Express News:
2025-04-22@07:41:52 GMT

دل کے امراض میں تشویشناک اضافہ

اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT

پاکستان بھرمیں دل کی بیماریوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں ہرسال تقریباً 2 لاکھ افراد دل کے امراض کے باعث دنیاچھوڑجاتے ہیں، بزرگوں اورنوجوانوںکے بعد بچے بھی دل کی بیماریوں میں تیزی سے مبتلا ہو رہے ہیں۔

دنیا میں سب سے زیادہ اموات دل کی بیماریوں کے باعث ہو رہی ہیں جس کی بنیادی وجوہات میں غیر متوازن غذا، ورزش سے اجتناب، پان،گٹکے وغیرہ کا استعمال اورتمباکو نوشی وغیرہ شامل ہیں۔ دل کے دورے اوردل کی بیماریاں جوکسی زمانے میں بڑی عمر کے افرادکو لاحق ہوتی تھیں، اب یہ30 اور 40 سال کی عمر کے افراد میں خطرناک حد تک عام ہوچکی ہیں۔

ایک حالیہ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں غیرمتعدی امراض میں اضافہ ہواہے، جن میں دل کے امراض سرِفہرست ہیں۔ اسی طرح کم عمر افراد میں دل کے امراض میں اضافے کی بڑی وجہ احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہی کافقدان ہے۔ ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور موٹاپا جیسے امراض جوکبھی بڑی عمر کے افراد میں نظر آتے تھے، اب نوجوانوں میں عام ہیں۔

اس تناظرمیں اگرخیبر پختون خواکی بات کی جائے تویہاں دل کے امراض کے حوالے سے صورت حال دیگرصوبوں کے مقابلے میں ابتر دکھائی دے رہی ہے جس کا واضح ثبوت صوبے کا واحد امراض قلب کا سرکاری ہستپال، پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہے، جس میں مریضوں اورسرجریوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

صرف ایک سال میں ادارے میں دل کے مریضوں کی تعداد میں 50 فی صد اضافہ ریکارڈ کیاگیا ہے،سرکاری اعداد وشمارکے مطابق 2024 میں پی آئی سی میں ایک لاکھ سے زائد دل کے مریضوں کاعلاج معالجہ کیاگیا، 2023 میں یہ تعداد 61 ہزارتک تھی، بچوں کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ دیکھاگیا جو 2023 میں 9 ہزارتھی جب کہ 2024 میں یہ بڑھ کر 14ہزار سے تجاوز کرگئی۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق دل کی سرجریوں میں بھی نمایاں اضافہ ریکارڈکیاگیا۔ 2023 میں 1326 سرجریاں کی گئیں جب کہ 2024 میں یہ تعداد بڑھ کر1900ہو گئی، ان میں 236 بچوں کے دل کی سرجریاں بھی شامل ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ہسپتال اب پیچیدہ اورخطرناک نوعیت کے آپریشنز انجام دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

انٹروینشنل کارڈیالوجی میں بھی یہی رجحان دیکھاگیا، اینجیوگرافی اوراینجیو پلاسٹی کے کیسز2023 میں 11ہزارسے بڑھ کر 2024 میں15ہزار143 ہو گئے، ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں آنے والے مریضوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھی، 2023 میں 13ہزارمریض آئے تھے جب کہ 2024 میں یہ تعداد 18ہزارسے تجاوزکرگئی جودل کے شدید امراض کے کیسز میں اضافہ ظاہرکرتی ہے۔

پی آئی سی نے بچوں کے انٹروینشنل پروسیجرزکی تعداد بھی دوگنی کردی، جو 2023 میں 450 تھی اور2024 میں بڑھ کر811 ہو گئی۔ دوسری جانب ہسپتال، صحت کارڈ پلس پروگرام بھی علاج تک رسائی بڑھانے میں اہم کردار اداکر رہا ہے۔ 2023 میں 15ہزار 600 مریضوں کو مفت علاج فراہم کیاگیا جب کہ 2024 میں یہ تعداد بڑھ کر19ہزار 701 ہو گئی، جو نہ صرف اس پروگرام کی وسعت بلکہ کم آمدنی والے طبقے میں دل کی بیماریوں کے بڑھتے بوجھ کا ثبوت بھی ہے۔

