Express News:
2025-04-22@14:41:01 GMT

جمہوریت اور موروثیت

اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایک حقیقی جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کا وجود ناگزیر ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے ووٹرز اور رائے دہندگان کو اپنے منشور، نظریات، جمہوری اقدار اور قومی سیاست میں اپنے فعال و مثبت کردار کے حوالے سے اپنا حامی بنا کر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اور جیت کر اقتدار کے ایوانوں میں آتی ہیں۔

مہذب، باوقار، اصول پسند اور جمہوریت کے علم بردار معاشروں میں سیاسی جماعتیں حکومت حاصل کرنے کے بعد نہ صرف اپنے منشور کے مطابق عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کو ترجیح دیتی ہیں بلکہ ملکی وقار، عزت اور سلامتی کے تحفظ کی خاطر آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے اپنا مثبت، تعمیری اور جمہوری کردار ادا کرتی ہیں۔ امریکی مصنف میک آئیور (Macivor) لکھتا ہے کہ ’’سیاسی جماعتوں کے بغیر اصول اور منشور کا باقاعدہ بیان ممکن نہیں۔ پالیسی کا بالترتیب ارتقا نہیں ہوگا۔ آئینی طریقے سے پارلیمانی انتخابات منعقد نہیں ہو سکیں گے۔ نہ ہی وہ تسلیم شدہ ادارے ہوں گے جن سے جماعت سیاسی اقتدار حاصل کرسکے۔‘‘

ایک سنجیدہ، متحرک اور بااصول جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتیں ایک ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی موجودگی سے نہ صرف جمہوری رویوں کو فروغ اور استحکام ملتا ہے بلکہ ملک کے سیاسی نظام کو قاعدے اور قرینے کے ساتھ باوقار انداز میں آگے بڑھانے اور جمہوری تسلسل کو قائم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عوام اپنے محبوب اور پسندیدہ سیاسی لیڈر کو اس کے سیاسی فکر و فلسفے، نظریات، منشور اور اس کے قول و فعل کے آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنے ووٹ کی طاقت سے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے ذریعے ہی قیادت کا عروج، نظریات کا تصور، نظم و ضبط، حکومت کی تشکیل، اقتدار میں عوام کی شمولیت، قائدین کا عوام سے تعلق اور حزب اقتدار و حزب اختلاف کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے۔

وطن عزیز میں چھوٹی بڑی کم و بیش 50 کے قریب سیاسی جماعتیں جو قومی سیاست میں سرگرم ہیں، ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت العلما اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ شامل ہیں۔

مذکورہ سیاسی جماعتوں میں سے دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) گزشتہ نصف صدی کے دوران ایک سے زائد مرتبہ اقتدار میں آچکی ہیں۔ آج بھی انھی دو جماعتوں کے اشتراک سے ملک میں اتحادی حکومت قائم ہے۔ اگرچہ ملک کی دونوں بڑی جماعتیں ملک میں جمہوریت کے قیام، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی دعوے دار ہیں، لیکن ان جماعتوں کے اندر جمہوریت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی بلکہ موروثیت کا غلبہ حاوی نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں یہی صورتحال ہے۔ ان جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن میں شریف اور بھٹو فیملی کے سوا کوئی دوسرا سیاسی رہنما پارٹی کے اہم ترین منصب پر مقابلے میں حصہ نہیں لیتا۔ پارٹی قیادت انھی دو خاندانوں کے نام لکھی جا چکی ہے۔

پیپلز پارٹی کے حالیہ انٹرا پارٹی انتخابات میں بلاول دوسری مرتبہ چیئرمین منتخب ہو گئے ہیں۔ آصف زرداری بدستور پارٹی کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ آج بلاول بھٹو اپنے نانا، والدہ اور والد کا مشن آگے بڑھا رہے ہیں۔ مفاہمتی سیاست کے تمام گُر انھوں نے اپنے والد سے سیکھے ہیں جس کا مظاہرہ 26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر کیا۔

بلاول بھٹو کی مساعی ہی سے مولانا فضل الرحمن 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ ہوئے۔ پی ٹی آئی سے مفاہمت و بات چیت کے لیے انھوں نے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ قومی سیاست میں بلاول بھٹو جس سنجیدگی، احتیاط و اعتدال کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں وہ ان کے سیاست میں ان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق بلاول بھٹو کی صلاحیتیں اور عوام میں ان مقبولیت انھیں وزیر اعظم کے منصب جلیلہ تک لے جائے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ملک سے موروثی سیاست کا خاتمہ ممکن ہے؟ کیا اکابرین سیاست اپنی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت نافذ کریں گے؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی جماعتیں سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی جماعتوں کے بلاول بھٹو میں سیاسی سیاست میں

پڑھیں:

پانی کے مسئلے پر ہمیں سیاست نہیں کرنی چاہیے: احسن اقبال

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال—فائل فوٹو

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پانی کے مسئلے پر ہمیں سیاست نہیں کرنی چاہیے۔

نارووال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک صوبہ دوسرے صوبے کے پانی کا ایک قطرہ بھی سلب نہیں کر سکتا، صوبائی منافرت پیدا کرنے کے بجائے اس معاملے کو انجنیئرز کے حوالے کریں۔

احسن اقبال کا کہنا ہے کہ جذبات بھڑکانے کی سیاست کی تو واٹر سیکیورٹی معاملے پر مشکلات ہوں گی، اس پر نقصان سب کا ہو گا ایک صوبہ نہیں ہارے گا، تمام صوبے نقصان اٹھائیں گے۔

کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جاسکتا: رانا ثناء اللّٰہ

وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیر برائے بین الصوبائی رابطہ رانا ثناء اللّٰہ نے کہا ہے کہ کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جا سکتا، اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ملک میں آئینی طریقہ کار اور قوانین موجود ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اس سال بھی بارشیں 40 فیصد کم ہوئی ہیں، آنے والے سالوں میں سیلاب اور بدترین خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے ملک کو اس وقت فوڈ اور واٹر سیکیورٹی کے 2 بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • لیگی وزرا بیان بازی کر رہے ہیں، نواز اور شہباز اپنے لوگوں کو سمجھائیں، شرجیل میمن
  • اپوزیشن اور قوم پرست جماعتیں عوام میں اضطراب نہ پھیلائیں‘چولستان کینال منصوبے پر کاپچھلے سال سے رکا ہوا ہے.مرادعلی شاہ
  • مسلم لیگ ن کے وزرا بیان بازی کر رہے ہیں، شہباز شریف، نواز شریف اپنے لوگوں کو سمجھائیں، شرجیل میمن
  • فلسطین سے اظہار یکجہتی کے نام پر انٹرنیشنل فوڈ چین پر حملے غلط ہیں: سیاسی جماعتوں میں اتفاق
  • JUI، PTIمیں دوریاں، اپوزیشن اتحادخارج ازامکان
  • سیاسی جماعتوں کو پرامن احتجاج کا آئینی حق حاصل ہے تاہم عوام کا خیال رکھا جائے، شرجیل میمن
  • علیمہ خان کو سیاست میں گھسیٹنا ناجائز ہے، عمر ایوب
  • امن خراب کر کے پہاڑوں پر قابض ہونے کا جواز ڈھونڈنے کی سازش ہو رہی ہے، کاظم میثم
  • پانی کے مسئلے پر ہمیں سیاست نہیں کرنی چاہیے: احسن اقبال
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