Express News:
2025-04-22@09:36:54 GMT

احفاظ الرحمن ایوارڈ اور میرا عہد

اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT

مجھے جمعہ 11 اپریل کو احفاظ الرحمٰن لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ 2025 سے نوازا گیا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ احفاظ کے بیوی بچوں نے اس ایوارڈ کے ذریعے احفاظ کی یاد کو زندہ رکھا ہے۔ ایوارڈ کی تقریب کراچی کے آرٹس کونسل میں منعقد ہوئی۔

جہاں احفاظ اور میرے دوستوں نے شرکت کی۔ میں خرابی صحت کے باعث خود تقریب میں شریک نہ ہو سکی، تاہم میرا پیغام میری بڑی بیٹی فینانہ نے سامعین تک پہنچایا اور میری جانب سے ایوارڈ وصول کیا۔اپنے آڈیو پیغام میں، میں نے احفاظ کی جرات، استقامت اور نظریاتی وابستگی کا ذکرکیا جو انھوں نے آمریت سنسرشپ اور ریاستی جبر کے خلاف دکھائی۔ میں اگر تقریب میں موجود ہوتی تو اپنے دوست اور ہم خیال رفیق کے بارے میں بہت کچھ کہتی کیونکہ یہ ایوارڈ صرف ایک فرد کو نہیں ایک نظریے کو خراج ہے۔

میری بیٹی نے میری جرات اور حق گوئی کا ذکر کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے نظریات کی وجہ سے میں نے ایک مشکل زندگی کا انتخاب کیا جو میرے ساتھ میرے بچوں نے بھی گزاری، جو آسان نہیں تھا۔ میرے بچے مجھ پہ فخر محسوس کرتے ہیں اور میں اس بات پہ خوش ہوتی ہوں کہ انھوں نے میرے اصولوں کی وجہ سے جو کڑا وقت دیکھا وہ بڑے حوصلے اور خوشدلی کے ساتھ گزارا۔

 میں اور احفاظ مفلسی کے دنوں کے دوست تھے۔ احفاظ جیسے دوست بڑی مشکل سے نصیب ہوتے ہیں۔ احفاظ نے ہمیشہ سچ لکھا اور محروم طبقے کے لیے جم کر لکھا۔ وہ بے پناہ نڈر تھے اور جس رستے کا انھوں نے انتخاب کیا اس میں مہناز نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ احفاظ کبھی بھی نہ ڈرے اور نہ ہی رکے انھوں نے سچ لکھا جو کڑوا ہوتا ہے اور لوگوں سے ہضم نہیں ہوتا۔ ان کی دوستی پہ جتنا نازکیا جائے وہ کم ہے وہ ان ساتھیوں میں سے تھے جو حوصلہ دیتے ہیں اور سخت سے سخت وقت میں ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔

ہم دونوں نے ایک ایسے زمانے میں صحافت کا آغازکیا جب ہر لفظ تول کر لکھنا پڑتا تھا اور حق کی بات کرنا کفر کے مترادف تھا مگر احفاظ نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ قلم کی طاقت پر یقین رکھتے تھے۔ چاہے جنرل ضیاء الحق کا آمریت زدہ دور ہو یا بعد کے نیم جمہوری ادوار، وہ ہمیشہ اصولوں کے ساتھ کھڑے رہے۔ میں نے ان کے ساتھ وہ دن بھی گزارے جب ان پر پابندیاں لگیں، جب ان کی نوکری چھینی گئی، جب انھیں عدالتوں کے چکر لگانے پڑے۔ میں نے ان کے عزم کو بھی دیکھا جو کبھی متزلزل نہ ہوا۔ وہ لکھتے تھے، بولتے تھے، احتجاج کرتے تھے۔ ان کی تحریر میں ایک جلا ہوتی تھی۔ جیسے جلتا ہوا انگارہ۔ ہم نے صحافت کو ایک مشن سمجھا۔ ہماری تحریریں سچ کا آئینہ تھیں۔