اس حوالے سے پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے چیف ایگزیکٹو پروفیسر ڈاکٹر شاہکار احمد شاہ نے بتایا کہ پی آئی سی نے صرف مریضوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا بلکہ تکنیکی طور پر بھی خود کو اپ ڈیٹ کیا ہے۔ 2024 میں ادارے نے متعدد نئی جدید سہولیات متعارف کرائیں،جن میں کم سے کم کٹائی والی والو تبدیلیاں، بائی پاس سرجریز اورمٹراکلپ پروسیجرز شامل ہیں۔ 2023 میں ادارہ خیبر پختونخوا میں پہلا (Transcatheter Aortic Valve Implantation) کرنے والا ہسپتال بنا ،انہوں نے مزیدکہاکہ ادارے کوقومی وبین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کیا جا رہا ہے۔

یہ پاکستان کاپہلاآئی ایس او سرٹیفائیڈ سرکاری ہسپتال ہے اورخیبر پختون خوا کا واحد کیٹیگری اے ہسپتال بھی ہے۔ اب اسے سول سرونٹس کی تربیت کے نصاب میں بھی شامل کر لیاگیا ہے، کئی بین الاقوامی فیلو بھی پی آئی سی میں جدیدکورونری انٹروینشنزکی تربیت کے لیے آچکے ہیں۔ مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے پروفیسر شاہ کاراحمد نے کہا کہ پی آئی سی خیبر پختون خوا میں سیٹلائٹ سینٹرزکھولنے کے لیے تیار ہے تاکہ اعلیٰ معیارکی دل کی نگہداشت پس ماندہ اضلاع تک بھی پہنچائی جاسکے اور ادارہ پورے خطے میں دل کے علاج کا مرکز بن سکے۔

انہوں نے کہا کہ بچوں میں پیدائشی دل کی بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے جب کہ عام لوگوں میں شوگر ، بلڈپریشر، ذہنی دباؤاوردیگر بیماریوں کے باعث دل کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ لوگوں کا لائف سٹائل اورخوراک بھی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ اب لوگ ورزش اورپیدل چلنے سے اجتناب کرتے ہیں جس کے باعث بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹرشاہکاراحمد شاہ نے کہاکہ دل کی بیماریوں کواجتماعی طورپرقلبی امراض (CVD) کہاجاتا ہے،جن کی کچھ عام اقسام یہ ہیں:

کورونری آرٹری ڈیزیز: یہ دل کی ان شریانوں میں مادے جمنے سے ہوتی ہے جودل کوخون فراہم کرتی ہیں اورسینے میں درد (انجائنا) ، سانس لینے میں دشواری اوردل کے دورے کاسبب بنتی ہے۔

دل کا دورہ (مایوکارڈیل انفیکشن): جو اس وقت ہوتا ہے جب دل کے پٹھوں کے حصے کو ضرورت کے مطابق خون نہیں ملتا۔

ہارٹ فیلیئر: دل کی ناکامی کے نام سے بھی جاناجاتا ہے، یہ اس وقت ہوتاہے جب دل جسم کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی خون پمپ نہیں کرسکتا۔

اریتھیما: جس کے نتیجے میں ہونے والی علامات میں دھڑکن تیزہونا، چکرآنا، سانس لینے میں دشواری، سینے میں درد اور بے ہوشی شامل ہوتی ہے۔

کارڈیومایوپیتھی:جو دل کے لیے جسم کے باقی حصوں میں خون پمپ کرنے میں دشواری کا باعث بنتی ہے اوردل کی ناکامی کا باعث بن سکتی ہے۔

دل کے والوزکا عارضہ: یہ ایک یا ایک سے زیادہ دل کے والوزکو پہنچنے والا نقصان ہے جودل کے ذریعے خون کے بہاو میں خلل ڈال سکتا ہے۔

