WE News:
2025-04-22@07:28:11 GMT

جنگ  میں سب کچھ جائز نہیں ہوتا!

اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT

معاصر اصطلاح میں جسے ’بین الاقوامی قانون‘ کہا جاتا ہے، وہ یورپ میں ’قومی ریاستوں کے نظام‘ (nation-state system)  کی تخلیق ہے ۔ اس لیے اس کی تاریخ بہت مختصر ہے۔

بین الاقوامی قانونِ جنگ کی تاریخ

جنگ سے متعلق بین الاقوامی قانون کےلیے جس معاہدے کو ایک طرح سے نقطۂ آغاز سمجھا جاتا ہے، وہ 1864ء  کا جنیوا معاہدہ ہے جس کے ذریعے یورپی اقوام نے آپس میں یہ طے کرلیا کہ جنگ میں زخمی ہونے والوں کی دیکھ بھال کی جائے گی اور اس مقصد کے لیے جنگ میں غیر جانب دار بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کو اپنا کام کرنے کے لیے ممکنہ سہولیات  فراہم کی جائیں گی۔

اسی دور کے لگ بھگ امریکی خانہ جنگی  کے تناظر میں امریکی فوج کے لیے تیار کیے گئے ضابطے ’لِیبر کوڈ‘ کا بھی خصوصاً ذکر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں جاری کیے گئے ’اعلان‘ کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس میں قرار دیا گیا کہ ’جنگ کا واحد جائز مقصد فریقِ مخالف کو شکست دینا ہے، نہ کہ اسے ملیا میٹ کرنا‘۔

بین الاقوامی قانونِ جنگ کے ارتقا میں ہیگ میں 1899ء اور 1907ء میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں کا کردار بھی بہت اہم ہے کیونکہ ان کانفرنسوں کے ذریعے کوشش کی گئی کہ بین الاقوامی عرف اور تعامل سے اصول مستنبط کرکے انھیں باقاعدہ معاہدات کی صورت میں مدوَّن کیا جائے۔ پہلی جنگِ عظیم (1914ء-1918ء) میں جب پہلی دفعہ ہزاروں کی تعداد میں جنگی قیدیوں کا مسئلہ سامنے آیا، تو 1929ء میں ایک اور جنیوا معاہدہ طے پایا جس میں جنگی قیدیوں کے متعلق قانونی اصول ذکر کیے گئے۔

دوسری جنگِ عظیم (1939ء-1949ء) کے بعد ایک تفصیلی ڈپلومیٹک کانفرنس کے بعد 4 ضخیم جنیوا معاہدات طے پائے جنھیں اب قانون کے اس شعبے کے بارے میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ان میں پہلا جنیوا معاہدہ بری جنگ میں زخمی، بیمار یا معذور ہونے والے فوجیوں کے حقوق سے متعلق ہے جبکہ دوسرا جنیوا معاہدہ بحری جنگ میں زخمی، بیمار یا معذور ہونے والے فوجیوں کے حقوق کے بارے میں ہے۔ تیسرا جنیوا معاہدہ جنگی قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے اور چوتھا جنیوا معاہدہ جنگ کے دوران میں غیر مقاتلین اور عام شہریوں کے تحفظ اور مقبوضہ علاقوں کے متعلق امور کے لیے ہے۔ ان 4 معاہدات کے ساتھ 1977ء میں 2  مزید معاہدات ملحق کیے گئے جنھیں ’اضافی پروٹوکول‘  کہا جاتا ہے۔ ان معاہدات کے ذریعے عام شہریوں کے تحفظ کے لیے مزید پیش رفت ہوئی۔ کئی دیگر معاہدات کے ذریعے ہتھیاروں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ دیگر موضوعات (جیسے جنگ کے دوران میں تاریخی اور ثقافتی ورثے کی حفاظت) پر بھی معاہدات کے ذریعے قانون سازی کی گئی ہے۔ان معاہدات کے علاوہ ریاستوں کے تعامل اور عرف سے بھی بین الاقوامی قانون کے اس شعبے سے متعلق اہم اصول معلوم ہوتے ہیں۔

تفہیم میں آسانی کی خاطر آداب القتال کے بین الاقوامی قانون کو 2 بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:

ایک، ’قانون جنیوا‘ جو مسلح تصادم سے متاثر ہونے والے افراد کا تحفظ کرتا ہے؛ ان افراد میں عام شہری، زخمی، بیمار اور معذور جنگجو اور جنگی قیدی، نیز مقبوضہ علاقوں کے رہنے والے شامل ہیں؛ اور

