WE News:
2025-04-22@01:54:25 GMT

ببو برال، جو جینا چاہتے تھے مگر۔۔

اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT

ببو برال، جو جینا چاہتے تھے مگر۔۔

عظیم کامیڈین کی 13 ویں برسی پر تحریر

‘ دوست چھوڑ گئے، حکومت کی طرف سے وعدے اور باتیں ہیں، بس موت کے دن گن رہا ہوں’ یہ الفاظ تھےآبدیدہ ہوتے ببو برال کے جو انہوں نے اپنی موت سے چند ماہ قبل ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہے۔ دل برداشتہ ببو برال کا کہنا تھا کہ چند مخیر سینئر فنکار ان کا علاج کراسکتے ہیں لیکن لوگ مرنا بھول گئے ہیں۔

جوکمایا خرچ کردیا، علاج کے لیے رقم نہیں، کیا دکھڑا سناؤں، مجھ سے زیادہ دکھی روتے پھرتے ہیں۔ آنکھیں اشکبار ہوئیں تو یہ گنگناتےہوئے دل کا حال بیان کیا کہ ” جب بھی چاہیں ایک نئی صورت بنالیتے ہیں لوگ “۔ عظیم کامیڈین کا دل ریزہ ریزہ ہوچکا تھا۔

کبھی کبھار کوئی ٹی وی چینل یہ خبر شامل کرلیتا کہ اسٹیج کی دنیا کے ہرفن مولا کامیڈین ببوبرال کی صحت میں بہتری آنے لگی۔ پرستاروں سے دعائے صحت کی اپیل کی ہے۔ ایسے میں لاغر، کمزور اور نحیف ببو برال کی بستر علالت سے ایک ہنستی مسکراتی تصویر تو نشرکی جاتی لیکن اس ایک تصویر کے اندر چھپے ان گنت درد اور تکلیف کی جھلک نمایاں رہتی۔

ابھی ببو برال نے عمر کی پچاس بہاریں بھی نہیں دیکھی تھیں کہ پہلے جگر کےکینسر اور پھر گردوں اور شوگر کے امراض سے جنگ لڑنے لگے۔ اس علالت کے باوجود جہاں انہیں صحت اور وقت اجازت دیتا وہ کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر اپنے فن کا اظہار کرنے کے لیے ہر دم تیار رہتے۔

یہ بھی اپنی جگہ منفرد اعزاز ہی ہوگا کہ ایک ایسا فنکار جو کئی بیماریوں میں گھرا ہوا تھا جب جب پرستاروں کے لیے منظر عام پر آتا تو طنز و مزاح ایسے کرتا کہ ہنستی مسکراتی آنکھوں سے آنسو چھلک جاتے۔ پل بھر کو ببو برال بھی اپنی بیماریاں بھول بیٹھتے اور بچوں کی طرح داد ملنے پرچہرے کی خوشی اور مسرت دیکھنے سے تعلق رکھتی۔

بھلا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ گوجرانوالہ کے چھوٹے سے قصبے گکھڑ منڈی میں جنم لینے والا یہ باہمت نوجوان اپنے اصل نام ایوب اختر کی بجائے ببو برال سے کامیڈی کے افق پر جھلمائے گا۔ حس مزاح اور برجستہ مکالمہ بازی ایسی کہ ایک جملے پر آپ مسکراتے تو اگلا جملہ اس سے زیادہ کھکھلانے پر مجبور کردیتا۔

ببوبرال ابتدا سے حاضرجوابی اور شگوفہ بیانی میں اپنی مثال آپ تھے۔ 1982 میں گوجرانوالہ سے ہی اپنے سفر کی شروعات کی لیکن پھر احساس ہوا کہ اگر اپنے شہر تک محدود رہیں گے تو ممکن ہے کہ شہرت اور کامیابی سے کوسوں دور رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قسمت اور نام بنانے کے لیے لاہور کا رخ کیا۔ خوش نصیبی یہ ٹھہری کہ جمیل فخری سے ملاقات ہوگئی۔ جنہیں اس نوجوان کی برجستگی بھاگئی جبھی انہوں نے سب سے پہلے ببو برال کو اسٹیج پر موقع دیا۔

