Express News:
2025-04-21@23:22:49 GMT

پاک-افغان مشترکہ کمیٹی کا طویل عرصے بعد کابل میں اجلاس

اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT

KABUL:

افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق نے کہا ہے کہ مشترکہ رابطہ کمیٹی کا اجلاس طویل عرصے بعد کابل میں منعقد ہوا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں سفیر محمد صادق نے کہا کہ 15 ماہ کے وقفے کے بعد مشترکہ رابطہ کمیٹی (جے سی سی) کا اجلاس کابل میں منعقد ہوا، جو حساس اور اسٹریٹجک مسائل کے تدارک کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے میکنزم کے ذریعے مستقل اور سودمند ملاقاتیں کشیدگی کم کرنے، خدشات دور کرنے اور دوطرفہ تعلقات میں باہمی اعتماد کو مضبوط بنانے کے لیے اہم ہیں۔

محمد صادق نے کہا کہ جے سی سی اجلاس کے لیے جانے والے پاکستانی وفد نے افغانستان کے وزیرخارجہ امیر خان متقی سے کابل میں تعمیری اور بامعنی ملاقات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ دوطرفہ اور علاقائی مسائل پر وسیع گفتگو کی گئی، جو ہمارے مضبوط تعاون اور ترقی کے لیے عزم کا مظہر ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کابل میں کے لیے نے کہا

پڑھیں:

پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ

پاکستان اور افغانستان، دو ہمسائے جنہیں فطرت نے جوڑا، مگر تاریخ اور سیاست نے اکثر جدا رکھا۔ یہ محض دو ممالک نہیں، بلکہ دو تہذیبوں، دو قوموں، دو مشترکہ دکھوں کی داستان ہے۔ ایک وہ، جو کبھی دروازہ کھول کر مہمان نوازی کرتا رہا؛ دوسرا وہ، جو ہر بار بدلتے نظام میں خود کو محفوظ رکھنے کے لیے دوسروں پر شک کرتا رہا۔ مگر اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ان تعلقات کو نئی آنکھ سے دیکھیں،ایک ایسی نگاہ جو صرف ماضی کی گرد نہ دیکھے، بلکہ مستقبل کی روشنی تلاش کرے۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان جب ایک آزاد ریاست کے طور پر ابھرا، تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں اس کی رکنیت کی مخالفت کی۔ مخالفت کی بنیاد ڈیورنڈ لائن تھی، وہ تاریخی لکیر جو 1893 میں برطانوی ہند اور افغان امارت کے درمیان کھینچی گئی، اور جو آج بھی پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر ایک سیاسی ارتعاش بن کر موجود ہے۔ پاکستان اسے بین الاقوامی قانون کی روشنی میں تسلیم شدہ سرحد سمجھتا ہے، جبکہ افغانستان کی بیشتر حکومتیں، اور اب طالبان قیادت بھی، اسے ایک استعماری زخم تصور کرتی ہیں۔

پاکستانی مؤقف واضح اور قانونی بنیاد پر قائم ہے۔ اقوام متحدہ سمیت بیشتر عالمی ادارے ڈیورنڈ لائن کو ایک جائز سرحد مانتے ہیں۔ مگر افغانستان کی پشتون قوم پرستانہ سوچ، اور ‘پشتونستان’ کے خواب نے ان تعلقات میں بداعتمادی کا وہ بیج بویا، جو نصف صدی بعد بھی لہلہا رہا ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قوم پرست تحریکوں کی پشت پناہی، سردار داؤد خان کی حکومت کے دوران بلوچ مزاحمت کاروں کو تربیت دینے جیسے اقدامات، کابل کی مداخلت پسندی کی روشن مثالیں ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور افغانستان کا کابل ملاقات میں ہونے والے فیصلوں پر جلد عملدرآمد پر اتفاق