دوسری قسم کو ’قانون ہیگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ قانون جنگ کے طریقوں اور ہتھیاروں کی تحدید کرتا ہے ۔

اس قانون کا اطلاق کب ہوتا ہے؟

اس قانون کا اطلاق ’مسلح تصادم‘ پر ہوتا ہے۔ چنانچہ جس صورتِ حال کو مسلح تصادم نہ کہا جاسکے، اس پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ 1949ء کے 4 جنیوا معاہدات میں یہ بنیادی اصول ذکر کیا گیا ہے کہ جب کسی ریاست کی جانب سے جنگ کا اعلان ہو، تو جنیوا معاہدات اور دیگر قوانین کا اطلاق ہوتا ہے، خواہ عملاً ایک گولی بھی نہ چلائی گئی ہو، اور خواہ جنگ میں حصہ لینے والی ریاستوں میں کوئی ریاست حالتِ جنگ سے انکاری ہو۔  مزید قرار دیاگیا ہے کہ جب کسی ریاست پر قبضہ ہو تو اسے مسلح تصادم کے مفہوم میں شامل سمجھا جاتا ہے اور مسلح تصادم کی یہ صورت اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک قبضہ برقرار ہے۔

مقبوضہ یا استعماری تسلط کے تحت علاقوں (Occupied or Colonial Territories) میں کی جانے والی مسلح مزاحمت کو قابض یا استعماری ریاست کا ’اندرونی معاملہ‘ نہیں کہا جاسکتا  کیونکہ یہ قانون اسے ’بین الاقوامی مسلح تصادم‘ قرار دیتا ہے ۔ یہی اصول ان علاقوں کے لیے ہے جن کےلیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے آزادی کا حق تسلیم کرلیا ہو۔ نیز پہلے اضافی پروٹوکول نے آزادی کی جنگ لڑنے والوں کےلیے ’مقاتل‘ (combatant) کی حیثیت بھی تسلیم کی ہے اور یہ بھی قرار دیا ہے کہ مخالف فریق کی قید میں آنے پر ان کو ’جنگی قیدی‘ کی حیثیت حاصل ہوگی۔ جنگی قیدی وہ ہوتے ہیں جنھیں سزا کے طور پر قید نہ کیا گیا ہو، بلکہ جنگ میں مزید حصہ لینے سے روکنے کےلیے قید کیا گیا ہو، اور جنگ کے خاتمے پر انھیں آزاد کرانا لازم ہوتا ہے۔ انھیں صرف قانونِ جنگ کی خلاف ورزی پر سزا دی جاسکتی ہے، اور وہ بھی باقاعدہ مقدمہ چلا کر اور صفائی کا پورا موقع دینے کے بعد۔

جنیوا معاہدات کی صرف دفعہ 3 ، جو ان چاروں معاہدات میں مشترک ہے ، کا اطلاق کسی ملک کے اندر مسلح تصادم، یعنی خانہ جنگی یا بغاوت، پر بھی ہوتا ہے۔  تاہم کسی ریاست کے اندر حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو ’مسلح تصادم‘  نہیں کہا جاسکتا، خواہ وہ مظاہرے پُرتشدد بھی ہوں ۔ البتہ بعض علامات ایسی ہیں جن کی بنا پر ایسی صورتحال کو ’امن و امان کا مسئلہ‘ قرار دینے کے بجائے مسلح تصادم کہا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ کسی علاقے میں اپنی حکومت قائم کرلیں اور مرکزی حکومت کی باقاعدہ مزاحمت کریں؛ یا’شر پسندوں ‘ سے نمٹنے کے لیے حکومت نے فوج کو باقاعدہ تمام اختیارات دے دیے ہوں ؛ یا مزاحمت کا سلسلہ ایک طویل عرصے پر محیط ہوجائے ؛ یا مزاحمت میں ہونے والا جانی و مالی نقصان بہت زیادہ ہو؛ یا حکومت خود تسلیم کرلے کہ یہ محض امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے ۔

اس قانون کے بنیادی اصول

مسلح تصادم پر لاگو ہونے والے قانون کی تفصیلات تو بہت ہیں، لیکن ان تفصیلات کوچند بنیادی اصولوں کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔

اس  قانون کا اولین اور بنیادی اصول ’انسانیت‘ ہے۔ یہ قانون قرار دیتا ہے کہ جنگ کے دوران میں بھی انسانیت کی حدود کی پابندی لازم ہے ۔ مثال کے طور پر اگر لڑنے والا ہتھیار ڈال دے، یا زخمی ہوجائے ، یا معذور ہوجائے ، یا کسی اور وجہ سے جنگ سے باز آجائے (hors de combat)، تو پھر اس پر حملہ ناجائز ہوجاتا ہے۔