دل کے پیدائشی نقائص: یہ دل کے ساختی مسائل ہیں جن کے ساتھ ایک شخص پیدا ہوتا ہے اور ان میں سادہ نقائص سے لے کر شدید جان لیواعلامات کے ساتھ پیچیدہ مسائل تک شامل ہیں۔

شہہ رگ کی بیماری: ایسی حالتیں جوشہ رگ کومتاثرکرتی ہیں، شہہ رگ ایک بڑی شریان ہوتی ہے جوخون کودل سے باقی جسم تک لے جاتی ہے۔

پیریفرل آرٹری ڈیزیز: یہ ایسی حالت ہے جس میں خون کی نالیاں تنگ ہو جاتی ہیں اوراعضا تک خون کا بہاؤ کم ہو جاتا ہے، اسکے نتیجے میں چلتے وقت ٹانگوں میں درد، سْن ہونا، ٹانگوں کی کم زوری یا ٹانگ کے نچلے حصے یا پاؤں میں سردی لگنا شامل ہے۔

دل کی اس قسم کی بیماریوں، ان کی علامات اورصحت پر ان کے اثرات کوسمجھنے سے عارضہ قلب کا جلد پتہ لگانے، اس کی روک تھام یا علاج میں مدد مل سکتی ہے۔ ڈاکٹر شاہ کار احمد نے کہا کہ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ دل کی بیماریوں سے کیسے بچاجاسکتا ہے؟دیکھیں ہماری طرزِزندگی کے بہت سے ایسے عوامل ہیں جودل کی بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ غیرصحت بخش خوراک اورکم جسمانی سرگرمیاں بھی دل کی بیماری کا اسی طرح سبب بن سکتی ہیں جیسے سگریٹ نوشی، شراب نوشی، نفسیاتی تناؤ اور موٹاپا وغیرہ۔ اس لیے ہرکھانے میں ایک پھل اورسبزی شامل کرنا ضروری ہے، دن میں 30 منٹ کی چہل قدمی تناؤکی سطح کوکم کرنے اوردل کی بیماری اوردوسرے عارضوں کوروکنے میں مددکرتی ہے۔

اس کے علاوہ قلبی امراض کے علاج میں سائنسی اورتکنیکی ترقی کے باوجود اس کی روک تھام اب بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اگرچہ اس بیماری کی علامات درمیانی عمرمیں ظاہر ہوسکتی ہیں لیکن یہ بیماری خود ایک دہائی قبل وجود میں آنا شروع ہو جاتی ہے،اس لیے ہمارے پاس اس سے جلد بچاؤ کے لیے کافی وقت ہے،جس کے لیے غیرمتوازن خوراک کوکبھی نہیں بھولناچاہیے جو وزن میں اضافے اور ذیابیطس کا باعث بن سکتی ہے۔

یہ دل کی بیماری کے خطرے کو بڑھانے میں اہم کرداراداکرتی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ دل کے لیے صحت مند طرز زندگی کواپنایا جائے، جس میں متوازن خوراک برقراررکھنا اور باقاعدہ جسمانی سرگرمیاں شامل ہیں۔ باقاعدگی سے طبی معائنہ کروائیں اورہائی بلڈ پریشر،ذیابیطس اور کولیسٹرول کی باقاعدگی سے جانچ کریں تاکہ بات بگڑنے سے پہلے سنبھالی جاسکے۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جب کہ 2024 میں یہ دل کی بیماریوں بیماریوں میں دل کی بیماری میں یہ تعداد کی تعداد میں دل کے امراض کا باعث بن پی ا ئی سی میں اضافہ میں دل کے اضافہ ہو امراض کے شامل ہیں میں بھی کے باعث بڑھ کر کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

دنیا کا خطرناک ترین قاتل گانا، جس کو سن کر مرنے والوں کی تعداد تقریباً 100 رپورٹ ہوئی

HUNGARY:

