احساس پروگرام کے پی کا اہم منصوبہ‘ تاخیر قبول نہیں: گنڈا پور
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
پشاور (بیورو رپورٹ) وزیراعلیٰ خیبر پی کے سردار علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت احساس پروگرام سے متعلق اجلاس میں علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ان پروگراموں پر عملدرآمد کی صورتحال کو مزید بہتر بنانے کے لئے متعلقہ محکموں کی سطح پر خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جائیں، صوبائی حکومت کے اہم فلاحی منصوبے ہیں، ان پر عملدرآمد میں تاخیر قابل قبول نہیں۔ وزیر اعلی نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ان پروگراموں کی بھر پور تشہیر کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان سے مستفید ہو سکیں۔ اضلاع کو آبادی کے تناسب سے کوٹہ دیا جائے۔ خواتین، خصوصی افراد، نوجوانوں اور خواجہ سراؤں سمیت تمام طبقات کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ احساس نوجوان پروگرام کے پہلے مرحلے پر ایک ارب روپے کی لاگت سے بنک آف خیبر کے ذریعے عمل درآمد جاری ہے۔ اجلاس میں بریفنگ کے مطابق احساس نوجوان پروگرام کا دوسرا مرحلہ دو ارب روپے کی لاگت سے اخوت کے ذریعے لانچ کیا گیا ہے، اب تک پروگرام کے لئے 20 کروڑ روپے جاری کئے گئے جو سارے تقسیم کئے جا چکے ہیں۔ احساس اپنا گھر پروگرام بنک آف خیبر کے تعاون سے لانچ کیا گیا، 14500 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
علاقے میں پائی جانے والی خاموشی کو ہرگز امن کا نام نہیں دیا جا سکتا
سرینگر اور دیگر علاقوں میں شہریوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوجیوں اور پیرا ملٹری اہلکاروں نے جبر و استبداد کی کارروائیوں کے ذریعے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول قائم کر رکھا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سرینگر اور دیگر علاقوں میں شہریوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں پائی جانے والی خاموشی کو ہرگز امن کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوجیوں اور پیرا ملٹری اہلکاروں نے جبر و استبداد کی کارروائیوں کے ذریعے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول قائم کر رکھا ہے، قابض بھارتی اہلکار طاقت کے بل پر لوگوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے اگست 2019ء میں علاقے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد کشمیریوں کے خلاف اپنی پرتشدد مہم میں تیزی لائی، میڈیا پر قدغیں عائد کیں اور صحافیوں کو سچائی سامنے لانے سے روکا۔ شہریوں نے کہا کہ علاقے میں اس وقت جو خاموشی کا ماحول نظر آ رہا ہے اور جسے بھارت امن کا نام دے رہا ہے یہ دراصل امن نہیں بلکہ خوف و دہشت ہے جو طاقت کے بل پر یہاں پھیلایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف ”یو اے پی اے“ جیسے کالے قوانین کا استعمال، این آئی اے اور ایس آئی اے جیسے بدنام زمانہ تحقیقاتی اداروں کے ذریعے ڈرانے دھمکانے کی کارروائیاں یہاں پائی جانے والی خاموشی کا اصل سبب ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی مبصرین کا بھی کہنا ہے کہ بھارت جبر و ستم کی کارروائیوں کے ذریعے مقبوضہ علاقے میں آزادی کی آوازوں کو خاموش کرانے کی کوشش کر رہا ہے اور خوف و دہشت کو امن کا نام دے رہا ہے۔ ایک سابق پروفیسر نے انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ”یہ وحشیانہ فوجی طاقت کے ذریعے قائم کی گئی خاموشی ہے، لوگ پہلے کی طرح سب کچھ محسوس کر رہے ہیں لیکن انہوں نے ڈر کے مارے اپنے جذبات کا اظہار کرنا چھوڑ دیا ہے۔“