کینسر ہوگا یا نہیں، یہ بات لائف اسٹائل کیسے طے کرتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
30 سال یا اس سے زیادہ عمر کے بالغوں میں کینسر سے ہونے والی اموات میں سے تقریباً نصف کا تعلق مرنے والوں کے طرز زندگی سے پایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کینسر اور الزائمر کے علاج میں آرٹیفشل انٹیلیجنس (اے آئی) کا استعمال؟
امریکی کینسر سوسائٹی جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق امریکا میں 30 سال یا اس سے زیادہ عمر کے بالغوں میں ناگوار کینسر کے کیسز (نان میلانوما جلد کے کینسر کو چھوڑ کر) کے تناسب اور تعداد کا تخمینہ لگایا گیا جو قابل تبدیل خطرے والے عوامل سے منسوب تھے۔ سگریٹ و تمباکو نوشی کینسر کے کیسز اور مجموعی طور پر موت کا باعث بننے والا سب سے بڑا سبب نکلا جب کہ اس کے بعد جسمانی وزن اور الکحل کا زیادہ استعمال ان اموات کی وجوہات میں نمایاں تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ہم میں سے کم لوگ ہی اس بات کا ادراک کرپاتے ہیں کہ طرز زندگی کا انتخاب کینسر ہونے کے امکانات کو کس حد تک متاثر کرسکتا ہے۔
مثال کے طور پر سگریٹ نوشی کو ہی لے لیجیے جس نے کینسر کے 5 میں سے تقریباً ایک کیسز اور 3 میں سے تقریباً ایک کینسر سے ہونے والی اموات میں حصہ ڈالا ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں میں موجود مختلف زہر مدافعتی نظام کو کمزور کر سکتے ہیں جس سے کینسر کے خلیات کو مارنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہی زہر کسی خلیے کے ڈی این اے کو نقصان پہنچا سکتا ہے جو اس خلیے کو قابو سے باہر ہونے اور کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔
سی ڈی سی کے مطابق سگریٹ کا دھواں جسم کے تقریباً ہر حصے میں کینسر کا سبب بن سکتا ہے، بشمول پھیپھڑوں، خون، غذائی نالی، بڑی آنت، گردے، لبلبہ اور مثانے تک محدود نہیں۔ یہاں تک کہ سیکنڈ ہینڈ دھواں پھیپھڑوں جیسے کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔
اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تمباکو نوشی چھوڑنے سے ہونے والے گہرے اور تیز صحت کے فوائد ہیں۔
سی ڈی سی کے مطابق سگریٹ نوشی چھوڑنے کے صرف 5 سال کے اندر گلے یا منہ کا کینسر ہونے کا امکان 50 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔
اضافی جسمانی وزنفوڈ ریسرچ اینڈ ایکشن سینٹر کے مطابق 10 میں سے تقریباً 7 امریکی بالغ موٹے ہیں۔ جسم کا زیادہ وزن بڑھنے کے ہارمونز کو متحرک کرکے کینسر کا سبب بن سکتا ہے جو کہ خلیوں کو زیادہ کثرت سے تقسیم ہونے کو کہتے ہیں جس سے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، مدافعتی خلیے قدرتی طور پر جسم کے ان حصوں میں جاتے ہیں جہاں زیادہ چکنائی ہوتی ہے جو سوزش کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں خلیات زیادہ کثرت سے تقسیم ہوتے ہیں اور ممکنہ طور پر وقت کے ساتھ کینسر کا باعث بنتے ہیں۔
موٹاپا 13 مختلف قسم کے کینسر ہونے کے زیادہ خطرے سے منسلک ہے جن میں تھائرائڈ، چھاتی، گردے اور بڑی آنت کا کینسر شامل ہے۔