1979 سے 1989 تک سوویت یلغار کے خلاف جنگ میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا، وہ محض اسٹریٹجک ڈیپتھ کا مظہر نہیں بلکہ ایک قومی قربانی کا باب ہے۔ تین ملین سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دینا، ہزاروں مدارس میں تعلیم وقیام، یہ وہ بوجھ ہے جس کی قیمت آج بھی پاکستان چکا رہا ہے۔ 2001 کے بعد، جب طالبان کو اقتدار سے ہٹا کر کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں لائی گئیں، تو توقع تھی کہ کابل پاکستان کا شکر گزار ہو گا۔ مگر اس کے برعکس، وہی کابل اسلام آباد کو خطے میں خرابی کی جڑ سمجھنے لگا۔

پاکستان پر الزام لگایا گیا کہ وہ طالبان کی پناہ گاہ ہے، افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ پاکستان کو قرار دیا گیا، جبکہ بھارت کی موجودگی اور افغانستان کی داخلی بدانتظامی کو نظرانداز کیا گیا۔ پاکستان نہ صرف دہشتگردی کے خلاف جنگ کا ہراول دستہ رہا، بلکہ 80 ہزار سے زائد قربانیاں دے کر، 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان سہہ کر، خود دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار بنا۔ یہ وہ حقائق ہیں جن پر عالمی برادری اکثر خاموش رہی، اور افغانستان نے مسلسل الزام تراشی کی روش اپنائی۔

2021 میں طالبان کی واپسی ایک موقع تھا کہ پاکستان اور افغانستان تعلقات میں نئی جہت پیدا کریں۔ مگر افسوس، طالبان نے ڈیورنڈ لائن کو سرحد ماننے سے انکار کیا، اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے ساتھ اپنی قربت کو کم کرنے سے گریز کیا۔ 2022 کے بعد پاکستان میں دہشتگردانہ حملوں میں جو اضافہ ہوا، اُس کے واضح سراغ افغان سرزمین کی طرف جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغان مہاجرین کی باعزت واپسی، اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے، پاکستان افغانستان کا اتفاق

افغان مہاجرین کے حوالے سے پاکستان پر جو الزامات لگائے جاتے ہیں، ان کا بھی ایک تناظر ہے۔ پاکستان اس وقت بھی 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کا میزبان ہے، جن میں لاکھوں بغیر کاغذات کے مقیم ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں نے بارہا یہ نشاندہی کی ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر گروہ انہی مہاجر کیمپوں میں پناہ لیتے ہیں۔ اس پس منظر میں اگر پاکستان ایک واضح پالیسی کے تحت مہاجرین کی واپسی کا عمل شروع کرتا ہے، تو اسے سیاسی انتقام قرار دینا انصاف نہیں۔

تجارتی سطح پر بھی دونوں ممالک کے درمیان متعدد پیچیدہ مسائل موجود ہیں۔ 2010 میں طے پانے والا افغانستان-پاکستان راہداری تجارت معاہدہ (APTTA) بظاہر دوطرفہ اقتصادی تعاون کا ایک اہم سنگِ میل تھا، جس کے تحت افغان تاجروں کو کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کے ذریعے اپنی اشیاء عالمی منڈیوں تک پہنچانے کی سہولت دی گئی۔ تاہم، اس جیسے معاہدوں کی بارہا خلاف ورزی، واہگہ کے راستے بھارت تک رسائی کا تنازع، اور سرحدی چوکیوں پر کرپشن اور بدسلوکی کے الزامات ،یہ تمام ایسے امور ہیں جنہیں افغان فریق اپنی جائز شکایات کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت سے افغان تجارت کو بعض اوقات ایک اسٹریٹیجک دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جو پاکستان کے قومی سلامتی واقتصادی مفادات سے متصادم ہو سکتا ہے۔

پانی کا تنازع ایک خاموش مگر شدید حساس معاملہ ہے۔ کابل دریا پاکستان کے لیے آبی زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ افغانستان کی جانب سے ڈیم سازی اور پانی کے بہاؤ کو محدود کرنے کی کوششوں کو اگر بروقت نہ روکا گیا، تو یہ تنازع آئندہ دہائیوں میں ایک نیا سنگین بحران بن سکتا ہے۔ پاکستان دہائیوں سے اس موضوع پر مذاکرات کی اپیل کر رہا ہے، مگر کابل کی جانب سے سنجیدگی کی کمی رہی ہے۔