اسی اصول کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر ’تمییز‘ (distinction) کا بنیادی اصول مانا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حملے کے دوران میں جائز اور ناجائز ہدف میں فرق کیا جائے ۔ چنانچہ دشمن کے فوجی ٹھکانوں پر حملہ جائز ہے، جبکہ شہری آبادی ، اسپتالوں ، اسکولوں ، بازاروں اور عبادت گاہوں پر حملہ ناجائز ہے۔ اسی طرح ایسے حملے ناجائز ہیں جن میں فوجی اور غیر فوجی دونوں کے نشانہ بننے کا احتمال ہو۔ اسی اصول پر ایسے ہتھیاروں کا استعمال بھی ناجائز ہے جن کا اثر صرف دشمن کے فوجیوں تک ہی محدود نہ ہو ، مثلاً کیمیائی ہتھیار۔

تاہم  اگر جنگی حملے میں انسانیت اور تمییز کے اصولوں کی پابندی کی گئی ہو اور غیر مقاتلین کو دانستہ ہدف نہ بنایا گیا ہو، بلکہ حملے کو مقاتلین تک محدود رکھنے کےلیے ہر ممکن احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہو، تو یہ قانون جنگ ایسے حملے کو جائز قرار دیتا ہے، خواہ اس کے نتیجے میں بعض غیر مقاتلین نادانستہ طور پر نشانہ بن جائیں۔ اسے فوجی ضرورت (military necessity) کا اصول کہتے ہیں۔ ایسے حملوں میں عام شہریوں کو پہنچنے والے ضرر کو  ’ضمنی نقصان‘ (collateral damage) کے طور پر برداشت کیا جاتا ہے۔

فوجی ضرورت کے اس اصول کو انسانیت اور تمییز کے اصولوں کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے، تو نتیجے کے طور پر’تناسب کا اصول‘ سامنے آجاتا ہے ۔ اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ جنگ میں دشمن کو صرف اتنا ہی نقصان پہنچایا جائے جتنا اس کے حملے کی پسپائی، یا اس پر فتح کے حصول، کے لیے ضروری ہو۔ گویا جنگ کا مقصد دشمن کا صفایا کرنا (extermination) نہیں ہونا چاہیے۔ اس اصول کی بنیاد پر ایسے ہتھیاروں یا طریقوں کا استعمال بھی ناجائز ہوجاتا ہے جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائیں ، یا جو غیر ضروری اذیت دیں ، خواہ ان کا استعمال دشمن کے فوجیوں پر ہی ہو۔

بین الاقوامی قانون نے بالعموم 2ریاستوں کے مابین تعلقات کے ضمن میں ’برابر کے بدلے‘ (reprisal) کے اصول کو تسلیم کیا ہے، لیکن حملے کے ہدف کےلیے اس اصول کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ چنانچہ اگر ایک فریق عام شہریوں کو نشانہ بنائے، تب بھی دوسرے فریق کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ جواباً  پہلے فریق کے عام شہریوں کو نشانہ بنائے۔ اگر اس نے ایسا کیا، تو یہ اسی طرح کا جرم ہوگا جیسے فریق اول کا فعل جرم تھا ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قانون کا ایک اور مسلمہ اصول ’جرم کے ارتکاب کے لیے انفرادی ذمہ داری‘ (Individual Criminal Responsibility) ہے ۔ اس اصول کے مطابق ہر فرد اس قانون کی خلاف ورزی کے لیے انفرادی طور پر ذمہ دار ہے۔ مثال کے طور اگر کسی کمانڈر کے حکم کی اطاعت میں ماتحتوں نے کسی عبادت گاہ پر حملہ کرکے اسے مسمار کردیا، تو ماتحت یہ عذر نہیں پیش کرسکتے کہ وہ اس مجرمانہ فعل کے ارتکاب پر مجبور تھے کیونکہ ان پر لازم تھا کہ وہ اپنے کمانڈر کا حکم مانیں ۔ اگر عدالت میں ثابت کیا گیا کہ ماتحت عملاً اس کام پر مجبور تھے اور انھوں نے نہ چاہتے ہوئے اس کام کا ارتکاب کیا، تب بھی وہ سزا سے نہیں بچ سکیں گے ۔ البتہ اس بنیاد پر ان کی سزا میں تخفیف کی جاسکے گی ۔ اسی طرح کمانڈر اپنے تمام افعال کے لیے بھی ذمہ دار ہوتا ہے اور اپنے ماتحتوں کے افعال کے لیے بھی۔ پس اگر کسی کمانڈر کے ماتحتوں نے کسی علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں کی آبادی پر مظالم ڈھائے، تو کمانڈر لاعلمی کا عذر نہیں پیش کرسکتا۔

