بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے پاس کیا کوئی جادو کی چھڑی ہے؟ عمران خان انہیں اپنا مرشد کیوں کہتے ہیں؟ اس حوالے سے کئی سوالات کا جواب سامنے آ گیا۔

سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی شادی کی پس پردہ کہانی سامنے آگئی ہے، جسے خود بشریٰ بی بی کی بہن مریم وٹو نے ایک حالیہ انٹرویو میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔

دبئی میں رہائش پذیر مریم وٹو نے ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں نہ صرف موجودہ سیاسی صورتحال بلکہ اپنی بہن بشریٰ بی بی اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے درمیان تعلقات کے آغاز پر بھی روشنی ڈالی۔

انہوں نے بتایا کہ ان کا تحریک انصاف سے رشتہ 2022ء  سے ہے اور وہ اس وقت بھی پارٹی کی رکن تھیں جب عمران خان ان کے بہنوئی نہیں بنے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے معاملات میں ان کی شمولیت پر تنقید درست نہیں، کیونکہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ کافی عرصے سے وابستہ رہی ہیں اور انہوں نے پارٹی کے لیے بھرپور محنت کی ہے۔

مریم وٹو نے مزید کہا کہ پچھلے سال اکتوبر میں ہونے والے پی ٹی آئی مارچ کے دوران بشریٰ بی بی کا کردار بھی اہم رہا، جس پر ان سے کئی سوالات کیے گئے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے وضاحت کی کہ بشریٰ بی بی کے پاس کوئی  جادو کی چھڑی نہیں، بلکہ ان کی شخصیت میں دین، قرآن اور علم کا گہرا اثر ہے، جس کی بدولت وہ عمران خان کی قریبی مشیر ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ جو لوگ بشریٰ بی بی پر کالے جادو، ٹونے یا تعویز جیسے الزامات لگاتے ہیں، انہیں سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ایسی باتیں صرف ذہنی الجھن میں مبتلا افراد ہی کرتے ہیں۔

انٹرویو کے دوران جب عمران خان اور بشریٰ بی بی کی شادی کے آغاز سے متعلق سوال کیا گیا تو مریم وٹو نے کہا کہ وہ عمران خان کی ذاتی زندگی پر زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتیں، تاہم ایک موقع پر جب انہوں نے ٹی وی پر عمران خان کو دیکھا تو انہیں وہ بہت پریشان حال لگے۔ اس کے بعد انہوں نے بشریٰ بی بی اور عمران خان کی ملاقات کا اہتمام کیا، جس پر بعد میں عمران خان نے انہیں ای میل کے ذریعے شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا: ’’شکریہ! آپ نے میری زندگی بدل دی ہے۔‘‘

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عمران خان کی تحریک انصاف مریم وٹو نے انہوں نے

پڑھیں:

جمہوریت کی مخالفت کیوں؟

گزشتہ دنوں میرے ایک دوست جو درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، میری ان سے ملاقات ہوئی۔ میرے یہ دوست جمہوریت کے سخت ترین مخالف ہیں۔ ان کے نزدیک ہماری تمام تر سیاسی نظام کی خرابیوں کی جڑ پاکستان میں رائج یہ جمہوری نظام ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ ان کے نزدیک اسلام کا سیاسی نظام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔

اپنے اس دوست کی سوچ کے برعکس راقم التحریر جمہوری نظام کی تمام تر خرابیوں کے باوجود اس کا حامی رہا ہے۔ میرے نزدیک ہماری تمام سیاسی نظام میں خرابیوں کی وجہ جمہوری نظام کا تسلسل کے ساتھ جاری نہ رہنا ہے۔

بار بار کے مارشل لا اور سیاست میں مداخلت کے نتیجے میں یہ خرابیاں پیدا ہوئیں اور عوام جمہوریت کے حقیقی ثمرات سے محروم رہے۔ مجھے دینی اور مذہبی موضوعات پر اپنی کم علمی اورکم فہمی کا ہمیشہ احساس رہا ہے، اس لیے میں عموماً دینی اور مذہبی موضوعات پر علمی گفتگو سے گریز کرتا ہوں۔ تاہم جب جمہوریت کا موضوع ہمارے درمیان دوران گفتگو آیا تو اس گفتگو نے مکالمے کی صورت اختیار کر لی۔

