چھٹی جماعت سے آئی ٹی مضمون کو نصاب کا حصہ قرار دینے کے لیے حکمت عملی بنائی جائے، وزیراعظم کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے ہدایت کی ہے کہ ملک میں چھٹی جماعت سے آئی ٹی کے مضمون کو نصاب کا لازمی حصہ قرار دینے کی حوالے سے فی الفور حکمت عملی بنائی جائے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام کے امور پر جائزہ اجلاس ہوا، جس میں متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیں حکومت اسلام آباد میں کتنے لاکھ بچوں کو آئی ٹی کی تربیت دے گی؟
اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہاکہ ملک میں آئی ٹی کے شعبے کا فروغ اور آئی ٹی سے متعلق برآمدات میں اضافہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومتوں کے سال مل کر اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر آئی ٹی کی معیاری اور یکساں تعلیم و تربیت کے حوالے سے کام کیا جائےگا۔
وزیراعظم نے اسلام آباد، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر اور بلوچستان کے کم ترقی یافتہ علاقوں کے اسکولوں، کالجوں اور ریسرچ اداروں میں آئی ٹی کی تربیت شروع کرنے کی ہدایت کی۔
وزیراعظم نے کہاکہ آئی ٹی کے تربیتی پروگرامز کا معیار ایسا ہونا چاہیے جس کی بدولت تربیت حاصل کرنے والے افراد ملک اور بیرون ملک میں اچھی ملازمت حاصل کرسکیں۔
اجلاس کو آئی ٹی کے شعبے میں تربیتی پروگرامز اور دیگر اقدامات کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ اسکول براڈ بینڈ کنیکٹیویٹی پراجیکٹ کے تحت اسلام آباد کے اسکولوں میں انٹرنیٹ کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے، سال 25-2024 میں وزارت آئی ٹی و ٹیلی کام نے 49.
حکام نے بتایا کہ ہواوے کے اشتراک سے بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد، نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد اور کامسیٹس یونیورسٹی لاہور کیپمس میں اسکلز ووکیشنل ٹریننگ مرکز قائم کیے جا رہے ہیں۔
حکام کے مطابق ہواوے کا تربیتی پروگرام جو کہ مصنوعی ذہانت، کلاؤڈ، بگ ڈیٹا اور سائبر سیکیورٹی سے متعلق ہے، کو غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ ٹوپی، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا، مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جام شورو کے نصاب کا حصہ بنایا جا چکا ہے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ وزارت وفاقی تعلیم و فنی تربیت ہواوے کے تعاون سے ایک لاکھ 46 ہزار 367 طلبا کو تربیت فراہم کرےگی جبکہ 1300 لیبارٹریوں کو بہتر بنایا جائےگا، اس اقدام سے اسلام آباد، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے عوام مستفید ہو سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیں برآمدات کا فروغ: حکومت کا آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ نوجوانوں کو تربیت دینے کا اعلان
اجلاس میں وفاقی وزیر اقتصادی امور احد چیمہ، وفاقی وزیر آئی ٹی و ٹیلی کام شزا فاطمہ، چیئرمین وزیراعظم یوتھ پروگرام رانا مشہود احمد اور متعلقہ اعلیٰ سرکاری افسران نے شرکت کی، جبکہ ہواوے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ایتھن سن بھی اجلاس میں موجود تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئی ٹی تربیت انفارمیشن ٹیکنالوجی بریفنگ ٹیلی کام جامعات چھٹی کلاس شہباز شریف طلبا و طالبات وزیراعظم پاکستان وی نیوز یونیورسٹیاںذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی ٹی تربیت انفارمیشن ٹیکنالوجی بریفنگ ٹیلی کام جامعات شہباز شریف طلبا و طالبات وزیراعظم پاکستان وی نیوز یونیورسٹیاں شہباز شریف اسلام آباد آئی ٹی کے ٹیلی کام ئی ٹی کے ا ئی ٹی
پڑھیں:
رہبر معظم انقلاب اسلامی کی سفارتی حکمت عملی
اسلام ٹائمز: آرٹیکل کا اختتام رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے اس موقف سے کرتے ہیں، جو انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: "میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ گفتگو (مذاکرات)، وزارت خارجہ کے دسیوں کاموں میں سے ایک ہے۔ یعنی وزارت خارجہ دسیوں کام کر رہی ہے اور انہیں میں سے ایک یہ عمان کی گفتگو ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں، جو ابھی حال ہی میں سامنے آئے ہیں۔ کوشش کریں کہ ملک کے مسائل کو ان مذاکرات سے نہ جوڑیں۔ یہ میری تاکید ہے۔ جو غلطی جامع ایٹمی معاہدے میں کی، اس کی تکرار نہ کریں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
گذشتہ ہفتے ایران کی خارجہ پالیسی امریکہ اور سعودی عرب سے روس تک فعال رہی۔ اہم سفارتی واقعات رونماء ہوئے اس اسٹریٹجک تحرک میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی کی اس حکمت عملی کو چند نکات میں بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک: رہبر معظم انقلاب اسلامی کا پہلا بڑا قدم ٹرمپ کے خط کے جواب میں ایسی تدبیر اختیار کرنا تھا، جس سے سانپ کو مار کر لاٹھی بھی بچانا تھا۔ اس حوالے سے امریکہ پر مذاکرات کے مقام کو مسلط کرنا، مذاکرات کو بالواسطہ بنانا اور سفارت کاری اور اقتدار آمیز فوجی پیغامات کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے عمل کو کم کرنا تھا۔
