زرعی سکالر شپ پروگرام ،گلگت بلتستان سمیت ملک بھر سے 300 طلباء کی چین روانگی
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج شعبہ زراعت کیلئے ایک انتہائی اہم دن ہے، پاکستان کے زرعی گریجویٹس آج اعلی تعلیم کیلئے چین جا رہے ہیں، پاکستانی طلبہ کو سکالر شپ فراہم کرنے پر چینی حکومت کے مشکور ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان سمیت ملک بھر سے زرعی سکالر شپ پروگرام کے تحت 300 طلباء کی چین روانگی کے موقع پر اسلام آباد میں تقریب منعقد ہوئی، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج شعبہ زراعت کیلئے ایک انتہائی اہم دن ہے، پاکستان کے زرعی گریجویٹس آج اعلی تعلیم کیلئے چین جا رہے ہیں، پاکستانی طلبہ کو سکالر شپ فراہم کرنے پر چینی حکومت کے مشکور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے دورہ چین میں زرعی یونیورسٹی کا دورہ کیا، زرعی یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق نے بے حد متاثر کیا، یونیورسٹی کے دورے پر ہی فیصلہ کیا کہ ہم اپنے زرعی گریجویٹس کو تربیت کیلئے چین بھجوائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی طلبہ بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان پل کا کردار ادا کریں گے، چین سے تربیت حاصل کرنیوالے طلبہ پاکستان کے زرعی شعبے کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے، پاکستان چین سے اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے تجربات سے استفادہ کرے گا، سکالر شپ پروگرام کیلئے زرعی گریجویٹس کا میرٹ پر انتخاب کیا گیا ہے، تجربے کے ساتھ نوجوانوں کی توانائیاں کسی بھی شعبے کی ترقی کیلئے اہم ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ سکالر شپ پر زرعی گریجویٹس کو چین بھجوانے کا آج پہلا مرحلہ مکمل ہوا، زرعی گریجویٹس کا انتخاب آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں سے کیا گیا، سکالر شپ پر چین بھجوائے جانے والے گریجویٹس میں بلوچستان کا کوٹہ 10 فیصد زائد ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان سب کا سانجھا ہے، چاروں اکائیوں کو مل کر کام کرنا ہو گا، پاکستان کی ترقی کیلئے چاروں صوبوں کی یکساں ترقی لازم و ملزوم ہے، چین نے ہر موقع پر پاکستان کا ساتھ دیا، آئی ایم ایف پروگرام کے حصول میں بھی چین کا تعاون مثالی تھا، چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کے بہترین دوست ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ چین سے زراعت کے جدید طریقے سیکھ کر پاکستان کے زرعی شعبے کی ترقی کا ذریعہ بنیں، دیہی علاقوں میں زرعی شعبے سے وابستہ چھوٹے و درمیانے کاروبار کے بے پناہ مواقع موجود ہیں، زرعی مصنوعات کی ویلیو ایڈیشن پر توجہ دی جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پاکستان کے زرعی زرعی گریجویٹس کا کہنا تھا کہ سکالر شپ پر کی ترقی
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
شیعہ علما کونسل گلگت کے جنرل سیکرٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل ضلع گلگت کے جنرل سکریٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مورخہ 19 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والی مشیر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مولانا محمد دین کی پریس ریلیز محض ایک بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی شناخت پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور اجتماعی شعور ہے۔ ایسے میں کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا مشیر موصوف کی یہ پریس ریلیز آپ کی منظوری سے جاری کی گئی؟ اگر ہاں، تو یہ طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اس انداز میں مخاطب ہو رہی ہے جو نفرت، تقسیم اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اور اگر یہ بیان آپ کی اجازت یا علم کے بغیر جاری کیا گیا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور نالائق مشیروں کو فوراً برطرف کریں تاکہ حکومت کی نیک نامی، شفافیت اور سنجیدگی پر عوام کا اعتماد قائم رہ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشیر موصوف نے خطیب جامع مسجد امامیہ گلگت جناب آغا سید راحت حسین الحسینی جیسے محترم، سنجیدہ اور باوقار عالم دین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ گلگت بلتستان کے مہذب سیاسی و سماجی کلچر سے متصادم ہے۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو ذاتی حملے سمجھتے ہیں اور سنجیدہ تنقید کا جواب اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور سوال اٹھانا ہر باشعور شہری، خصوصاً اہل علم کا آئینی، اخلاقی اور سماجی حق ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں واقعی عوامی مفاد پر مبنی ہیں تو دلیل و حکمت سے عوام کو مطمئن کیا جائے، نہ کہ ان پر الزام تراشی کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشیر موصوف کا یہ کہنا کہ "دین کو سیاست سے الگ رکھا جائے" نہ صرف فکری گمراہی کی نشانی ہے بلکہ اس قوم کے نظریاتی اساس سے انحراف بھی ہے۔ پاکستان کا قیام ہی کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ“ کے نام پر ہوا تھا، اور اس ملک کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب دین اور سیاست کو ہم آہنگی سے مربوط کیا جائے۔