جمہوریت کی مخالفت کے حوالے سے میرے دوست کا کیا موقف ہے، اسے اپنے اسلوب میں بیان کر رہا ہوں۔ میرے دوست کے نزدیک ایک صالح اور مہذب حکومت وہی ہو سکتی ہے جس کی بنیاد اخلاقی اقدار اور تصورات پر قائم ہو۔

دنیا کے سیاسی نظاموں میں اخلاقی اقدارکی کوئی جگہ نہیں، اس میں نمایندگی کا اہل وہی شخص تصورکیا جاتا ہے جو ڈپلومیٹک اور چرب زبان ہو، چاہے اخلاقی حوالے سے کتنا ہی گرا ہوا کیوں نہ ہو۔ یہ عمل اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اس نظام میں قانون سازی کا حق شہری کا حق ہے۔ لازمی اس قانون سازی میں انسانی خواہشات کو اولین حیثیت حاصل ہوگی اس طرح انسان کی روحانی زندگی تباہ ہو جائے گی اور انسان نفس کا غلام بن کر رہ جائے گا۔

اسلام میں نسلی اور مذہبی گروہ بندی جائز نہیں۔ جمہوری طریقہ انتخاب میں نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات کو ابھارکر عوامی جذبات کو استعمال کرکے اسے اپنی کامیابی کا زینہ بنایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں کشمکش اور تصادم کی فضا پیدا ہوتی ہے۔

جمہوریت کی بنیادی خوبی محض عددی برتری تصورکی جاتی ہے یہ منطقی لحاظ سے درست نہیں،کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ 200 کے مقابلے 201 کی رائے زیادہ درست اور دانش مندانہ ہے۔ اس نظام میں افراد کی گنتی کی جاتی ہے انھیں تولا نہیں جاتا، یعنی صلاحیت اور قابلیت کی اس نظام میں کوئی اہمیت نہیں۔

جمہوریت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس کا مزاج سیکولر ہے، یہی وجہ ہے کہ جو مذہبی اور دینی جماعت اس میں حصہ لیتی ہے، اس کا مزاج سیکولر ہو جاتا ہے۔ اس نظام میں کامیابی کے لیے تمام طبقات کی حمایت درکار ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ جماعتیں مصلحت کا شکار ہو کر خدائی احکامات کے نفاذ کے بجائے انسانی خواہشات کی تکمیل میں سرگرم عمل ہو جاتی ہیں یہ طرز عمل اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔

میرے دوست کی یہ تمام باتیں جزوی طور پر درست ہیں کلی طور پر نہیں۔ میرا موقف یہ تھا کہ انسانی معاشرے کو مہذب اور تمدنی معاشرہ کہلانے اور عوام الناس کو اجتماعیت کے دائرے میں رکھنے کے لیے کسی نہ کسی نظام حکومت کی ضرورت لازمی طور پر ہوتی ہے اب یہ نظام حکومت کیسے وجود میں آئے گا، اس نظام کے خد و خال کیا ہوں گے؟

حکومت کرنے والوں کے اختیارات کی حدود کیا ہوں گی، ان کا انتخاب کس طرح کیا جائے گا اور سیاسی استحکام کس طرح پیدا ہوگا۔ اس حوالے سے مختلف زمانے میں مختلف تجربات سامنے آئے ہیں، اس میں ایک تجربہ جمہوری نظام بھی ہے۔ دنیا نے اب تک کے تجربات سے جمہوری نظام کو اس کی بہت سی خرابیوں کے باوجود ایک بہتر نظام سیاست پایا ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو دنیا بھر میں فروغ حاصل ہوا۔

اگر آپ جمہوری نظام کو اس کی چند خرابیوں کی بنیاد پر مسترد کرتے ہیں تو آپ کو دنیا کے سامنے ایک واضح سیاسی نظام پیش کرنا ہوگا۔ محض ہوا میں قلعے بنانے سے کچھ حاصل نہ ہو سکے گا۔