دو: رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا دوسرا اہم قدم روسی صدر کو مکتوب پیغام بھیجنا تھا۔ اگرچہ پوٹن کو بھیجے گئے پیغام کی تفصیلات عام نہیں کی گئیں، لیکن ایران اور امریکہ کے بالواسطہ مذاکرات کے آغاز کے پیش نظر، روس کے ساتھ تعلقات میں یہ اضافہ اس بات کا اشارہ ہوسکتا ہے کہ رہبر انقلاب نے بڑی ہوشیاری سے مشرقی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کے عمل کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے دور اور آزاد رکھنا ضروری سمجھا اور آپ اس عمل سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ مشرق کے اسٹریٹجک محور کو مذاکرات کے اہم دنوں میں فعال اور مثبت حوصلہ افزائی کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ وقت ضرورت ان تعلقات سے فائدہ اٹھانے کا امکان باقی رہے۔
اس کے علاوہ، یہ گذشتہ دور کے مذاکرات میں خارجہ پالیسی کے یک طرفہ ہونے کے تجربے اور خطرے کو بھی ایرانی حکومت سے دور کرتا ہے، جس میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے نتائج پر حد سے زیادہ انحصار تھا۔ تین: تیسرا اہم واقعہ سعودی عرب کے وزیر دفاع کی رہبر انقلاب سے ملاقات تھی۔ اس ملاقات کا پیغام یہ ہے کہ ایران ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور توسیع کو ایک خاص رفتار کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ ان بہتر تعلقات میں اہم اقتصادی اور سلامتی کے اہداف شامل ہیں، لیکن واضح طور پر یہ خطے میں اسرائیل پر سلامتی اور سیاسی حوالے سے دباؤ کو بڑھا سکتا ہے۔
چار: آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کی خارجہ پالیسی میں عملاً ایک وسیع سفارت کاری کا میدان فعال کر دیا ہے۔ اس تیار کردہ میدان میں امریکہ کے مقابلے میں آزادانہ عمل کیا جاسکتا ہے، اس سے ایرانی مذاکرات کاروں کی سفارتی صلاحیت کو بڑھاوا ملا ہے اور وہ امریکی فریق کے اسٹریٹجک حسابات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس سفارتی حکمت عملی سے اگر مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں، تو ایران کے پاس مشرق اور مغرب دونوں کی صلاحیتیں موجود ہوں گی اور اگر کسی بھی وجہ سے مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں، تو مشرقی طاقتوں کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد کا عمل اور ملک کی خارجہ پالیسی کے دیگر اقدامات معطل نہیں ہوں گے۔
آرٹیکل کا اختتام رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے اس موقف سے کرتے ہیں، جو انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: "میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ گفتگو (مذاکرات)، وزارت خارجہ کے دسیوں کاموں میں سے ایک ہے۔ یعنی وزارت خارجہ دسیوں کام کر رہی ہے اور انہیں میں سے ایک یہ عمان کی گفتگو ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں، جو ابھی حال ہی میں سامنے آئے ہیں۔ کوشش کریں کہ ملک کے مسائل کو ان مذاکرات سے نہ جوڑیں۔ یہ میری تاکید ہے۔ جو غلطی جامع ایٹمی معاہدے میں کی، اس کی تکرار نہ کریں۔ اس وقت ہم نے ہر چیز مذاکرات میں پیشرفت پر منحصر کر دی تھی۔ یعنی ملک کو مشروط حالت میں پہنچا دیا۔ جب ملک مذاکرات سے مشروط ہو جائے تو سرمایہ کار، سرمایہ کاری نہیں کرتا۔ یہ بات ظاہر ہے، کہتا ہے کہ دیکھیں کہ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
یہ مذاکرات بھی جملہ امور میں سے ایک ہے۔ ایک بات ہے، ان بہت سے کاموں میں سے ایک ہے، جو وزارت خارجہ انجام دے رہی ہے۔ ملک کو مختلف شعبوں میں اپنا کام کرنا چاہیئے۔ صنعت میں، زراعت میں، مختلف اور گوناگوں خدمات کے شعبوں میں، ثقافت کے شعبے میں، تعمیراتی شعبوں میں، خاص موضوعات میں جن کی خاص تعریف کی گئی ہے، جیسے یہی جنوب مشرق کے مسائل ہیں۔ ان پر سنجیدگی سے کام کریں۔ ان مذاکرات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، جو عمان میں شروع ہوئے ہیں۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔ اسی کے ساتھ، ہمیں نہ مذاکرات کے حوالے سے نہ بہت زیادہ خوش فہمی میں رہنا چاہئے اور نہ ہی بہت زیادہ بدگمان رہنا چاہیئے۔
بہرحال یہ بھی ایک کام ہے، ایک اقدام ہے، ایک فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر عمل کیا جا رہا ہے اور ابتدائی مرحلے میں بہت اچھی طرح عمل ہوا ہے۔ اس کے بعد بھی پوری دقت نظر کے ساتھ عمل کیا جائے، ممنوعہ خطوط (ریڈ لائنیں) فریق مقابل کے لئے بھی واضح ہیں اور ہمارے لئے بھی۔ مذاکرات اچھی طرح انجام دیئے جائيں۔ ممکن ہے کہ نتیجہ خیز ہوں اور ممکن ہے کہ نتیجہ بخش نہ ہوں۔ ہم نہ بہت زیادہ خوش فہمی میں ہیں اور نہ ہی بہت زیادہ بدگمان ہیں۔ البتہ فریق مقابل سے بہت بدگمان ہیں، فریق مقابل ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے، ہم فریق مقابل کو پہچانتے ہیں۔ لیکن اپنی توانائیوں پر ہمیں پورا اعتماد ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہم بہت سے امور انجام دے سکتے ہیں، اچھے طریقوں سے بھی واقف ہیں۔"