پس جنگ میں ’سب کچھ‘ جائز نہیں ہے ، بالکل اسی طرح جیسے محبت میں بھی ’سب کچھ‘جائز نہیں ہوتا ؛ یقین نہیں، تو کرکے دیکھ لیں!

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی قانون جنیوا معاہدہ کے دوران میں بنیادی اصول اس قانون کا عام شہریوں معاہدات کے ہونے والے جائز نہیں کے طور پر کے ذریعے کا اطلاق یہ قانون قانون کے قرار دیا اس اصول پر حملہ نہیں ہے کیا گیا جاتا ہے کیے گئے ہوتا ہے جنگ کے کی گئی کے بعد کے لیے کہ جنگ گیا ہے ہے اور

پڑھیں:

 قانون کی حکمرانی ہوتی تو ہمارے رہنما جیل میں نہ ہوتے :  عمرایوب

اسلام آباد(اپنے سٹاف رپورٹرسے)قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمرایوب خان نے مجلس وحدت المسلمین کے زیر اہتمام منعقدہ استحکام پاکستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں سینیٹرعلامہ راجہ ناصر عباس کو دوبارہ منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ہمیں معلوم ہے رات کے ا ندھیروں میں جو جنات آتے رہے دبائوڈالتے رہے ہیں ان جنات کے لئے آپ نے جو تعویز رکھا وہ موثرنکلا اور ان کو بھگا دیا عمر ایوب خان نے کہا کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو بانی پی ٹی آئی ، بشری بی بی اور ہمارے رہنما جیل میں نہ ہوتے کل عالیہ حمزہ اور صدام خان ترین کو گرفتار نہ کیا جاتا گیا انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جب استحکام نہیں ہے قانون کی حکمرانی نہیں ہے تو وہ ہارڈ سٹیٹ نہیں بن سکتایہاں پر آزادی اظہار رائے موجود نہیں ریاست کی تشریح آئین کے آرٹیکل7 میں موجود ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کا مطالبہ ہے مِسنگ پرسن کا معاملہ ختم کریں ہمارے وسائل پر ہمارا حق دیں مگر دونوں مطالبات تسلیم نہیں کرتے ماہ رنگ بلوچ کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیا گیا اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی نے کء اجولائی 2024 کو ایوان صدر میں گرین انیشیٹو کا اجلاس ہوتا ہے جس میں تمام چیزیں موجود ہیںوزرا اس کی تصدیق کرتت ہیں دنیا میں پیٹرول کی قیمتیں کم ہوئی ہیں پاکستان میں مہنگائی زیادہ ہوئی ہے  عمر ایوب خان نے کہا کہ جعفر ایکسپریس حادثہ انٹلی جنس کی ناکامی ہے اس وقت فارم 47کی حکومت کے پاس مینڈیٹ ہی نہیں ہے اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ہم نے 12مارچ کو دریائے سندھ پر کینالز کی قرارداد جمع کرائی وہ قرار داد ہی اسمبلی ریکارڈ سے غائب کرادی گئی۔

متعلقہ مضامین

  • نئے پوپ کا انتخاب کیسےکیا جاتا ہے؟
  • جنگل کا قانون نہیں چلنے دیں گے، چین کا امریکا کو کرارا جواب
  • پنجاب بارکونسل میں دو روزہ بین الاقوامی مصالحت و ثالثی ٹریننگ کا آغاز
  • نئی ترمیم لانے کی فی الحال کوئی تجویز نہیں: وزیرِ قانون اعظم نذر تارڑ
  •  قانون کی حکمرانی ہوتی تو ہمارے رہنما جیل میں نہ ہوتے :  عمرایوب
  • لاہور ہائیکورٹ نے خلع کی صورت میں خواتین کے حق مہر کے حوالے سے اصول وضع کردیے
  • امرود
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • کسی صوبے کا دوسرے صوبے کے پانی پر ڈاکا ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: احسن اقبال
  • شوہر کے ظالمانہ طرزعمل پر خلع لینے والی خاتون کا حقِ مہر ساقط نہیں ہوتا، لاہور ہائیکورٹ