بڑھتے حادثات پر حکومتی بے حسی
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
رواں سال کے 100 دنوں میں کراچی میں ٹریفک حادثات میں جتنا جانی نقصان ہوا ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی مگر حکومت سندھ اورکراچی کی انتظامیہ نے بڑھتے ٹریفک حادثات کے سدباب پر توجہ دی نہ ہی ان میں ہونے والی ہلاکتوں کو سنجیدہ لیا بلکہ ٹریفک حادثات پر ہونے والے احتجاج کو بھی سیاسی رنگ دیا اور ذمے داروں کو گرفتار کرنے کے بجائے ایک رہنما کو گرفتار کر لیا۔ سو روز تک ہیوی ٹرانسپورٹ کی زد میں آ کر درجنوں ہلاکتوں کے بعد سندھ حکومت نے توجہ دی اور کراچی میں ہیوی ٹریفک کے لیے رفتار کی حد تیس کلومیٹر فی گھنٹہ مقرر کر کے سمجھ لیا کہ ہیوی ٹریفک والے مقررہ رفتار پر عمل کریں گے اور مزید جانی نقصان نہیں ہوگا۔
رفتارکی حد مقررکرنے کے گزشتہ روز ہی روزنامہ ایکسپریس کے مطابق لانڈھی، کورنگی میں ٹریلر نے دو موٹرسائیکل سواروں کو کچل دیا اور نارتھ کراچی میں ڈمپرکی ٹکر سے شہری کے زخمی ہونے کی اطلاع پر صورت حال کشیدہ ہوگئی اور مشتعل افراد نے پانچ ڈمپروں کو آگ لگا دی جن کی آگ بجھانے کے لیے آنے والی فائربریگیڈ کو بھی روکا اور ان پر پتھراؤ کیا گیا۔ ہوائی فائرنگ بھی ہوئی اور پولیس بھی ناکام نظر آئی۔ جس روز رفتار کی پابندی لگی، اسی روز ایک بھکاری بچہ اور گزشتہ روز ایک سابق رینجرز اہلکار بھی ہیوی ٹریفک کی تیز رفتاری کے باعث اپنی جان سے گئے۔
حد رفتار مقررکرنے اور ٹریفک حادثات روکنے کی تجاویز بھی حکومت سندھ کو کراچی ٹریفک پولیس نے ہی دی تھیں کیونکہ سندھ حکومت کو تو اس سلسلے میں کوئی خیال آیا ہی نہیں تھا جس کے بعد ٹریفک پولیس نے پہلی کارروائی کی اور حد رفتار پر عمل نہ کرنے پر درجنوں بڑی گاڑیاں بند کیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سندھ حکومت کراچی میں روزانہ ڈکیتی مزاحمت میں ہلاکتوں اور ہیوی ٹریفک سے بڑھتے حادثات روکنے پر توجہ دے کر بے گناہوں کی یہ ہلاکتیں بھی روکتی مگر ڈکیتی مزاحمت پر روزانہ ہونے والی ہلاکتوں کی طرح ہیوی ٹریفک سے ہلاکتوں کو بھی معمول سمجھا گیا اور سندھ حکومت نے ان دو معاملات میں ہلاکتوں پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اس کو سیاسی و لسانی بنانے کی کوشش کی۔
سندھ کی حکومت نے ڈکیتی مزاحمت پر ہلاکتوں کی طرح ڈمپر، ٹریلر اور واٹر ٹینکروں کی زد میں آ کر ہلاک ہونے والوں کو انسان ہی نہیں سمجھا اورکراچی سے تعلق رکھنے والے ایک سرکاری عہدیدار کے سوا کسی اور پی پی رہنما یا سرکاری عہدیدار کو تعزیت کی بھی توفیق ہوئی نہ کوئی سرکاری بیان جاری ہوا۔
کراچی کے ایک سیاسی رہنما کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ حکومت کراچی میں مرنے والوں کو جو روزانہ ڈکیتی مزاحمت یا ٹریفک حادثوں میں ہلاک ہوئیاہمیت ہی نہیں دیتی بلکہ ان پر نشہ کرکے مرنے والوں کو ترجیح دیتی ہے اور انھیں معاوضہ بھی دیتی ہے۔ ہیوی ٹریفک کی زد میں ہلاکتیں کوئی ایک زبان بولنے والوں کی نہیں بلکہ کراچی میں رہنے والوں کی ہے جن کی حفاظت حکومت کی ذمے داری ہے۔ آل ڈمپر ٹرک ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن نے تسلیم کیا ہے کہ کراچی میں حال ہی میں ٹریفک حادثات میں ڈھائی سو جو ہلاکتیں ہوئی ہیں ان میں صرف 17 افراد ڈمپروں کی زد میں آ کر ہلاک ہوئے ہیں جب کہ یہ تعداد حقائق کے برعکس ہے۔ ایسوسی ایشن نے اپنے ڈرائیوروں کو تیز رفتاری سے منع نہیں کیا بلکہ ٹریفک حادثات پر احتجاج کرنے والوں کے جواب میں خود بھی احتجاج اور ملک بھر کی سڑکیں بند کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