مزید پڑھیں: اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر افغانستان سے بات چیت سود مند نہیں ہوگی، بیرسٹر سیف

اس سب کے باوجود، امید کی کچھ کرنیں باقی ہیں۔ 2024 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں 84 فیصد اضافہ ہوا۔ اگر یہی رجحان برقرار رہا، تو یہ معاشی تعاون دوطرفہ اعتماد سازی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ دونوں فریقوں نے سرحدی روابط کو بہتر بنانے، اور مشترکہ تجارتی انتظامات پر بات چیت کا عندیہ دیا ہے۔

حل کیا ہے؟

پہلا قدم: ایک مستقل، فعال، اور بااختیار پاک-افغان رابطہ کمیٹی کا قیام، جو صرف بحران کے وقت نہیں بلکہ مسلسل رابطے میں رہے۔

دوسرا قدم: عوامی سطح پر ثقافتی اور علمی تبادلے، جن میں نوجوان، اساتذہ، اور علما شامل ہوں۔

تیسرا قدم: دہشت گردی کے خلاف مشترکہ انٹیلیجنس اور آپریشنل تعاون، جس میں طالبان کو بھی اپنے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔

چوتھا قدم: افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے لیے ایک بین الاقوامی فریم ورک۔

پانچواں قدم: کابل دریا پر ایک باقاعدہ آبی معاہدہ، جس میں دونوں فریق کی ضروریات اور خدشات شامل ہوں۔

مزید پڑھیں:  اسحاق ڈار کا پہلا دورہ افغانستان، اہم کیا ہے؟

پاکستان اور افغانستان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ہمسائے ہی نہیں، بلکہ جغرافیائی تقدیر کا حصہ ہیں۔ دشمنی یا بداعتمادی کا تسلسل نہ صرف دونوں قوموں کو نقصان پہنچائے گا، بلکہ پورے خطے میں ترقی اور امن کی راہ روک دے گا۔ پاکستان کی ریاست، افواج اور عوام نے بارہا ثابت کیا ہے کہ ہم امن کے خواہاں ہیں لیکن اس امن کی قیمت قومی سلامتی پر سودے بازی نہیں ہو سکتی۔

اب فیصلہ کابل کو کرنا ہے، وہ پاکستان کے ساتھ ایک باعزت تعلق چاہتا ہے یا مسلسل بداعتمادی کا اسیر رہنا چاہتا ہے۔ تاریخ نے ہر اُس قوم کو یاد رکھا ہے جس نے تعلقات کو عزت، وقار اور حقیقت پسندی کی بنیاد پر استوار کیا۔ اب وقت ہے کہ افغانستان بھی یہی انتخاب کرے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلام اباد افغانستان بھارت پاکستان ٹی ٹی پی ڈیورنڈ لائین طالبان کابل

متعلقہ مضامین

  • محمد یونس کا ڈھاکہ اور بیجنگ کے مابین دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ
  • پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
  • ڈار کا دورہ کابل، سیکیورٹی بنیادوں پر کامیابی کیلیے طویل سفر باقی
  • سندھ کے پانی پر قبضہ کرنے کیلئے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں ہوا، عمر ایوب
  • سندھ اور پنجاب کا حق ہے کہ اپنے پانی کی حفاظت کریں، محمد احمد خان
  • پاک افغان مشترکہ پریس کانفرنس بڑا بریک تھرو، کامران یوسف
  • اسحاق ڈار کی افغان حکام سے اہم ملاقاتیں، مشترکہ امن و ترقی کا عہد
  • اسحاق ڈار کی کابل میں افغان حکام سے اہم ملاقاتیں، مشترکہ امن و ترقی کا عہد
  • کابل میں پاک افغان وزرائے خارجہ کی اہم ملاقات، مشترکہ امن و ترقی کا عہد
  • اسحق ڈار اہم ترین دورے پر کابل چلے گئے،قائمقام وزیراعظم ،وزیرخارجہ سے ملیں گے