دیکھا جائے تو ببو برال نے اس ملنے والے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اسٹیج ڈراموں میں مستانہ، امان اللہ، خالد عباس ڈار اور سہیل احمد کی موجودگی کے باوجود اپنی جگہ خودبنائی۔ اسٹیج ڈراموں میں تماشائی ان لمحات کا بے چینی اور بے صبری سے انتظار کرتے جب ببو برال کی انٹری ہوتی۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھتا۔ ان کے ایک ایک جملے پر قہقہے ہی قہقہے ملتے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط بھی نہ ہوگا کہ ببو برال تن تنہا اسٹیج ڈراموں کا بوجھ اٹھانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ لیکن ان کی جوڑی مستانہ کے ساتھ خوب جچی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیشتر ڈراموں میں مستانہ کی موجودگی ہوتی تو دونوں کے درمیان ایسی برجستہ جملے بازی ہوتی کہ گھنٹوں ہال میں بس تالیاں ہی تالیاں بج رہی ہوتیں۔

یہ ہنرببو برال میں تھا کہ وہ ایک بہترین کامیڈین ہی نہیں گلوکار، ہدایتکار اور لکھاری بھی تھے۔

جس طرح عمر شریف کی زندگی میں ” بکرا قسطوں پے” سنگ میل بن گیا تھا۔ اسی طرح ببو برال کے لیے ” شرطیہ مٹھے ” وہ اسٹیج ڈرامہ ثابت ہوا جس نے ان کے کیرئیر کو ایک نئی شناخت دی۔

صرف یہی ڈرامہ کیا ان کا ” ٹوپی ڈرامہ، بیوی نمبر ون اور عاشقوں غم نہ کرنا” نے جیسے ان کی مقبولیت میں اور اضافہ کردیا۔ یہی وجہ ہے اسٹیج ڈراموں کی شہرت انہیں فلموں تک کھینچ لائی۔ کوئی پچاس کے قریب فلمیں ہیں جن میں ببو برال بطور کامیڈین شامل ہوئے۔ ان میں مجھے چاند چاہیے، نو پیسہ نو پرابلم، کڑیوں کو ڈالے دانا، نکی جئی ہاں سمیت کئی ہٹ فلمیں شامل ہیں۔ ان کی آخری فلم 2010 میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم” چناں سچی مچی” تھی۔

ہنستا مسکراتا یہ فن کار پاکستان ہی نہیں سرحد کے اس پار یعنی بھارت میں ہی مقبول رہا۔ جہاں کے کئی کامیڈی اسٹیج شوز میں انہوں نے اپنے فن کا اظہار کیا۔ ببوبرال نے بطور گلوکار اپنی آڈیو البم ’’بیتیاں رتاں‘‘ بھی ریلیز کی۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ہرفن مولا فنکار ہیں۔

دیکھا جائے تو ببو برال کا فنی سفر تین دہائیوں پر مبنی ہے۔ انہوں نے 30 سال تک سینکڑوں اسٹیج ڈراموں اور متعدد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اپنے غم اور دکھ درد کو بھلا کر ہر چہرے پر مسکان لانے کا سبب بنے۔ ببو برال کی خوبی یہ بھی تھی کہ اسٹیج پر قوالی بھی بہت اچھے انداز میں پیش کرتے اور اگر ان کے ساتھ انور علی، شوکی خان اور دوسرے فنکار ہوتے تو جیسے اس قوال میں رنگ بھر آتا۔

ببو برال کا یہ فنی سفر جاری تھا کہ 2009 کے آس پاس وہ کئی بیماریوں کا شکار ہونے لگے۔ شوگر ہوئی پھر گردے کے عارضے میں مبتلا ہوئے۔ اور کینسر بھی حملہ آور ہوا۔ ان بیماریوں نے اس ہنس مکھ فنکار کو جیسے مرجھا دیا۔ ڈاکٹروں نے گینگرین کی وجہ سے اُن کے بائیں پاؤں کی تین انگلیاں آپریشن کے ذریعے کاٹ دیں تھیں۔ جس کی وجہ سے انہیں چلنے پھرنے میں مشکل آتی۔ ڈاکٹروں نے اُن کی ٹانگ کاٹنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن غنودگی کی وجہ سے یہ آپریشن نہیں کیا جا سکا۔