 مجھے یاد ہے جب انھوں نے صحافیوں کی تنظیموں میں کام کیا جب وہ کراچی یونین آف جرنلسٹس کے متحرک رہنما بنے۔ جب انھوں نے میڈیا ورکرز کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ احفاظ کبھی پیچھے نہیں ہٹے وہ ایک بہت نڈر انسان اور صحافی تھے۔میری خواہش ہے کہ آنے والے صحافی احفاظ الرحمن کے نظریے کو سمجھیں، اسے اپنائیں اور سچ لکھیں، اگر ہم نے سچ بولنا اور لکھنا چھوڑ دیا تو پھر سچ کون لکھے گا۔

میں اس موقع پہ ان تمام صحافیوں کو بھی یاد کرنا چاہتی ہوں جو ہمارے ساتھ چلے کچھ ہم سے بچھڑگئے،کچھ ابھی تک لڑ رہے ہیں۔ ہمیں اس لڑائی کو جاری رکھنا ہوگا۔ آج اس کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ ابھی بہت کام باقی ہے۔ احفاظ جیسے سچے اور نڈر صحافی ہوتے ہیں جو سماج میں توازن بنائے رکھتے ہیں۔ ان کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ ہم سب کا بہت بڑا نقصان ہے۔ جس ہمت اور بہادری سے احفاظ نے اپنے قلم سے سچ کی جنگ لڑی، وہ ان ہی کا کمال تھا۔

معروف اسکالر ڈاکٹر ریاض شیخ نے نیو لبرل ازم کے خلاف ایک گہرا فکری خطاب کیا۔ انھوں نے اپنے خیالات کا آغاز احفاظ الرحمٰن کی نظم ’’ ہماری ہتھکڑی کھولو‘‘ سے کیا اور پھر آزادی کی فکری روایت کا تاریخی تناظر بیان کیا۔ انھوں نے جے ہی برماس روسو جان لاک اور والٹیر جیسے مفکرین کے حوالے سے بتایا کہ انسانی آزادی کے تصورات کو نیولبرل سرمایہ دارانہ نظام کس طرح کچل رہا ہے۔

ڈاکٹر ریاض نے کہا کہ 1990 کے بعد جب سوویت یونین تحلیل ہوا اور عالمی سرمایہ داری نے ایک نئی جارحانہ شکل اختیارکی تو نیو لبرل ازم نے نہ صرف معیشت بلکہ شعورکو بھی قابو میں لینا شروع کیا۔ انھوں نے واضح کیا کہ کس طرح آج میڈیا اور تعلیمی ادارے حکومتی و کارپوریٹ مفادات کے نرغے میں ہیں۔

تقریب میں ادیب و محقق ڈاکٹر جعفر احمد نے معروف ترقی پسند ادیبہ شین فرخ کا مضمون پیش کیا جو انھوں نے احفاظ الرحمٰن کی یاد میں قلم بند کیا تھا۔ اس مضمون میں احفاظ کو ایک ایسے کردار کے طور پر یاد کیا گیا جو اپنی زندگی میں نظریاتی وابستگی صحافتی دیانت اور مزاحمت کا استعارہ بنا رہا۔

تقریب کے دوران صنوبر ناظر نے تین علامتی رقص پیش کیے جن میں احفاظ الرحمٰن کی نظم اور رابندر ناتھ ٹیگورکی مشہور نظم اکلا چلو شامل تھیں۔

کراچی یونیورسٹی ابلاغ عامہ ڈیپارٹمنٹ کی طالبات کو نقد انعامات دیے گئے اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ابلاغ عامہ ڈیپارٹمنٹ کے طلبا اور طلبات نے صحافت کا حلف بھی لیا۔

اختتام پر مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں آزادی اظہارکبھی بھی اتنے دباؤ اور خطرے سے دوچار نہیں رہی جتنی آج ہے۔ اس وقت نہ صرف لکھنے بولنے اور سوچنے کی آزادی محدود کی جا رہی ہے بلکہ شعوری فکر کو بھی زیر کرنے کی منظم کوششیں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں ترقی پسند قوتوں کا فرض ہے کہ وہ مزاحمت کو جاری رکھیں بلکہ اس کو مزید مضبوط کریں۔

 میں اپنی آخری سانس تک سچ لکھتی رہوں گی اور جس رستے کا چناؤ میں نے برسوں پہلے کیا تھا، اس کو جاری رکھوں گی، یہ میرا خود سے عہد ہے جو میری آخری سانس تک جاری رہے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: احفاظ الرحم ن انھوں نے ا کو بھی