جہاں تک اسلام کے نظام حکومت کی بات ہے تو ہمیں اسے تاریخی پس منظر میں سمجھنا ہوگا۔ اسلام کے سیاسی نظام میں خلاف راشدہ کے دور کو رول ماڈل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دور حکومت 30 سال کے عرصے پر محیط ہے، اس مدت میں چار صحابی خلیفہ مقرر ہوئے چاروں خلفا کا تقرر چار مختلف طریقوں سے ہوا۔ اس کے بعد جو ماڈل سامنے آیا اسے خاندانی ماڈل کہا جاسکتا ہے۔

اسلام کی پوری سیاسی تاریخ اس پس منظر میں چلتی رہی، اسی پس منظر میں مسلم حکومتیں قائم ہوئیں۔ اس میں زیادہ تر حکمران وہی تھے جو خاندانی حکومت کے اصول کے تحت حکمران بنے تھے۔ یہ خاندانی ماڈل خلافت راشدہ کے رول ماڈل سے مختلف تھا لیکن کیونکہ اس ماڈل میں اہل اسلام کو امن اور حفاظت کے ساتھ دین پر عمل کرنے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کا کام بخوبی انجام پا رہا تھا، اس لیے عوام الناس نے اس نظام کو قبول کیا عرب کے بعض ممالک میں یہ نظام آج بھی رائج ہے۔

اس تاریخی پس منظر کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے۔ اسلام کسی لگے بندھے نظام کی تجویز یا خاکہ پیش نہیں کرتا بلکہ ایسے بنیادی اصول قائم کرتا ہے جو کسی حکومت کے عمومی خدوخال کی تشکیل کرتے ہیں وقت اور حالات کے تحت طرز حکومت کیسا ہونا چاہیے اس کا فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیا ہے یہ میری ناقص رائے ہے اس پر بہتر علمی رائے کا اظہار مذہبی اسکالر اور علما دین ہی کر سکتے ہیں۔

ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس وقت دنیا میں جمہوری نظام کامیابی سے جاری ہے۔ جمہوری نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایسا نظام حکومت ہے جس میں حکومتی مدت پوری ہوتی ہے اس میں پرامن انتقال اقتدار کا طریقہ موجود ہے۔

عوامی رائے عامہ کے ذریعے اسے قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو سیاسی استحکام حاصل ہوتا ہے اس لیے اس نظام کو غیر اسلامی قرار دینا درست عمل نہیں ہے اور نہ ہی اسے مغربی طرز حکومت کا نام دیا جانا چاہیے۔ بعض لبرل اور سیکولر عناصر سیاست میں دینی اور مذہبی جماعتوں کی شمولیت کے خلاف ہیں میری ذاتی رائے میں اگر ملک کی اکثریت کسی نظام حیات کو قبول کرکے اس کے نفاذ کی کوشش کرتی ہے تو اس کے اس جمہوری حق کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اسے تسلیم کیا جانا جمہوریت کی روح کے عین مطابق ہے۔

یہ ہے دونوں جانب کا نقطہ نظر، کون درست ہے کون غلط اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اپیلوں پر بڑی پیش رفت
  • ’تم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے‘، معین اختر کی 14ویں برسی
  • منرلز بل پر تنقید کے پیچھے پورا مافیا، عمران خان سے ملاقات میں بات کلیئر ہو جائےگی، علی امین گنڈاپور
  • علیمہ خانم اور بشریٰ بی بی پر شیر افضل مروت کی تنقید ناجائز ہے، عمر ایوب
  • حکومتی ارکان مائنز اینڈ منرلز بل پر رو رہے ہیں کابینہ نے کیوں منظور کیا؟ اپوزیشن لیڈر کے پی
  • عمران خان کو انگریز کا ایجنٹ کہنا نظریاتی بات تھی، پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا چاہتے ہیں، فضل الرحمان
  • ہمارے خلاف منصوبے بنتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں آؤ ہم سے بات کرو، سلمان اکرم راجہ
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
  • فیکٹ چیک: کیا سابق چینی وزیر اعظم نے واقعی سزائے موت کی تجویز دی؟
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