ببو برال کے علاج کے لیے حکومتی سطح پر اعلانات تو بہت ہوئے لیکن اپنے اخباری انٹرویو میں انہوں نے بتادیا کہ یہ صرف ‘اعلانات’ کی حد تک محدود تھے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ فنکاروں کے حلقہ احباب نے بھی ان سے آنکھیں پھیر لیں۔ روایتی بے حسی کی وجہ سے ببو برال 16 اپریل 2011 کو خاموشی سے اس دنیا سے منہ موڑ گئے۔

یہ المناک داستان کا اختتام نہیں بلکہ ببو برال کی موت کے 8 سال بعد بعد ان کی صاحبزادی مریم پر بھی دکھوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ جنہوں نے لاہور کے مقامی تھانے میں یہ رپورٹ درج کرائی کہ شوہر ساقی خان مار پیٹ کرتا ہے، تشدد کے باعث وہ اپنا نومولود بیٹا بھی گنوا بیٹھی ہےجبکہ تشدد سے چہرے اور بازو پر نشانات بھی آئے ہیں۔ اور پھر رواں برس ببو برال کے بیٹے نبیل برال نے مالی امداد کے لیے حکومت سے اپیل کردی۔ مرحوم اداکار ببو برال کے بیٹے نبیل برال کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ جس میں نبیل برال کا ایک بازو نہیں اور دونوں ٹانگیں بھی زخمی ہیں۔ نبیل کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر کے کمانے والے اکلوتے مرد ہیں۔ والدہ اور بہنیں بھی ہیں۔ حکومتی اتھارٹی، این جی او یا کوئی اور مدد کرے۔ کیونکہ ان کا ایک بازو حادثے میں کٹ گیا تھا توہ وہ معزوری کا سامنا کررہے ہیں۔ دونوں ٹانگیں جلی ہوئی ہیں۔ چل پھر بھی نہیں سکتے۔ اب اسے بےحسی ہی کہیے کہ اب تک نبیل برال کی مدد کے لیے کسی نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

ببوبرال ساری عمر خود بھی دکھوں اور بیماریوں سے گھمسان کی جنگ لڑتے رہے اور اب ان کی اولاد بھی پریشانی اور مالی دشواریوں سے دوچار ہے۔ کامیڈین ببو برال کو گزرے کم و بیش تیرہ سال بیت گئے ہیں اور ان برسوں میں کوئی ایسا فنکار نہیں جو ان کا متبادل ثابت ہوسکے۔ آخر کسی فنکار کا کوئی متبادل ہو سکتا ہے، بھلا؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسٹیج ڈراموں ببو برال کی ببو برال کے نبیل برال کی وجہ سے انہوں نے برال نے برال کا تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے

دنیا کے نقشے پر اگرکہیں ظلم کی سب سے بھیانک اور خوفناک تصویر نظر آتی ہے۔ زمین کے نقشے پر اگرکوئی خطہ سب سے زیادہ زخم خوردہ ہے، اگر کہیں مظلومیت روز جیتی ہے اور انسانیت روز مرتی ہے، اگرکہیں معصوم بچوں کے کٹے پھٹے جسم انسانی ضمیرکو جھنجھوڑتے ہیں اور پھر بھی دنیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تو وہ فلسطین ہے۔

آج فلسطین صرف ایک سرزمین نہیں، بلکہ قیامت زدہ قبروں کا میدان ہے، جہاں بچوں کے جنازے روزانہ اٹھتے ہیں، جہاں عورتوں کی چیخیں دیواروں سے ٹکرا کر دم توڑ دیتی ہیں، جہاں ملبے تلے کچلی ہوئی زندگی کراہ رہی ہے اور جہاں پوری دنیا کی خاموشی انسانی تاریخ کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔

یہ صرف ایک قوم کا المیہ نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کی غفلت، بے حسی اور زوال کی تصویر ہے۔ آج غزہ صرف ملبے کا ایک ڈھیر نہیں، بلکہ تاریخ انسانی کی سب سے تاریک داستانوں میں سے ایک ہے، جو ہر باشعور انسان سے سوال کر رہی ہے۔ ’’کیا تم واقعی انسان ہو؟ ‘‘

غزہ پر پچھلے ڈیڑھ سال سے جو قیامت ٹوٹی ہے، اس نے ظلم اور وحشت کی ساری حدیں پار کردی ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آئے روز ہونے والے فضائی حملے، ٹینکوں کی گولہ باری، ڈرونز سے میزائل برسائے جانے اور زمین دوز بموں نے اس علاقے کو کسی کھنڈر میں بدل دیا ہے، جہاں زندگی باقی نہیں رہی، صرف موت کا راج ہے۔

