سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین شہریوں کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کی درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جس میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔

سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ ٹرائل کے دوران قواعد و ضوابط پر عمل ہوا یا نہیں، اس حوالے سے وہ عدالت کو آگاہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرائل کے لیے قانونی گراؤنڈز تو دستیاب ہیں لیکن سویلین ملزمان کو اپنی مرضی کے وکیل تک رسائی کا حق میسر نہیں دیا گیا۔

اس موقع پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے شاہ زمان کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں بھی یہی مسئلہ اٹھایا گیا تھا۔ خواجہ حارث نے وضاحت کی کہ شاہ زمان کیس میں یہ بات تسلیم کی گئی کہ گراؤنڈز موجود تھے، لیکن اپنی پسند کے وکیل تک رسائی نہیں دی گئی۔

مزید پڑھیں: بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا، جسٹس نعیم اختر افغان کے ریمارکس

خواجہ حارث نے مزید کہا کہ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 کے تحت غیر ملکی شہریوں کو فئیر ٹرائل کا حق حاصل ہے، لیکن کونسلر تک رسائی کو اپیل کا حق نہیں کہا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو بھی ویانا کنونشن کے تحت کونسلر رسائی دی گئی، مگر اپنے شہریوں کو ایسا حق نہیں دیا جا رہا، جو افسوسناک ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کلبھوشن ہو یا کسی اور ملک کا شہری، کونسلر رسائی تو سب کے لیے ہونی چاہیے۔

سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ اگر ملزم اپنی مرضی سے وکیل مقرر نہ کر سکے تو کیا حکومت ان کے لیے وکیل فراہم کرتی ہے؟ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی ہاں، ایسی صورت میں حکومت سرکاری وکیل کی سہولت دیتی ہے۔

مزید پڑھیں: سویلینز کا ملٹری ٹرائل: یہ کوئی ہائیکورٹ نہیں کہ دائرہ سماعت محدود ہوگا، جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس

خواجہ حارث نے دلائل میں مزید کہا کہ غیر ملکی مجرموں کے معاملے میں جس ملک سے وہ تعلق رکھتا ہے، وہی ملک سینڈنگ اسٹیٹ کہلاتا ہے۔ اس تناظر میں جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کلبھوشن کے کیس میں بھارت سینڈنگ اسٹیٹ ہی تسلیم کیا گیا ہے، چاہے بھارت اسے مانے یا نہ مانے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جسٹس امین الدین خان خواجہ حارث سپریم کورٹ فوجی عدالتوں میں سویلین شہریوں کے ٹرائل.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جسٹس امین الدین خان خواجہ حارث سپریم کورٹ جسٹس محمد علی مظہر خواجہ حارث نے کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

ججز کے تبادلے چیف جسٹس کی مشاورت سے ہوئے، رجسٹرار سپریم کورٹ کا جواب

اسلام آ باد:

ججز ٹرانسفر سینیارٹی کیس میں رجسٹرار سپریم کورٹ نے جواب جمع کرادیا اور کہا ہے کہ اس معاملے میں چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت شامل تھی۔

رجسٹرار سپریم کورٹ کے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 200(1) کے تحت، صدر کسی ہائی کورٹ کے جج کو اس کی رضا مندی، چیف جسٹس پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کے بعد، کسی دوسرے ہائی کورٹ میں منتقل کر سکتا ہے۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 200(1) کے تحت وضع کردہ طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے، وزارتِ قانون و انصاف نے 01-02-2025 کو ایک خط کے ذریعے معزز چیف جسٹس آف پاکستان سے ججز کے تبادلے کی مشاورت حاصل کی۔

یہ مشاورت/اتفاقِ رائے چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے 01-02-2025 کو فراہم کی گئی، اس جواب کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • رنویر الہ آبادیا کیس کی تحقیقات مکمل، پاسپورٹ واپسی کی درخواست سماعت کیلیے مقرر
  • سپریم کورٹ: ججز تبادلہ اور سنیارٹی کیس، لاہور ہائیکورٹ بار کی متفرق درخواست دائر
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • سابق جج سپریم کورٹ جسٹس سرمد جلال عثمانی انتقال کر گئے
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈسرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائمقام چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • چیف جسٹس نے ججز کے تبادلوں پر رضامندی ظاہر کی تھی: رجسٹرار سپریم کورٹ
  • ججز کے تبادلے چیف جسٹس کی مشاورت سے ہوئے، رجسٹرار سپریم کورٹ کا جواب
  • آرمی ایکٹ صرف آرمڈ فورسز کیلئے، سویلین کو لانا ہوتا تو الگ سے ذکر کیا جاتا: جسٹس نعیم