پھلوں، سبزیوں اور دبلی پتلی پروٹین سے بھرپور غذا کے ساتھ ساتھ شکر اور سرخ گوشت کو کم کرکے ان تمام کینسر کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کیا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ، باقاعدگی سے ورزش کرنے سے جسمانی وزن کو صحت مند رکھنے میں مدد ملتی ہے اور مدافعتی نظام میں اضافہ ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے: ’شراب نوشی سے کینسر میں مبتلا ہونے کاخطرہ بڑھ جاتا ہے‘
بالغوں کے لیے امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن ہر ہفتے 150 منٹ کی اعتدال پسند شدت یا 75 منٹ کی بھرپور ایروبک سرگرمی کی سفارش کرتی ہے۔
الکحل کا استعمالالکحل کی کھپت ایک اور قابل تبدیلی خطرے کا عنصر ہے جس کے بارے میں لوگ زیادہ بات نہیں کرتے۔
امریکن پبلک ہیلتھ ایسوسی ایشن کے مطابق الکحل کے صحت سے متعلق کوئی فوائد نہیں ہیں اور یہ متعدد کینسروں سے منسلک ہے جن میں گلے، غذائی نالی، چھاتی، جگر اور بڑی آنت کے کینسر شامل ہیں لیکن ان تک محدود نہیں۔
امریکن کینسر سوسائٹی جرنل میں مذکورہ مطالعہ کے مطابق امریکی ثقافت سے الگ نہ ہونے کے باوجود، شراب امریکا میں کینسر کے تقریباً 5 فیصد کیسز اور کینسر سے ہونے والی اموات میں حصہ ڈالتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، الکحل خلیات کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور ڈی این اے کو تبدیل کر سکتا ہے جو بالآخر کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔
اگرچہ تمام کینسروں کو روکا نہیں جا سکتا لیکن ان میں سے تقریباً نصف کو ضرور روکا جاسکتا ہے بس اس کا انحصار ہمارے مناسب فیصلوں پر ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: طرز زندگی میں تبدیلی کینسر سے بچ جانے والوں کی عمر بڑھاتی ہے؟
ہم میں سے کوئی بھی ڈاکٹر کے پاس جاتے وقت وہاں لفظ کینسر نہیں سننا چاہتا اور اچھی خبر یہ ہے کہ ہم اس اصطلاح کو یا اس سے بھی بدتر سننے سے روکنے کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ کیموتھراپی جیسی دوائیں لینا کیسا محسوس ہوتا ہے جس کے بہت سے ناپسندیدہ ضمنی اثرات ہوتے ہیں۔
زندگی کی بہت سی چیزوں کی طرح جب کینسر کا سامنا کرنے کی بات آتی ہو تو انسان کو پختہ عزم کے ساتھ کمربستہ ہوجانا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سگریٹ نوشی کینسر کینسر کے اسباب کینسر کے اسبات لائف اسٹائل موٹاپا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سگریٹ نوشی کینسر کینسر کے اسباب کینسر کے اسبات لائف اسٹائل موٹاپا بن سکتا ہے کا باعث بن ہونے والی سے کینسر کے کینسر کینسر کا کینسر کے کے مطابق کینسر سے جاتا ہے سے ہونے کے ساتھ
پڑھیں:
علامہ اقبال کی لاہور میں ہاسٹل لائف، رہائش گاہیں اور شاعری
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) چاہے وہ جناح سے ملاقات کا سیاسی منظر ہو، کبوتر بازی یا گھر میں چور کے داخل ہونے جیسے روزمرہ کے واقعات، یہ مقامات اقبال کی ادبی اور نجی زندگی کے چشم دید گواہ ہیں۔
لاہور آمد اور ابتدائی ایامستمبر 1895 میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے محمد اقبال سفید شلوار قمیض میں ملبوس لاہور ریلوے اسٹیشن پر اترے۔
اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لاہور آنے والے اس نوجوان نے جلد ہی شہر کی ادبی و علمی محفلوں میں اپنی جگہ بنائی۔ اقبال نے لاہور میں مختلف اوقات میں تقریباً سات مقامات پر قیام کیا، جن میں سے ایک عمارت منہدم ہو چکی، جبکہ دو کی محققین شناخت نہیں کر سکے۔ ان کی پہلی منزل گورنمنٹ کالج لاہور تھی، جہاں انہوں نے بی اے میں داخلہ لیا۔(جاری ہے)
گورنمنٹ کالج لاہور اور شاعری کے ابتدائی رنگگورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے اور ایم اے (فلسفہ) کے دوران اقبال نے چار برس گزارے اور ہاسٹل میں رہائش اختیار کی۔
ان کے دوست غلام بھیک نیرنگ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ''میں اور بورڈنگ ہاؤس میں ان کے جو جو دوست تھے، سب انہی کے کمرے میں ان کے پاس جا بیٹھتے تھے۔ حقہ جبھی سے ان کا ہمدم و ہم نفس تھا۔ برہنہ سر، بنیان اور ٹخنوں تک تہبند باندھے ہوئے۔ اگر سردیوں کا موسم ہے تو کمبل اوڑھے ہوئے حقہ پیتے رہتے تھے اور ہر قسم کی گپ اڑاتے رہتے تھے۔‘‘وہ مزید لکھتے ہیں: ''طبیعت میں ظرافت بہت تھی، پھبتی زبردست کستے تھے۔
ادبی مباحثے بھی ہوتے تھے، شعر کہے بھی جاتے تھے اور پڑھے بھی جاتے تھے۔‘‘نیرنگ کے مطابق اس دور میں اقبال کی شاعری عام شاعروں جیسی تھی لیکن وہ اردو شاعری کی اصلاح اور مغربی رنگ لانے کی بات کیا کرتے۔ وہ واقعہ کربلا کو ملٹن کے انداز میں نظم کرنے کی خواہش بھی رکھتے تھے۔ ہاسٹل کے دنوں میں اقبال کبھی کبھار لنگوٹ کس کر اکھاڑے میں کُشتی کے لیے بھی نکلتے، کیونکہ انہیں دنگل کا شوق تھا۔
ایم اے کے بعد اقبال اورینٹل کالج میں ماہانہ 72 روپے 14 آنے تنخوا پر میکلوڈ عربک ریڈر مقرر ہوئے۔ گورنمنٹ کالج کا ہاسٹل، جہاں وہ مقیم رہے، آج ''اقبال ہاسٹل‘‘ کہلاتا ہے۔ ان کا کمرہ اندر سے پختہ کر دیا گیا ہے اور کمرے کی واحد نشانی کپڑے لٹکانے کی کھونٹی ہے۔ ڈاکٹر گیان چند نے اپنی کتاب ’’ابتدائی کلام اقبال‘‘ میں تقریباً 19 غزلیں اور نظمیں دیں ہیں، جو سن 1895 سے 1900 کے دوران لکھی گئیں، جب اقبال جی سی میں تھے۔
بھاٹی دروازہ اور شاعری کا نقطہ آغازڈاکٹر عبداللہ چغتائی کے مضمون ''لاہور میں علامہ اقبال کی قیام گاہیں‘‘ کے مطابق، گورنمنٹ کالج کے ہاسٹل کے بعد اقبال بھاٹی دروازے منتقل ہوئے۔ وہاں انہوں نے پہلے ایک کرایے کا مکان لیا لیکن جلد ہی قریب کے دوسرے مکان میں چلے گئے۔ پہلے مکان کی شناخت نہیں ہو سکی۔ دوسرا مکان کوچہ جلوٹیاں کے نکڑ پر تھا، جہاں وہ چند ماہ رہے، پھر ایک اور مکان میں منتقل ہو گئے۔
جاوید اقبال لکھتے ہیں: ''مکان کے قریب اقبال کے دیگر احباب کے علاوہ شیخ گلاب دین رہائش پذیر تھے۔ حکیم شہباز الدین کا مکان کچھ فاصلے پر تھا۔ اقبال روزانہ وہاں جاتے تھے۔ مکان کے باہر ایک چبوترہ تھا، جس پر احباب کی محفلیں جمتی تھیں۔ حقہ نوشی کے لیے ایک پیسے کا تمباکو منگایا جاتا اور سب مل کر حظ اٹھاتے۔‘‘
سر عبدالقادر نے بھی بھاٹی میں واقع بازار حکیماں کی اسی نکڑ کا ذکر کیا ہے۔
ان کے بقول، ”وہ حقہ پیتے اور شعر کہتے جاتے۔ اقبال کا بیشتر کلام اسی طرح لکھا گیا۔"بھاٹی میں اقبال کی رہائش گاہ پر آج بینڈ باجے والے بیٹھے ہیں۔ ایک تختی لگی ہے کہ یہاں اقبال رہائش پذیر رہے۔ البتہ قریب موجود بازار حکیماں والا تھڑا محفوظ کر لیا گیا ہے۔
انار کلی میں 'کشتی نوح‘ کی مانند گھرسن 1908 میں یورپ سے واپسی کے بعد اقبال وکالت کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے موہن لال روڈ پر کرایے کا مکان لیا، پھر انار کلی منتقل ہو گئے، جہاں وہ سن 1922 تک رہے۔ اس گھر میں انہوں نے خضر راہ، اسرار خودی، رموز بیخودی اور پیام مشرق جیسی شاہکار نظمیں تخلیق کیں۔یہ سیاسی ہنگاموں کا دور تھا۔ اقبال نے ایک خط میں اس گھر کی چار دیواری کو ''کشتی نوح‘‘ قرار دیا، گویا باہر نکلنا خطرناک تھا۔ فارسی کے عالم مولانا گرامی ہفتوں وہاں قیام کرتے۔
انار کلی کے قریب مسجد شہداء بنی، جس پر اقبال نے نظم لکھی۔ جلیانوالہ باغ کے واقعے کے بعد مال روڈ پر ہونے والا قتل عام اقبال نے اسی گھر سے دیکھا۔ بدلتے زمانے میں یہ مکان اس قدر تبدیل ہوا کہ اس کی شناخت ممکن نہیں رہی۔ میکلورڈ روڈ: کبوتر بازی اور بانگ درا1922 میں اقبال انار کلی سے میکلورڈ روڈ کی ایک کوٹھی میں منتقل ہوئے، جس کا کرایہ 170 روپے ماہانہ تھا۔
یہ کوٹھی ایک ہندو بیوہ کی ملکیت تھی۔ وہاں رہتے ہوئے ہی انہوں نے اپنی پہلی اردو کتاب بانگ درا شائع کی اور ''سر‘‘ کا خطاب حاصل کیا۔ انہوں نے پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کا الیکشن بھی اسی گھر سے لڑا۔جاوید اقبال لکھتے ہیں: ''یہ کوٹھی ایک سو ستر روپے ماہوار کرایے پر لی گئی، جو کسی ہندو بیوہ کی ملکیت تھی۔ ساز و سامان کے ساتھ کبوتر بھی کوٹھی میں منتقل ہوئے۔
اقبال کے بعض احباب انہیں طرح طرح کے کبوتر بھیجتے رہتے تھے۔ اقبال کبوتروں پر اپنی منشا کے مطابق پکے رنگ بھی چڑھایا کرتے تھے۔‘‘کھانوں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: ''اقبال پلاؤ، دہی، شامی کباب، قورمہ، زردہ اور فرنی بڑے شوق سے کھاتے تھے۔ پھلوں میں انہیں سردا اور آم خاص طور پر مرغوب تھے۔‘‘
بعد میں اقبال نے کبوتر بازی ترک کر دی، تاکہ ان کا بیٹا جاوید اس شغل میں نہ الجھے۔
یہ کوٹھی ثقافتی ورثہ ہے اور اس کی بحالی جاری ہے۔ یہ لکشمی مینشن کے قریب ایک گلی کے آخر میں واقع ہے۔ جاوید منزل: اقبال کا آخری ٹھکانہسن 1934 میں سات کنال زمین جاوید اقبال کے نام خریدی گئی، جہاں جاوید منزل تعمیر ہوئی۔ اقبال اپنی وفات تک یہاں رہے۔ سن 1936 میں قائد اعظم محمد علی جناح ان سے وہیں ملنے آئے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی الگ ریاست کے قیام سے متعلق اقبال کے خطوط اسی گھر سے لکھے گئے۔
سن 1977 میں اقبال صدی کے موقع پر حکومت نے اسے خرید کر میوزیم بنا دیا، جو آج عوام کے لیے کھلا ہے۔
جاوید اقبال کے مطابق، 6 مئی 1936 کی شام جناح اور فاطمہ جناح وہاں اقبال سے ملنے آئے۔ اقبال نے اپنے بیٹے سے کہا تھا: ''جب مہمان آئیں تو آٹوگراف لے لینا۔‘‘
رمضان کے مہینے میں ایک چور اس گھر میں گھس آیا۔ گھر والوں نے اسے پکڑ کر سزا دی لیکن اقبال نے ترس کھا کر کہا: ''اسے کچھ کھلاؤ پلاؤ۔
‘‘ اس کے بعد چور کی پراٹھوں اور سالن سے تواضع کی گئی۔علامہ اقبال اپنی زندگی کے آخری لمحات تک جاوید منزل میں ہی رہے۔ ان کا جنازہ وہیں سے اٹھا، جو ریلوے اسٹیشن اور بند روڈ سے ہوتا ہوا اسلامیہ کالج پہنچا۔ جاوید اقبال کے مطابق: ''جنازے میں پچاس ساٹھ ہزار ہندو اور مسلمان شامل تھے۔‘‘
ادارت: امتیاز احمد