غزہ کی گلیاں اب زندگی کی نہیں، موت کی تصویر ہیں۔ ہر طرف بکھری لاشیں، خون میں نہائے بچے، روتی بلکتی مائیں اورکھنڈرات میں چھپتے بے سہارا انسان، یہ سب کچھ ہمیں صرف ایک تصویر دکھاتے ہیں کہ انسانیت ہار چکی ہے۔

ہزاروں معصوم بچے جنھوں نے ابھی دنیا دیکھی بھی نہ تھی، دنیا چھوڑگئے۔ وہ بچے جو اسکول جانا چاہتے تھے،کتابوں سے دوستی کرنا چاہتے تھے، آج ان کی کتابیں خون میں لت پت ملبے تلے دبی پڑی ہیں۔ مائیں اپنے شیر خوار بچوں کے لاشے سینے سے لگائے بیٹھی ہیں اور دنیا کی بے حسی پر ماتم کر رہی ہیں۔ غزہ کے کئی علاقے مکمل طور پر نیست و نابود کردیے گئے ہیں۔

پورے محلے، بستیاں، سڑکیں، اسپتال، مساجد، اسکول اور یونیورسٹیاں ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ پینے کا صاف پانی ہے، نہ کھانے کو کچھ میسر، نہ دوا ہے، نہ علاج۔ بیمار مرتے ہیں، زخمی سسکتے ہیں اورکوئی مدد کو نہیں آتا۔

ظلم صرف غزہ میں نہیں ہو رہا، بلکہ فلسطین کے کئی علاقوں میں اسرائیلی فوجی گھروں میں گھس کر نہتے شہریوں کو مار رہے ہیں، نوجوانوں کو اغوا کیا جا رہا ہے، عورتوں کی بے حرمتی ہو رہی ہے اور مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر حملے معمول بن چکے ہیں۔

فلسطین پر ظلم کوئی نیا واقعہ نہیں۔ یہ ایک مسلسل کہانی ہے، جو پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت سے ہی فلسطینی قوم کو اپنی سرزمین سے بے دخل کیا گیا، ان کے گھروں پر قبضے کیے گئے، ان کی زمینیں چھینی گئیں اور ان کی نسل کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔

کبھی ’’نقب‘‘ کیمپوں میں، کبھی ’’ صبرا و شتیلا‘‘ میں، کبھی ’’جنین‘‘ اور کبھی ’’غزہ‘‘ میں۔ ہر جگہ اسرائیل نے ظلم کی نئی تاریخ رقم کی، لیکن جو کچھ گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہوا، وہ محض ظلم نہیں، بلکہ انسانیت کا جنازہ ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ فلسطین جلتا رہا، معصوم بچے مرتے رہے، عورتیں چیختی رہیں، بوڑھے کراہتے رہے، مگر مسلم دنیا کے حکمران اپنی کرسیوں سے ہلنے کو تیار نہیں۔

او آئی سی، جو کہ اسلامی تعاون تنظیم کہلاتی ہے، صرف بیانات تک محدود رہی۔ عرب لیگ کے اجلاس منعقد ہوئے، لیکن ان اجلاسوں میں صرف قراردادیں منظور ہوئیں، جن کا زمین پر کوئی اثر نہ پڑا۔ کہیں سے نہ تجارتی بائیکاٹ ہوا، نہ سفارتی دباؤ، نہ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمات دائرکیے گئے۔

یہاں تک کہ مسلم دنیا اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ پر بھی متحد نہ ہو سکی۔ کیا یہ ہمارے ایمان کی کمزوری نہیں؟ کیا یہ ہمارے ضمیرکی موت نہیں؟جہاں مسلم حکمرانوں کی بے حسی شرمناک ہے، وہیں عالمی طاقتوں کا کردار اور بھی زیادہ مجرمانہ ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو مہلک ہتھیار فراہم کیے، اس کی ہر ظلم کی پشت پناہی کی اور اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کے حق میں آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ انصاف کے نہیں، مفادات کے علمبردار ہیں۔