پڑھیں:

پاکستان میں کون اتنا طاقتور ہے جو صحافیوں کو اسرائیل بھیج رہا ہے:حافظ نعیم الرحمن

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے غزہ ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے حکمرانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ آج کے ملین مارچ نے ثابت کر دیا ہے کہ حکمران سوئے ہوئے ہیں جبکہ عوام جاگ چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ غزہ کے مسلمانوں کی حمایت میں یہ مارچ حکمرانوں کی مسلمانوں کو سلانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی واضح علامت ہے۔حافظ نعیم الرحمن نے حکومت پاکستان اور افواج پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کے مسلمانوں کی آواز سنیں اور اس مسئلے پر فوراً اقدام کریں۔انہوں نے کہا کہ پوری امت مسلمہ ایک طرف اور صرف پاکستان ایک طرف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اسے امت مسلمہ میں ممتاز بناتی ہے، اور اس کا کردار عالمی سطح پر بے حد اہم ہے.انہوں نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے بیانات یاد دلاتے ہوئے کہا کہ بانی پاکستان نے اسرائیل کو برطانیہ کی ناجائز اولاد قرار دیا تھا اور لیاقت علی خان نے اسرائیل کو کبھی تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔حافظ نعیم الرحمن نے پاکستان کے حکمرانوں سے سوال کیا کہ پاکستان میں کون اتنا طاقتور ہے جو صحافیوں کو اسرائیل بھیج رہا ہے؟انہوں نے اقوام متحدہ کے چارٹر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اپنی آزادی کے لیے لڑنا حماس کا حق ہے۔حافظ نعیم نے حکومت اور اپوزیشن کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں فلسطین کے مسئلے پر خاموش ہیں اور دونوں امریکہ کے غلام ہیں۔انہوں نے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے فلسطین اور کشمیر پر متحد ہونے کی اپیل کی اور کہا کہ فلسطین ہمارے لیے سیاسی ایمان کا مسئلہ ہے۔انہوں نے غزہ کے حالات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کا ڈھیر بنادیا گیا ہے اور آج فلسطینی بچوں کو دفنانے کے لیے بھی جگہ نہیں مل رہی۔حافظ نعیم الرحمن نے حماس کی جرات مندی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ حماس نے دنیا کو بتا دیا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں ہے۔انہوں نے 26 اپریل کو غزہ کے لیے عالمی ہڑتال کی کال دیتے ہوئے کہا کہ 26 اپریل کو پورے ملک میں ہڑتال ہوگی اور فلسطینی مظلوموں کے لیے آواز بلند کی جائے گی۔آخر میں حافظ نعیم الرحمن نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف غزہ پر ساری سیاسی جماعتوں کو لائحہ عمل طے کرنے کے لیے بلائیں۔

متعلقہ مضامین

  • شہباز شریف کا نمایاں کارکردگی پر تارکین وطن کو سول ایوارڈ دینے کا اعلان
  • برطانوی جریدے کی جانب سے ڈاکٹر ادیب رضوی کیلیے عالمی ایوارڈ
  • وزیراعظم کا ملک میں سرمایہ کاری کرنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو سول ایوارڈ دینے کا اعلان
  • میرا ہدف پاکستان کے لیے دوبارہ اور طویل مدت کے لیے کھیلنا ہے: صاحبزادہ فرحان
  • میرا نہیں خیال کہ کینال کے معاملے پر کوئی کنفیوژن ہے: سعید غنی
  •  امت کا حوالہ حضور ؐکے ساتھ عظیم تعلق، رشتہ اور نسبت ہے،پیر نقیب الرحمن
  • ‘پاکستان میرا دوسرا گھر ہے’ سر ویوین رچرڈز نے دل کھول کر اپنے تاثرات بیان کردیے
  • سینئر صحافی وقار بھٹی کو ہیلتھ جرنلزم ایوارڈ سے نوازا گیا
  • پاکستان میں کون اتنا طاقتور ہے جو صحافیوں کو اسرائیل بھیج رہا ہے:حافظ نعیم الرحمن
  • ریاست بھر کی یکساں ترقی و خوشحالی اور تمام علاقوں کیلئے سہولیات کی فراہمی میرا منشور ہے، چوہدری انوارالحق