گانا فلمی صنعت کا اہم جز ہے اور گانا صرف پیار محبت کے اظہار کے لیے نہیں ہوتا بلکہ خوشی اور یادگار لمحات اور خوش گوار یادوں کو مزید پررونق بنانے میں بھی مددگار ہوتے ہیں لیکن ایک گانا تاریخ میں ایسا بھی ہے، جس کو سن کر تقریباً 100 جانیں چلی گئیں اور حکام کو اس کے خلاف اقدامات بھی کرنے پڑے۔

مشہور بھارتی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ہنگری سے تعلق رکھنے والے ایک موسیقار ریزوس سریس نے 1933 میں ایک گانا لکھا جس کو ‘گلومی سنڈے’ کا نام دیا، انہوں نے یہ گانا اپنی گرل فرینڈ کے لیے لکھا تھا جو انہیں چھوڑ گئی تھیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس گانے کی شاعری انتہائی غمزدہ تھی اور جو کوئی بھی اس کو سنتا وہ خودکشی پر آمادہ ہوجاتا اسی لیے اس گانے کو ‘ہنگرین سوسائیڈ سانگ’ کہا گیا۔

ابتدائی طور پر کئی گلوکاروں نے اس کو گانے سے انکار کیا تاہم 1935 میں گانا ریکارڈ اور ریلیز کردیا گیا، جیسے ہی گانا ریلیز ہوا بڑی تعداد میں لوگ مرنے لگے اور ایک رپورٹ کے مطابق ہنگری میں یہ گانا سننے کے بعد خودکشیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا اور کئی کیسز میں یہ دیکھا گیا کہ خودکشی کرنے والے کی لاش کے ساتھ ہی یہ گانا چل رہا تھا۔

رپورٹس کے مطابق شروع میں اس گانے کو سن کو مرنے والوں کی تعداد 17 بتائی گئی لیکن بعد میں یہ تعداد 100 کے قریب پہنچ گئی، صورت حال اس حد تک خراب ہوگئی کہ 1941 میں حکومت کو اس گانے پر پابندی عائد کرنا پڑی۔

ہنگری کے قاتل گانے پر عائد پابندی 62 سال بعد 2003 میں ختم کردی گئی تاہم اس کے بعد بھی کئی جانیں چلی گئیں اور حیران کن طور پر گانے کے خالق ریزسو سریس نے بھی اسی دن کو اپنی زندگی کے خاتمے کے لیے چنا، جو گانے میں بتایا گیا تھا، ‘سن ڈے’۔

رپورٹ کے مطابق اپنی گرل فرینڈ کے نام پر گانا لکھنے والے سریس نے پہلے اپنی عمارت کی کھڑکی سے کود کر خودکشی کی تاہم انہیں اسپتال منتقل کیا گیا لیکن بعد میں انہوں نے ایک وائر کے ذریعے پھندا لگا  کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔

اس قدر جانیں لینے کے باوجود اس گانے کو 28 مختلف زبانوں میں 100 گلوکاروں نے گایا۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے نئے حملے ، گھر دھماکوں سے تباہ ، ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ
  • جامشورو حادثہ، جاں بحق افراد کی تعداد 16ہوگئی، 25 سے زائد زخمی
  • جامشورو حادثہ، جاں بحق افراد کی تعداد 12 ہوگئی، 30 زخمی
  • کراچی میں شدید گرمی کے باعث اسپتالوں میں ہیٹ اسٹروک وارڈز قائم
  • کینال ویو کوآپریٹو سوسائٹی  کا اجلاس ،ایجنڈا منظور
  • کراچی میں گرمی کا راج، جلدی امراض تیزی سے پھیلنے لگے
  • کراچی: گرمی کی شدت میں اضافے سے جلدی امراض تیزی سے پھیلنے لگے، اسپتالوں میں رش
  • صحت کارڈ میں تین بڑی بیماریوں کا علاج شامل کرنے کا فیصلہ
  • کے پی حکومت کا صحت کارڈ میں تین بڑی بیماریوں کا علاج شامل کرنے کا فیصلہ
  • دنیا کا خطرناک ترین قاتل گانا، جس کو سن کر مرنے والوں کی تعداد تقریباً 100 رپورٹ ہوئی