برطانیہ، جرمنی، فرانس جیسے ممالک جو انسانی حقوق کے علمبردار بنتے ہیں، وہ بھی اسرائیل کی صف میں کھڑے نظر آئے۔ اقوام متحدہ، جو امن و انصاف کا عالمی ادارہ کہلاتا ہے، فلسطین کے معاملے میں محض تشویش، افسوس اور فوری جنگ بندی کی اپیل جیسے کمزور الفاظ سے آگے نہ بڑھ سکا۔

یہ ادارہ اگر شام، لیبیا، یوکرین یا کسی اور مغربی مفادات سے جڑے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر متحرک ہو سکتا ہے تو فلسطین کے معاملے میں اتنا بے بس کیوں ہے؟ کیا فلسطینی انسان نہیں؟ کیا ان کے خون کی قیمت کم ہے؟ یہ سب دیکھ کر دل چیخ اٹھتا ہے کہ کیا انسانیت واقعی مر چکی ہے؟ کیا اب دنیا صرف طاقتور کے حق کو تسلیم کرتی ہے؟ کیا اب معصوم بچوں کی لاشیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں رہیں؟

اس وقت پوری دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہمیں ایک عظیم سبق دے رہا ہے کہ صرف جذباتی تقریریں، روایتی احتجاج اور سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ چلانا کافی نہیں۔ اب وقت ہے کہ مسلم دنیا اپنے وسائل، اپنی طاقت، اپنی وحدت کو یکجا کرے۔

وہ ملت جو ڈیڑھ ارب سے زیادہ افراد پر مشتمل ہو، جس کے پاس بے پناہ دولت، افرادی قوت اور وسائل ہوں، وہ اگر متحد نہ ہو تو اس کا بہت بڑا جرم ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم نے فلسطینیوں کے لیے کیا کیا؟ ہم میں سے ہر فرد جواب دہ ہے۔

کیا ہم نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا؟ کیا ہم نے اپنے حلقے میں شعور اجاگرکیا؟ کیا ہم نے مظلوموں کے لیے دعا بھی کی؟ کیا ہم نے ان کے حق میں آواز بلند کی؟ کیا ہم نے قلم اٹھایا؟ کیا ہم نے بچوں کو بتایا کہ فلسطین کیا ہے؟ اگر ہم نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کیا، اگر ہم نے سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کے حق میں آواز نہیں اٹھائی، اگر ہم نے اپنی اولاد کو فلسطین کی حقیقت نہیں بتائی تو ہم بھی مجرم ہیں۔

خاموشی بھی ظلم کا ساتھ دینا ہے اور ظلم کے سامنے خاموش رہنے والا بھی ظالم کے جرم میں شریک ہوتا ہے۔ آج فلسطین ملبے تلے صرف معصوم انسانوں کی لاشیں نہیں دفن ہو رہیں، بلکہ انسانیت کی روح بھی کچلی جا رہی ہے، اگر آج ہم نے آنکھیں بند رکھیں، زبانیں بند رکھیں، ہاتھ روک لیے اور ضمیر کو سلا دیا تو کل جب ہماری باری آئے گی تو کون ہمارے لیے بولے گا؟ کون ہمارا پرسان حال ہوگا؟ یہ وقت محض تماشائی بنے رہنے کا نہیں، عملی اقدامات کا ہے۔ یہ وقت بیدار ہونے کا ہے۔ آج ہم خاموش رہے تو کل تاریخ ہم پر بھی خاموشی کا پردہ ڈال دے گی۔ آج غزہ ختم ہو رہا ہے، کل بیت المقدس پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ ظلم کو آج نہ روکا گیا تو یہ کل ہم سب کو نگل لے گا۔

متعلقہ مضامین

  • عورتیں جو جینا چاہتی تھیں
  • پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں بات چیت ہوسکے، فضل الرحمان
  • پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات واپس اسی سطح پر لانا چاہتے ہیں جہاں مشترکہ امور پر بات ہوسکے، فضل الرحمان
  • عمران خان کو انگریز کا ایجنٹ کہنا نظریاتی بات تھی، پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا چاہتے ہیں، فضل الرحمان
  • بجلی
  • ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں تمام شہریوں کو مساوی حقوق ملیں، بلاول بھٹو
  • پی پی سے معاملات کا حل افہام و تفہیم سے چاہتے ہیں، عطا تارڑ
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے
  • ایف آئی آر کی کہانی