بھوت کی وجہ سے بنگلہ چھوڑنا پڑا؛ سوہا علی حقیقی ڈراؤنا واقعہ سناتے کانپ اُٹھی
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
بھارتی فلم انڈسٹری کی اداکارہ سوہا علی خان اپنے گھر ’’پیلی کھوٹی‘‘ کو چھوڑنے کی مافوق الفطرت وجہ بتاتے ہوئے خوف سے کانپ اُٹھی۔
سوہا علی خان ان دنوں اپنی نئی فلم چھوری 2 کی پروموشن میں مصروف ہے جو اس وقت پرائم ویڈیو پر دستیاب ہے۔
ہارر فلم چھوری 2 دراصل چھوری کا سیکوئل ہے جو 2021 میں ریلیز ہوئی تھی اور دونوں کی کاسٹ اور کہانی ایک ہی ہے۔
اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں سوہا علی خان سے جب پوچھا گیا کہ آپ ہارر فلم میں کام کر رہی ہیں تو کیا آپ کو خود بھوت پریت پر یقین ہے۔
جس پر سوہا علی خان نے کہا کہ میں اس کا بہت نزدیک سے مشاہدہ کیا ہے۔ یہ واقعہ ہماری فیملی کے ساتھ ہوا اور میں گواہ ہوں۔
اداکارہ سوہا علی خان نے بتایا کہ جب ہم پیلی کھوٹی میں رہتے تھے تو میری خاندان کی ایک بزرگ خاتون کو بھوت نے تھپڑ مارا تھا۔
بقول سوہا علی خان وہ خوف سے کانپ رہی تھیں اور ان کے گال پر تھپڑ کے نشان بھی واضح تھے۔
اداکارہ نے بتایا کہ اس واقعے کے فوری بعد ہم لوگوں نے جلدی جلدی اپنا سامان سمیٹا اور پتوڈی بنگلے میں شفٹ ہوگئے جو کہ نزدیکی ہی تھا۔
سوہا علی خان نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد ہم نے پھر کبھی مڑ کر بھی پیلی کھوٹی کو نہں دیکھا جو اب ایک کھنڈر بن چکی ہے اور اب تک وہاں کوئی آباد نہیں ہوسکا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سوہا علی خان
پڑھیں:
بنگلہ دیش کے معافی کے مطالبے پر پاکستانی دفتر خارجہ کا ردعمل
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ اعلیٰ سطحی سفارتی مشاورت کے دوران بعض دیرینہ معاملات پر بات چیت ہوئی، جن میں 1971 کے واقعات پر بنگلہ دیش کی جانب سے رسمی معافی اور معاوضے کے مطالبات شامل تھے۔
دفتر خارجہ کی سیکریٹری آمنہ بلوچ گزشتہ دنوں 15 سال بعد دفتر خارجہ کی مشاورت کے لیے ڈھاکہ پہنچیں۔ ملاقات کے بعد بین الاقوامی میڈیا اور بنگلہ دیشی اخبارات ”ڈیلی اسٹار“ اور ”ڈھاکہ ٹریبیون“ نے رپورٹ کیا کہ بنگلہ دیش نے 1971 کے واقعات پر معافی، معاوضے، غیر ادا شدہ فنڈز اور 1970 کے سمندری طوفان کے لیے ملنے والے بین الاقوامی عطیات کی رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈیلی اسٹار کے مطابق بنگلہ دیشی سیکریٹری خارجہ جاشم الدین نے کہا کہ ’ان معاملات کو حل کیے بغیر مضبوط دوطرفہ تعلقات ممکن نہیں‘۔
ڈھاکہ ٹریبیون نے ان کے حوالے سے لکھا کہ ’یہ معاملات ہماری باہمی بنیاد کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔‘
جس کے بعد ہفتہ وار پریس بریفنگ میں سوال و جواب کے دوران دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’کچھ دیرینہ معاملات واقعی زیر بحث آئے، تاہم دونوں فریقوں نے انہیں باہمی احترام اور افہام و تفہیم کے ماحول میں پیش کیا۔‘
شفقت علی خان نے کہا کہ بعض عناصر ’جھوٹی یا سنسنی خیز خبریں پھیلا کر‘ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، انہوں نے زور دیا کہ مذاکرات انتہائی خوشگوار اور تعمیری ماحول میں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ’15 سال کے تعطل کے بعد ان مشاورتوں کا انعقاد دونوں ممالک کے درمیان خیرسگالی اور ہم آہنگی کا ثبوت ہے، اور گمراہ کن رپورٹس اس اہم پیشرفت کی اہمیت کو کم نہیں کر سکتیں۔‘
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ دونوں ممالک نے سیاسی، معاشی، ثقافتی، تعلیمی اور تزویراتی تعاون پر وسیع تبادلہ خیال کیا، جو مشترکہ تاریخ، ثقافتی ہم آہنگی اور عوامی امنگوں پر مبنی ہے۔ دونوں فریقوں نے نیویارک، قاہرہ، ساموآ اور جدہ میں ہونے والی حالیہ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور تعلقات میں بہتری کے لیے مسلسل ادارہ جاتی رابطے، زیر التواء معاہدوں کی جلد تکمیل، تجارت، زراعت، تعلیم اور روابط میں تعاون بڑھانے پر زور دیا۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق، پاکستان نے اپنی زرعی جامعات میں تعلیمی مواقع فراہم کرنے کی پیشکش کی، جبکہ بنگلہ دیش نے فشریز اور میری ٹائم اسٹڈیز میں تکنیکی تربیت کی پیشکش کی۔ بنگلہ دیشی فریق نے پاکستانی نجی جامعات کی جانب سے اسکالرشپ کی پیشکش کو سراہا اور تعلیم کے شعبے میں مزید تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس اگست میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ دسمبر میں قاہرہ میں ڈی-8 کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ ڈاکٹر محمد یونس کے درمیان ملاقات میں 1971 کے تناظر میں باقی ماندہ شکایات کو حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔
دونوں ممالک کی افواج بھی جنوری میں اس بات پر متفق ہوئیں کہ ان کے باہمی تعلقات کو بیرونی اثرات سے محفوظ رکھا جائے اور دیرپا شراکت داری کو فروغ دیا جائے۔
Post Views: 2