اسلام آباد: وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے نیشنل ہاؤسنگ پالیسی 2025 کا پہلا مسودہ متعارف کروا دیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے پالیسی اینڈ پلاننگ ونگ نے نیشنل ہائوسنگ پالیسی 2025 کے پہلے مسودے کو متعارف کروادیا ہے۔ مسودہ 2001 ء میں اعلان کی گئی موجودہ ہاؤسنگ پالیسی پر جامع نظر ثانی کے بعد متعارف کروایا گیا ہے۔
اس پالیسی کو تمام بڑے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور انکے ان پٹ کو شامل کرکے پیش کرنے کی وسیع کوششیں کی گئی ہے جو اکیڈمیا، ہاؤسنگ ماہرین اور صوبائی محکموں کی شمولیت سے ترتیب دیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے پر ماہرین کے دو ورکنگ گروپس نے موجودہ پالیسی میں خلاء کی نشاندہی کے لیے فوکس گروپ کے تفصیلی مباحثوں میں حصہ لیا۔ بعد میں ان کی سفارشات کو پالیسی کے تفصیلی مسودے میں ضم کیا گیا ہے۔
نئی ہاؤسنگ پالیسی کا مقصد بڑے پیمانے پر شہری نقل مکانی اور کچی آبادی والے علاقوں پر مبنی غیر منصوبہ بندی کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بے ہنگم نمو کے پیچھے عوامل کو اجاگر کرنا ہے۔ پالیسی میں موجودہ ہاؤسنگ بحران کا خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے جس کا اندازہ ملک میں 10 ملین ہاؤسنگ یونٹس کی کمی اور رہائش کے اجزاء کی لاگت میں اچانک بہت زیادہ اضافے کے ساتھ مالی رکاوٹوں کے طور پر لگایا گیا ہے۔
ہاؤسنگ پالیسی کا وژن یہ ہے: “سب کے لئے مناسب، سستی اور پائیدار رہائش”۔ اس میں نو تھیم ایریاز پر فوکس کیا گیا ہے اور طلب و رسد کے فرق کی نشاندہی اور مائیکرو فنانسنگ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے پالیسی اقدامات اور اصلاحات پیش کی گئی ہیں، مقامی طور پر تیار کردہ مٹیریل پر انحصار، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، اربن ری جنریشن، بہترین کوآرڈینیشن اور صلاحیت کو بڑھانے پر بھی توجہ مرکوز کی جائے گی۔
وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس میاں ریاض حسین پیرزادہ نے آئندہ پالیسی مسودے پر حتمی بریفنگ حاصل کرنے کے لئے آج ایک اجلاس کی صدارت کی۔ جس میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ ہاؤسنگ سیکٹر میں درپیش چیلنجز بنیادی طور پر ناقص منصوبہ بندی اور چھوٹے شہروں میں ضروری سہولتوں کے فقدان کے باعث ہیں۔ یہ عنصر بڑے پیمانے پر شہری نقل مکانی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے جس کی وجہ سے زرخیز زرعی اراضی کا بہت بڑا نقصان ہوتا جا رہا ہے۔
اجلاس کے دوران ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ زراعت خوراک کی پیداوار کا بڑا ذریعہ ہے اور غیر منصوبہ بندی کی ہاؤسنگ سوسائٹیز اس شعبے پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ضلعی اور بلدیاتی سطح پر درست اعداد و شمار کو برقرار رکھنا بہتر منصوبہ بندی اور آئندہ ہاؤسنگ اسکیموں کے لئے زمین کی ازسر نو تعمیر کے لئے لازمی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
وزیر نے اس پالیسی میں منصوبہ بندی اور نفاذ کی اہم ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم باضابطہ تحقیق اور ڈیٹا بیس کے تجزیہ کی بنیاد پر بامقصد منصوبہ بندی میں بہت پیچھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بااختیار بنانے اور مقامی حکومتوں کو شامل کرنے سے ملک میں حالیہ ہاؤسنگ کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
مزید برآں وزیر نے کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد ، رہائش صوبوں کی کلیدی ذمہ داری ہے۔ وفاقی وزارت کا کردار قومی پالیسی کے ذریعے رہنما اصول فراہم کرنا ہوگا جہاں سے صوبائی محکمے آگے کا لائحہ عمل تیار کریں گے۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ہم پورے ملک کے لئے رہائش کے کسی ایک ماڈل کی سفارش نہیں کر سکتے بلکہ صوبائی حکومتیں پالیسی پر عمل درآمد اور ریگولیشن کریں گی اور وہ ہر علاقے کے نباتات و حیوانات اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ریجن کے لیے مخصوص، پائیدار ہاؤسنگ ماڈل کا انتخاب کریں گی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ہاؤسنگ پالیسی انہوں نے کی گئی گیا ہے کے لئے
پڑھیں:
پہلا سسٹین ایبل انویسٹمنٹ سکوک بانڈ جاری کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد:حکومت نے صاف انرجی کے تین منصوبوں کی فنانسنگ کے لیے پاکستان کا پہلا سسٹین ایبل انویسٹمنٹ ایسٹیس بیکڈ سکوک بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اس سکوک بانڈ کے ذریعے حکومت صاف توانائی کے منصوبوں کے لیے مقامی مارکیٹ سے سرمایہ جمع کرے گی، صاف توانائی کے ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے حکومت کو 52 ارب روپے کی ضرورت ہے۔
بانڈز نئے منظور شدہ سسٹین ایبل انویسٹمنٹ سکوک فریم ورک کے تحت جاری کیے جائیں گے، جس کی منظوری کابینہ نے رواں ماہ ہی دی ہے، وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق ان پہلے سکوک کا حجم 30 ارب روپے تک ہوسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: اجارہ سکوک بانڈز کی نیلامی سے 573 ملین روپے کی بچت
حکام کے مطابق ابتدائی طور پر وزارت خزانہ بلوچستان میں گروک اسٹوریج ڈیم، سندھ میں نائگاج ڈیم اور اسکردو میں شگرتھنگ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے فنڈز فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
یہ منصوبے پہلے ہی زیر تعمیر ہیں اور حکومت کو کام کی تکمیل کے لیے مزید 52 ارب روپے درکار ہوں گے۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے ضلع خاران میں واقع گروک ڈیم کی لاگت 28 ارب روپے کے لگ بھگ ہو گئی ہے، جس کی وجہ کام کی تکمیل میں تاخیر اور کام کے دائرہ کار میں اضافہ ہے، حکومت کو کام مکمل کرنے کے لیے مزید 5 ارب روپے درکار ہیں۔
مزید پڑھیں: سکوک بانڈز کے ذریعے حکومتی توقعات سے 16گنا زیادہ سرمایہ فراہم
اسی طرح سندھ کے خیرپور ناتھن شاہ میں نائی گج ڈیم کے منصوبے کی لاگت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اس کا افتتاح پہلی بار 2005 میں کیا گیا تھا، باقی کام کی تکمیل کے لیے حکومت کو 22 ارب روپے درکار ہیں۔
حکومت نے شگرتھنگ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی بھی منظوری دے دی ہے اور اسکردو شہر اور اس کے ملحقہ علاقوں کو بجلی فراہم کرنے کے لیے 26 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے 25 ارب روپے کی فنڈنگ درکار ہے۔
وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ گرین سکوک، سوشل سکوک اور سسٹین ایبل سکوک کا اجراء ایک منفرد اور قابل عمل فنانسنگ میکانزم پیش کرتا ہے جو اسلامی مالیاتی اصولوں کے مطابق ہے اور مؤثر منصوبوں کیلیے ضروری سرمایہ جمع کرتا ہے۔