاکا پہنچی ہیں۔

بنگلہ دیشی میڈیا کا کہنا ہے کہ مشاورتی اجلاس میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی صورت حال اور دو طرفہ تعاون کے فروغ پر گفتگو متوقع ہے۔

دوسری جانب وزیرخارجہ اسحٰق ڈار کا اپریل کے آخری ہفتے میں دورہ بنگلا دیش متوقع ہے۔

بنگلہ دیشی اخبار دی ڈیلی اسٹار کے مطابق گزشتہ سال 5 اگست کو عوامی لیگ کی زیر قیادت حکومت کے خاتمے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔

حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور یونس کی 2 ملاقاتیں ہوئی ہیں، پہلی ملاقات گزشتہ سال ستمبر میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر اور بعد میں دسمبر میں قاہرہ میں ڈی ایٹ سربراہ اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی۔

اس کے بعد سے بنگلہ دیش نے پاکستانی شہریوں کے لیے ویزا قوانین میں نرمی کی ہے، اور براہ راست شپنگ کا آغاز کیا ہے۔

پاکستان بنگلہ دیش کے ساتھ ثقافتی تبادلے، تجارت، سیاحت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔

پاکستان بنگلہ دیش جوائنٹ بزنس کونسل کا قیام
پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے کہا ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش کو برآمدات میں اضافے کے امکانات دیکھتا ہے، خاص طور پر اگر ان کی مصنوعات قیمتیں مسابقتی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کپاس، چینی، چاول اور گندم جیسی مصنوعات برآمد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، مالی سال 24-2023 میں بنگلہ دیش نے پاکستان کو 6 کروڑ 10 لاکھ ڈالر سے زائد کی برآمدات کیں اور 6 کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے زائد مالیت کی اشیا درآمد کیں۔

اقبال حسین خان نے کہا کہ چونکہ پاکستان، افغانستان اور ایران کی مصنوعات کے لیے گیٹ وے کے طور پر کام کرتا ہے، لہذا ڈھاکا ان ممالک سے پاکستان کے راستے بہت ساری اشیا برآمد کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان براہ راست پروازیں شروع کرنے پر بھی بات چیت جاری ہے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بنگلہ دیش کے پاکستان اور کہ پاکستان نے کہا

پڑھیں:

رہبر معظم انقلاب اسلامی کی سفارتی حکمت عملی

اسلام ٹائمز: آرٹیکل کا اختتام رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے اس موقف سے کرتے ہیں، جو انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: "میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ گفتگو (مذاکرات)، وزارت خارجہ کے دسیوں کاموں میں سے ایک ہے۔ یعنی وزارت خارجہ دسیوں کام کر رہی ہے اور انہیں میں سے ایک یہ عمان کی گفتگو ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں، جو ابھی حال ہی میں سامنے آئے ہیں۔ کوشش کریں کہ ملک کے مسائل کو ان مذاکرات سے نہ جوڑیں۔ یہ میری تاکید ہے۔ جو غلطی جامع ایٹمی معاہدے میں کی، اس کی تکرار نہ کریں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

گذشتہ ہفتے ایران کی خارجہ پالیسی امریکہ اور سعودی عرب سے روس تک فعال رہی۔ اہم سفارتی واقعات رونماء ہوئے اس اسٹریٹجک تحرک میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ  نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی کی اس حکمت عملی کو چند نکات میں بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک: رہبر معظم انقلاب اسلامی کا پہلا بڑا قدم ٹرمپ کے خط کے جواب میں ایسی تدبیر اختیار کرنا تھا، جس سے سانپ کو مار کر لاٹھی بھی بچانا تھا۔ اس حوالے سے  امریکہ پر مذاکرات کے مقام کو مسلط کرنا، مذاکرات کو بالواسطہ بنانا اور سفارت کاری اور اقتدار آمیز فوجی پیغامات کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے عمل کو کم کرنا تھا۔

دو: رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا دوسرا اہم قدم روسی صدر کو مکتوب پیغام بھیجنا تھا۔ اگرچہ پوٹن کو بھیجے گئے پیغام کی تفصیلات عام نہیں کی گئیں، لیکن ایران اور امریکہ کے بالواسطہ مذاکرات کے آغاز کے پیش نظر، روس کے ساتھ تعلقات میں یہ اضافہ اس بات کا اشارہ ہوسکتا ہے کہ رہبر انقلاب نے بڑی ہوشیاری سے مشرقی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کے عمل کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے دور اور آزاد رکھنا ضروری سمجھا اور آپ اس عمل سے یہ پیغام  دینا چاہتے ہیں کہ وہ  مشرق کے اسٹریٹجک محور کو مذاکرات کے اہم دنوں میں فعال اور مثبت حوصلہ افزائی کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ وقت ضرورت ان تعلقات سے فائدہ اٹھانے کا امکان باقی رہے۔

اس کے علاوہ، یہ گذشتہ دور کے مذاکرات میں خارجہ پالیسی کے یک طرفہ ہونے کے تجربے اور خطرے کو بھی ایرانی حکومت سے دور کرتا ہے، جس میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے نتائج پر حد سے زیادہ انحصار تھا۔ تین: تیسرا اہم واقعہ سعودی عرب کے وزیر دفاع کی رہبر انقلاب سے ملاقات تھی۔ اس ملاقات کا پیغام یہ ہے کہ ایران ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور توسیع کو ایک خاص رفتار کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ ان بہتر تعلقات میں اہم اقتصادی اور سلامتی کے اہداف شامل ہیں، لیکن واضح طور پر یہ خطے میں اسرائیل پر سلامتی اور سیاسی  حوالے سے دباؤ کو بڑھا سکتا ہے۔

چار: آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کی خارجہ پالیسی میں عملاً ایک وسیع سفارت کاری کا میدان فعال کر دیا ہے۔ اس تیار کردہ میدان میں امریکہ کے مقابلے میں آزادانہ عمل کیا جاسکتا ہے، اس سے ایرانی مذاکرات کاروں کی سفارتی صلاحیت کو بڑھاوا ملا ہے اور وہ امریکی فریق کے اسٹریٹجک حسابات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس سفارتی حکمت عملی سے اگر مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں، تو ایران کے پاس مشرق اور مغرب دونوں کی صلاحیتیں موجود ہوں گی اور اگر کسی بھی وجہ سے مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں، تو مشرقی طاقتوں کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد کا عمل اور ملک کی خارجہ پالیسی کے دیگر اقدامات معطل نہیں ہوں گے۔

آرٹیکل کا اختتام رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے اس موقف سے کرتے ہیں، جو انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: "میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ گفتگو (مذاکرات)، وزارت خارجہ کے دسیوں کاموں میں سے ایک ہے۔ یعنی وزارت خارجہ دسیوں کام کر رہی ہے اور انہیں میں سے ایک یہ عمان کی گفتگو ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں، جو ابھی حال ہی میں سامنے آئے ہیں۔ کوشش کریں کہ ملک کے مسائل کو ان مذاکرات سے نہ جوڑیں۔ یہ میری تاکید ہے۔ جو غلطی جامع ایٹمی معاہدے میں کی، اس کی تکرار نہ کریں۔ اس وقت ہم نے ہر چیز مذاکرات میں پیشرفت پر منحصر کر دی تھی۔ یعنی ملک کو مشروط حالت میں پہنچا دیا۔ جب ملک مذاکرات سے مشروط ہو جائے تو سرمایہ کار، سرمایہ کاری نہیں کرتا۔ یہ بات ظاہر ہے، کہتا ہے کہ دیکھیں کہ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

یہ مذاکرات بھی جملہ امور میں سے ایک ہے۔ ایک بات ہے، ان بہت سے کاموں میں سے ایک ہے، جو وزارت خارجہ انجام دے رہی ہے۔ ملک کو مختلف شعبوں میں اپنا کام کرنا چاہیئے۔ صنعت میں، زراعت میں، مختلف اور گوناگوں خدمات کے شعبوں میں، ثقافت کے شعبے میں، تعمیراتی شعبوں میں، خاص موضوعات میں جن کی خاص تعریف کی گئی ہے، جیسے یہی جنوب مشرق کے مسائل ہیں۔ ان پر سنجیدگی سے کام کریں۔ ان مذاکرات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، جو عمان میں شروع ہوئے ہیں۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔ اسی کے ساتھ، ہمیں نہ مذاکرات کے حوالے سے نہ بہت زیادہ خوش فہمی میں رہنا چاہئے اور نہ ہی بہت زیادہ بدگمان رہنا چاہیئے۔

بہرحال یہ بھی ایک کام ہے، ایک اقدام ہے، ایک فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر عمل کیا جا رہا ہے اور ابتدائی مرحلے میں بہت اچھی طرح عمل ہوا ہے۔ اس کے بعد بھی پوری دقت نظر کے ساتھ عمل کیا جائے، ممنوعہ خطوط (ریڈ لائنیں) فریق مقابل کے لئے بھی واضح ہیں اور ہمارے لئے بھی۔ مذاکرات اچھی طرح انجام دیئے جائيں۔ ممکن ہے کہ نتیجہ خیز ہوں اور ممکن ہے کہ نتیجہ بخش نہ ہوں۔ ہم نہ بہت زیادہ خوش فہمی میں ہیں اور نہ ہی بہت زیادہ بدگمان ہیں۔ البتہ فریق مقابل سے بہت بدگمان ہیں،  فریق مقابل ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے، ہم فریق مقابل کو پہچانتے ہیں۔ لیکن اپنی توانائیوں پر ہمیں پورا اعتماد ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہم بہت سے امور انجام دے سکتے ہیں، اچھے طریقوں سے بھی واقف ہیں۔"

متعلقہ مضامین

  • نائب وزیرِ اعظم یو اے ای شیخ عبداللّٰہ بن زاید کی دفترِ خارجہ آمد، اسحاق ڈار نے استقبال کیا
  • روانڈا کے وزیر خارجہ کی دفتر خارجہ آمد، اسحاق ڈار نے استقبال کیا
  • اسلام آباد سفارتی سرگرمیوں کا مرکز، روانڈا اور یو اے ای کے وزرائے خارجہ کے دورے
  • جمہوریہ روانڈا کے وزیر برائے خارجہ امور پاکستان کا دورہ کریں گے
  • بنگلہ دیش نے 1971 کے واقعات پر معافی اور معاوضے کا مطالبہ کیا ہے، پاکستان
  • پاکستان نے بنگلہ دیش کے 1971 کے واقعات پر معافی اور معاوضے کے مطالبے کی خبروں پر رد عمل جاری کر دیا 
  • بنگلہ دیش کے معافی کے مطالبے پر پاکستانی دفتر خارجہ کا ردعمل
  • پاک بنگلہ دیش سفارتی تعلقات کی بحالی اہم پیشرفت
  • رہبر معظم انقلاب اسلامی کی سفارتی حکمت عملی
  • بنگلہ دیش سے تعلق سبوتاژ کرنے کی  بھارتی کوششیں ناکام ہونگی‘ دفتر خارجہ