کراچی میں حادثات کے سدباب کے لیے ٹریفک پولیس نے جو ایکشن لیا اس کے نتیجے میں زیادہ نشانہ بھی موٹرسائیکل سوار بنے اور پہلے روز 382 موٹرسائیکلیں تحویل میں لی گئیں اور صرف36 ایچ ٹی وی اور ایل ٹی وی گاڑیاں پکڑی گئیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی میں ٹریفک حادثات کی خلاف ورزی میں موٹرسائیکل سوار بھی کم نہیں اور حادثات کا زیادہ نشانہ بھی موٹرسائیکل سوار بن رہے ہیں جو تیز رفتاری، ون وے کی خلاف ورزی میں نہ صرف پیش پیش ہیں بلکہ غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرکے اپنی جانیں گنوا رہے ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد موٹرسائیکل سواروں کی ہے۔ سندھ حکومت نے سندھ بھر میں ٹریفک قوانین پر عمل کرانے کی ہدایات جاری کی ہیں جو ایک اچھا فیصلہ ہے مگر اس پر ایمانداری اور غیر جانبداری سے عمل بھی ہونا چاہیے محض بیانات دینے سے حادثات کو نہیں روکا جا سکتا۔
کراچی میں جو ٹریفک حادثات ہورہے ہیں ان میں اندوہناک حادثات ٹرالروں، ڈمپروں اور ٹینکروں کی زد میں آنے والوں کے ہیں جن کے جسم کے پرخچے اڑ جاتے ہیں اور ایک سیاسی رہنما کے بقول ان کی لاشیں سڑکوں سے کھرچ کر اٹھانا پڑتی ہیں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا مگر یہ ہو بھی رہا ہے جو انسانیت سوز ہے۔
ہیوی ٹرانسپورٹ کے جو اوقات مقرر ہیں ان پر سختی کے ساتھ عمل بھی ہونا چاہیے اور رفتار کی حد سے زیادہ تیز رفتاری روکنے پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے جس کی ذمے دار ٹریفک پولیس اور ایک طاقتور مافیا ہے جو قوانین پر عمل نہیں ہونے دے رہی۔ اس سلسلے میں متعلقہ ٹرانسپورٹ نے خود انھیں بھتہ دینے کا اعتراف کیا ہے۔ ٹریفک قوانین پر عمل کی ذمے داری ٹریفک پولیس کے ساتھ خصوصاً تیز رفتاری کے ذمے داروں اور جلدباز موٹرسائیکل سواروں پر بھی عائد ہوتی ہے جو ازحد ضروری ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈکیتی مزاحمت ٹریفک حادثات ٹریفک پولیس سندھ حکومت ہیوی ٹریفک تیز رفتاری کراچی میں میں ٹریفک کی زد میں میں ہلاک حکومت نے
پڑھیں:
وسائل کے تحفظ کیلئے آغا راحت کا بیان حقیقت پر مبنی ہے، عارف قنبری
ایم ڈبلیو ایم گلگت کے صدر نے ایک بیان میں کہا کہ سہولت کار حکومت کے کمیشن خور مشیر کی آغا راحت کے خلاف بیان بازی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے حکومتی کرپشن سے توجہ ہٹانے اور فرقہ واریت پھیلانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان کی معدنیات، جنگلات، زمینیں و دیگر وسائل کے تحفظ کے حوالے سے قائد ملت جعفریہ سید راحت حسین الحسینی کا بیان حقیقت پر مبنی ہے۔ آغا راحت نے گلگت بلتستان کے 20 لاکھ عوام کی ترجمانی کی ہے۔ ان خیالات کا اظہار عارف حسین قنبری صدر ایم ڈبلیو ایم گلگت نے اپنے ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سہولت کار حکومت کے کمیشن خور مشیر کی آغا راحت کے خلاف بیان بازی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے حکومتی کرپشن سے توجہ ہٹانے اور فرقہ واریت پھیلانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