پاک امریکہ تعلقات: ایک نیا موڑ یا پرانی حکمت عملی کی واپسی؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
کیا ہو رہا ہے؟پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ سے ہی پیچیدہ مگر باہمی دلچسپیوں پر مبنی رہے ہیں۔ کبھی یہ تعلقات دوستی اور تعاون کی معراج پر ہوتے ہیں تو کبھی شک اور بداعتمادی کی دھند میں لپٹے دکھائی دیتے ہیں۔ آج ایک بار پھر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ لیکن اس دفعہ منظرنامہ روایتی سے کچھ مختلف ہے۔
جب 2025 ء کے آغاز میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ امریکی صدارت کا منصب سنبھالا تو دنیا کو ایک بار پھر امریکہ کی جارح مزاج اور واضح ترجیحات والی خارجہ پالیسی ملی۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے ہی خطاب میں افغانستان سے بگرام ایئر بیس واپس لینے اور وہاں چھوڑا گیا اسلحہ اور جنگی ساز و سامان واپس لانے کا اعلان کیا۔ بظاہر یہ ایک سادہ اعلان تھا مگر اس کے پیچھے چھپی حکمت عملی نے خطے کے ماہرین کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔بگرام کی واپسی کا مطلب صرف افغانستان میں موجودگی نہیں بلکہ ایک وسیع تر پلان کا عندیہ تھا۔ایسا پلان جس میں امریکہ نہ صرف افغانستان بلکہ ایران، چین اور روس جیسی طاقتوں کو قریب سے مانیٹر اور ممکنہ حد تک قابو میں رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت ایک بار پھر مرکزی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
صدر ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے کچھ ہی دن بعد امریکہ کا ایک اعلیٰ سطحی انویسٹمنٹ وفد پاکستان پہنچا۔ اس وفد کی قیادت ٹیکساس ہیج فنڈ کے منیجر اور ٹرمپ خاندان کے قریبی بزنس پارٹنر جینٹری بیچ نے کی۔ دورے کے دوران پاکستان اور امریکہ کے درمیان مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے معاہدے طے پائے جن میں توانائی، ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر اور زراعت کے شعبے شامل تھے۔یہ دورہ محض ایک سرمایہ کاری مشن نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے سفارتی، اقتصادی اور دفاعی حکمت عملی کا ایک گہرا تناظر موجود تھا۔ابھی حال ہی میں امریکی کانگریس کے ایک تین رکنی وفد نے اسلام آباد کا دورہ کیا۔ اس وفد میں نمایاں نام جوناتھن جیکسن، جیک برگ مین اور ٹام سوازی کے ہیں۔ ٹام سوازی امریکہ کی آرمڈ فورسز ملٹری یونٹ میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں جس سے ان کی عسکری بصیرت اور اسٹرٹیجک سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ محض رسمی سفارتی دورہ نہیں بلکہ ایک اسٹرٹیجک مشن ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق اس دورے کا مقصد معاشی تعاون، تجارتی مواقع، دفاعی اور عسکری تعلقات، تعلیم، ٹیکنالوجی، اور سرمایہ کاری جیسے شعبوں میں گفتگو کرنا ہے۔
پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ہمیشہ سے دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے کشش کا باعث رہی ہے۔ ایک طرف افغانستان، دوسری طرف ایران، تیسری طرف چین اور شمال میں روس۔ایسے میں پاکستان کی سرزمین امریکہ کے لیے ایک خواب کی تعبیر بن سکتی ہے، خاص طور پر اگر وہ اس خطے میں دوبارہ کسی قسم کی فوجی موجودگی قائم کرنا چاہتا ہے۔اگرچہ پاکستان نے ماضی میں ’’ڈو مور‘‘ کے دبائو کا سامنا بھی کیا ہے مگر اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان ایک واضح اور متوازن خارجہ پالیسی مرتب کرے جو قومی خودمختاری، علاقائی امن، اور اقتصادی استحکام کی ضمانت دے۔پاکستان کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ افغانستان، امریکہ، چین، روس اور ایران جیسے ممالک کے درمیان کس طرح توازن برقرار رکھتا ہے۔ امریکہ کی قربت سے اقتصادی فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ چین ، ایران اور روس کی ناراضگی مول لینا ممکنہ طور پر مہنگا سودا بھی بن سکتا ہے۔امریکی کانگریس کے حالیہ دورے، سرمایہ کاری وفود کی آمد، اور صدر ٹرمپ کی پالیسیوں سے واضح ہے کہ پاکستان ایک بار پھر عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ مگر اب پاکستان وہ نہیں جو پہلے تھا۔ اگر پاکستان نے دانشمندی، تدبر اور خودداری کا مظاہرہ کیا تو یہ وقت پاکستان کی تاریخ کا ایک نیا، سنہرا باب بن سکتا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ اگرچہ اتار چڑھائو سے بھرپور رہی ہے مگر ہر موڑ پر یہ تعلقات عالمی سیاست کی دھڑکنوں کے عین مطابق بدلتے رہے ہیں۔ کبھی یہ اتحاد جنگی حکمت عملیوں کی بنیاد پر قائم ہوا تو کبھی صرف سفارتی رسموں تک محدود رہا۔ مگر حالیہ چند ہفتوں میں جس تیزی سے پاکستان میں امریکی وفود کی آمد ہوئی ہے وہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک گہرے اور باقاعدہ منصوبے کی عکاسی کرتی ہے۔ ان غیر معمولی حرکات نے سیاسی و عسکری تجزیہ کاروں کو ایک بار پھر اس بحث میں ڈال دیا ہے کہ کیا امریکہ ایک مرتبہ پھر جنوبی ایشیا میں اپنی موجودگی کو بڑھانے کے لیے پر تول رہا ہے؟
جب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2025 ء کے آغاز میں دوسری مدت کے لیے امریکی صدر کا منصب سنبھالا ہے عالمی سیاست میں ایک واضح تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے جارحانہ اور یک طرفہ رہی ہے۔
امریکی وفدکے حالیہ دورے کا شیڈول اور دائرہ کار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ پاکستان میں صرف سفارتی دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ وہ سٹریٹیجک سطح پر تعلقات کو ازسرنو ترتیب دینے کی کوشش کر رہا ہے۔اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا تو پاکستان نہ صرف ایک علاقائی طاقت کے طور پر ابھر سکتا ہے بلکہ بین الاقوامی برادری میں بھی اپنی قدر و قیمت میں اضافہ کر سکتا ہے۔ مگر اگر ہم نے یہ موقع گنوا دیا تو ایک بار پھر ہم عالمی طاقتوں کی شطرنج کا مہرہ بن کر رہ جائیں گے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان اور امریکہ کے سرمایہ کاری ایک بار پھر پاکستان کی سکتا ہے رہا ہے رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ انتظامیہ چین سے تجارتی تعلقات محدود کرنے کے لیے مختلف ممالک پر دباﺅ ڈال رہی ہے.بیجنگ کا الزام
بیجنگ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 )چین نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ دوسرے ممالک پر دباﺅ ڈال رہی ہے کہ وہ چین کے ساتھ تجارت محدود کر دیں اور بدلے میں انہیں امریکی کسٹم ٹیرف میں چھوٹ مل جائے گی بیجنگ حکومت نے اس پالیسی کو مسترد کر دیا ہے. چین کی وزارتِ تجارت نے پیر کے روز واضح کیا کہ وہ ان تمام فریقوں کا احترام کرتی ہے جو امریکہ کے ساتھ اپنے اقتصادی و تجارتی تنازعات کو برابری کی بنیاد پر بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسی کسی بھی ڈیل کی سخت مخالفت کرے گی جو چین کے مفادات پر ضرب لگائے.(جاری ہے)
وزارت کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر کوئی ملک ایسی ڈیل کرتا ہے جس کا مقصد چین کے ساتھ تجارتی روابط محدود کرنا ہو، تو چین اس کے خلاف موثر اور متبادل اقدامات کرے گا . ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے اپنے تمام تجارتی شراکت داروں پر کسٹم ٹیرف کے نام پر یک طرفہ طور پر دباﺅ ڈالا ہے اور انہیں جبراایسے مذاکرات میں گھسیٹا ہے جنہیں وہ باہمی ٹیرف مذاکرات کا نام دے رہے ہیں چینی وزارت تجارت کے ترجمان نے کہا کہ چین اپنے قانونی حقوق اور مفادات کے دفاع کے لیے پرعزم اور مکمل طور پر اہل ہے اور وہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اتحاد و تعاون کو فروغ دینے کے لیے بھی تیار ہے. چین کایہ سخت موقف”بلومبرگ“کی اس رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایسے ممالک پر مالی پابندیاں عائد کرنے کا سوچ رہی ہے جو امریکہ سے کسٹم ٹیرف میں رعایت کے بدلے چین کے ساتھ تجارتی روابط کم نہیں کریں گے . یاد رہے کہ امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر نے رواں ماہ کے آغاز میں بتایا تھا کہ تقریباً 50 ممالک نے امریکہ سے رابطہ کر کے اضافی کسٹم ٹیرف پر بات چیت کی خواہش ظاہر کی ہے واضح رہے کہ ٹرمپ نے 2 اپریل کو دنیا بھر کے دسیوں ممالک پر عائد تاریخی کسٹم ٹیرف کا نفاذ روک دیا تھا البتہ چین پر عائد ٹیرف برقرار رکھا تھا جو کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے.