حماس کو حال ہی میں غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے ایک نئی اسرائیلی تجویز موصول ہوئی ہے۔ اس تجویز میں 45 دنوں کی عارضی جنگ بندی شامل ہے، جس کا مقصد اس عرصے کے دوران مستقل جنگ بندی کے ساتھ ساتھ فلسطینی قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مصر نے کہا ہے کہ جنگ بندی مذاکرات کے سلسلے میں اسرائیل کی نئی شرائط بحران پیدا کر رہی ہیں تاہم معاملات جلد مثبت ہوں گے۔ مصر کی سٹیٹ انفارمیشن سروس کے سربراہ ضیا رشوان نے کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی مذاکرات میں مصری قطری ثالثی بین الاقوامی قانون، جائز حقوق اور بین الاقوامی قانونی قراردادوں کی طرف موقف کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قاہرہ اور دوحہ کی طرف سے پیش کردہ تجاویز انصاف کے اصولوں پر کاربند اور بحران کی انسانی اور سیاسی جہتوں کو مدنظر رکھ کر پیش کی گئی ہیں۔ رشوان نے میڈیا کے بیانات میں وضاحت کی کہ اسرائیل اس دور کے دوران اپنی مذاکراتی تجاویز پیش کرنے کا خواہشمند تھا، جو اس کے خیال میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اگلے ماہ خطے کا دورہ کرنے کے ارادے سے متعلق اندرونی ٹائمنگ کے مسئلے سے منسلک ہے۔ امریکہ تل ابیب پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اس تاریخ سے پہلے مذاکراتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے حالیہ دورہ واشنگٹن سے امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات میں ان کے سابقہ ​​استقبالیہ کے مقابلے میں ایک غیر معمولی بحران کا انکشاف ہوا، جو غزہ پر جاری جنگ کے حوالے سے سیاسی اور بین الاقوامی مزاج میں تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔

ان کا خیال تھا کہ اسرائیل کی نئی شرائط اسرائیلی حکومت کے اندرونی بحران کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان سے اس کی طاقت کی پوزیشن کی عکاسی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ثالث اس دور کی نازک نوعیت سے واقف ہیں اور اسرائیل مذاکرات کے ذریعے اپنے مطالبات کی حد کو غیر حقیقی طور پر بڑھا رہا ہے۔ حماس کو حال ہی میں غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے ایک نئی اسرائیلی تجویز موصول ہوئی ہے۔ اس تجویز میں 45 دنوں کی عارضی جنگ بندی شامل ہے، جس کا مقصد اس عرصے کے دوران مستقل جنگ بندی کے ساتھ ساتھ فلسطینی قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت کرنا ہے۔ اسرائیلی تجویز میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ اسرائیلی تجویز کی ایک بنیادی شرط مصری اقدام سے بالکل مختلف ہے۔ اس تجویز میں 10 اسرائیلی قیدیوں کو مرحلہ وار رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس کا آغاز جنگ بندی کے پہلے دن اسرائیلی نژاد امریکی قیدی عیڈان الیگزینڈر کی رہائی سے ہو۔ اس کے بعد کے مراحل میں عمر قید کی سزا پانے والے 120 فلسطینی اسیران کی رہائی کے بدلے 9 اضافی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور 7 اکتوبر 2023ء کے بعد گرفتار کیے گئے 1,100 سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رائی بھی شامل ہے۔

اس تجویز میں دونوں فریقوں کے درمیان اسرائیلی قیدیوں اور فلسطینی اسیران کی قسمت کے بارے میں معلومات کا تبادلہ اور اسرائیل کے زیر حراست 160 فلسطینیوں کی باقیات کے بدلے میں 16 اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشوں کے حوالے کرنا بھی شامل ہے۔ اس میں سات دنوں کے لیے غزہ کی پٹی کے علاقوں سے اسرائیلی فوج کے انخلاء کی شرط بھی رکھی گئی ہے، جس میں رفح اور غزہ کے شمال اور مشرقی غزہ کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ اس تجویز میں غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کے داخلے، شہریوں تک اس کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے ایک طریقہ کار کے قیام اور بے گھر افراد کو پناہ دینے کے لیے ساز و سامان کی فراہمی پر زور دیا گیا ہے۔ تاہم اس تجویز میں ایک شق شامل ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل "غزہ کو غیر مسلح علاقہ قرار دے”، جسے حماس ایک سرخ لکیر سمجھتی ہے۔حماس کے بیرون ملک سیاسی بیورو کے رکن سامی ابو زہری نے الجزیرہ کو بتایا کہ ان کی تحریک ان تمام پیشکشوں کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کرے گی جو فلسطینی عوام کے مصائب کو کم کر سکتی ہیں، لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے کو ناکام بنانے کے لیے ناممکن شرائط کا تعین کر رہے ہیں۔ وہ حماس کے ہتھیار ڈالنے کے معاہدے کی تلاش میں ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسرائیلی تجویز اس تجویز میں جنگ بندی کے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کی رہائی شامل ہے کے بدلے کے لیے

پڑھیں:

اسرائیلی حکومت اور معاشرے کے درمیان گہری ہوتی تقسیم

اسلام ٹائمز: فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔ خصوصی رپورٹ:

غاصب صیہونی ریاست کی فضائیہ کی پائلٹوں سے لے کر موساد کے افسران تک، جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج کی لہر اسرائیل میں اندرونی تقسیم اور دراڑ کی گہرائی کیسے ظاہر کرتی ہے؟ اس بارے میں عبرانی حلقوں کا خیال ہے کہ جنگ کے خلاف مظاہرے اور پٹیشن، جو فضائیہ کے اندر سے شروع کی گئی اور موساد جیسے حساس اداروں کے افسران میں شامل ہوتے گئے، اب نتن یاہو کی جنگی کابینہ کے خلاف اس احتجاج میں سول ملٹری اور سیاسی اشرافیہ بھی شامل ہو چکی ہے۔ یہ احتجاج اسرائیلی معاشرے میں دراڑ کی گہرائی، اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی و سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بداعتمادی کے بڑھتے ہوئے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ صیہونی آبادکاروں کے درمیان بے چینی اور اضطراب کو ظاہر کرنیوالا ایک بے مثال منظرنامہ ہے، جس میں صیہونی حکومت کی جانب سے بڑھتے ہوئے مظاہروں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ احتجاج حکومتی، فوجی اور سیکورٹی اداروں سے نکل کر ماہرین تعلیم، ڈاکٹروں، مصنفین وغیرہ سمیت اعلیٰ طبقات تک پہنچ گیا ہے، یہ سب غزہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی قیدیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ احتجاج کی یہ لہر 9 اپریل کو شروع ہوئی تھی۔ جب 1200 سے زائد پائلٹوں اور فضائیہ کے ریزرو دستوں نے غزہ جنگ کے جاری رہنے اور غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے خلاف احتجاج کے طور پر خدمت جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔

معاشرے اور ریاست و حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی فضا:
 ملٹری برانچز کے مختلف افسروں اور اہلکاروں نے بھی پٹیشن پر دستخط کیے، جن میں فوج کے سابق چیف آف اسٹاف اور حکومت کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ بین گوریون، تل ابیب اور ایریل یونیورسٹیوں کے سابق ڈینز سمیت 1800 سے زائد افراد نے 11 اپریل کو ایک احتجاجی پٹیشن جاری کی۔ ان مظاہروں کی لہر برف کے گولے کی مانند تھی جس نے پورے صہیونی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور فضائیہ کے یونٹوں کے علاوہ بحریہ کے افسران، بکتر بند فوج، ریزرو فورسز اور ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹ، انٹرنل سیکیورٹی وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہم جنگ کو مسترد کرتے ہیں اور قیدیوں کی فوری واپسی چاہتے ہیں۔

لیکن ان مظاہروں میں صہیونی حکام کو سب سے بڑا جھٹکا یہ لگا کہ موساد کے اندر سے مختلف عناصر بھی جنگ کے خلاف مظاہروں کی تازہ لہر کا حصہ بن گئے۔ جہاں اسپائی سروس کے 250 سابق ملازمین بشمول اس کے تین سابق سربراہان نے ایک احتجاجی پٹیشن تیار کی اور جنگ کی مخالفت کا اعلان کیا۔ ایلیٹ یونٹس جیسے شیلڈگ، شیطت 13، اور ریٹائرڈ پولیس افسران اور سابق کمشنر بھی ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ ان پٹیشنز پر دستخط کرنیوالوں میں سب سے نمایاں موساد کے سابق سربراہان جیسے ڈینی یتوم، ابراہم حلوی اور تمیر پارڈو شامل ہیں۔

 اسرائیلی محکمہ صحت کے 3000 سے زائد ملازمین، نوبل انعام یافتہ شخصیات 1700 فنکاروں، اور سینکڑوں ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ، اس سلسلے میں احتجاجی پٹیشنز پر دستخط کر چکی ہیں، جس میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر، 3500 ماہرین تعلیم، 3000 تعلیمی شعبے کے ملازمین، اور 1000 طلباء ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ یہ پٹیشنز اب محض علامتی بیانات نہیں ہیں، بلکہ صیہونی حکومت کے لئے کئی دہائیوں سے اس کی بقا کا سب سے اہم عنصر سمجھنے والی اشرافیہ میں عدم اطمینان اور تقسیم اور دراڑ کی عکاسی ہے۔

قیدیوں کی رہائی کے لئے مذاکرات کا اختتام اور جنگ کے خاتمے کے لیے واضح سیاسی نقطہ نظر کی عدم موجودگی صیہونی اشرافیہ کی احتجاجی مظاہروں کی لہر میں شمولیت اسرائیلی معاشرے میں گہری تقسیم کی علامت بن گئی ہے جو اسے اندر سے درہم برہم کر سکتی ہے۔ ان احتجاجی تحریکوں اور مظاہروں کی اہمیت کے حوالے سے عبرانی حلقوں کا کہنا ہے یہ رجحان اسرائیل مقتدرہ، اشرافیہ اور اداروں میں اندرونی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے اور گہری ہوتی سماجی تقسیم کے علاوہ سیاسی پولرائزیشن میں اضافے کا سبب ہے، فوجی اور سیکورٹی یونٹس کے ارکان کی جانب سے احتجاجی پٹیشنز پر دستخط اسرائیلی فوجی اسٹیبلشمنٹ میں ایک غیر معمولی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں، کیونکہ اسرائیل کے فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اندر سے اتنے بڑے پیمانے پر داخلی مظاہرے شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔

سیاسی اور عسکری اداروں میں عدم اعتماد کا بحران:
یہ تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنگ کے خلاف احتجاجی پٹیشنز اسرائیل کی سیاسی قیادت اور عسکری کمانڈروں پر اعتماد میں کمی کی عکاسی کرتی ہیں اور معاشرے کے ایک بڑے طبقے خصوصاً اشرافیہ کا کابینہ اور فوج سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اسرائیلی فوج اور سول اداروں کی طرف سے جاری احتجاجی درخواستیں ڈیڑھ سال سے زائد عرصے کی بے نتیجہ جنگ کے بعد سیاسی ذرائع سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ پر بڑھتے ہوئے احتجاج اور اندرونی دباؤ کی مثال ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ایک ریزرو جنرل اسرائیل زیو نے اعلان کیا ہے کہ غزہ جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والی درخواستیں سول نافرمانی تو نہیں، لیکن یہ اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی کابینہ کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں اور بحران کی عکاسی کرتی ہیں۔

اس صہیونی جنرل، جو اس سے قبل انفنٹری اور پیرا ٹروپرز ڈویژن کے کمانڈر، غزہ ڈویژن کے کمانڈر اور اسرائیلی فوج کے آپریشنل شعبے کے سربراہ جیسے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، نے اسرائیلی ٹی وی چینل 12 کی سائیٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں تاکید کی ہے کہ جن لوگوں نے احتجاجی درخواستوں پر دستخط کیے ہیں وہ فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اشرافیہ کے اہم لوگ ہیں، یہ اس جنگ میں اسرائیل کی سیاسی قیادت کی ناکامی پر گہری تشویش کا اظہار ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پٹیشنز پر دستخط کرنے والے نیتن یاہو پر بھروسہ نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈے، ذاتی مقاصد اور مفادات کی تکمیل کے لیے اسرائیلیوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں، اور وہ غزہ سے قیدیوں کی واپسی کے لیے کوشش نہیں کر رہے، اس کا مطلب ہوگا واضح قومی اور فوجی اہداف کے بغیر جنگ جاری رہے گی، جس سے اسرائیل کی سلامتی خطرے میں ہے۔

صیہونی فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کی جانب سے لبنان میں ایک گاڑی پر ڈرون حملہ
  • پوپ فرانسس کی جانب سے غزہ کی افسوسناک صورتحال کی مذمت
  • روس عارضی جنگ بندی کا جھوٹا تاثر پیش کر رہا ہے، زیلنسکی
  • غزہ پر بمباری جاری، اسرائیلی نژاد امریکی یرغمالی عیدان الیگزینڈر بھی لاپتا ہوگیا
  • صیہونی حملے کے بعد اسرائیلی نژاد امریکی قیدی کا کوئی علم نہیں، ایک محافظ شہید ہو چکا ہے، القسام بریگیڈ
  • ایسٹر کی تقریبات ،سندھ حکومت کا اتوار اور پیر کو تعطیلات کا اعلان
  • غزہ، صیہونی فوج کی بمباری سے مزید 64فلسطینی شہید
  • اسرائیلی حکومت اور معاشرے کے درمیان گہری ہوتی تقسیم
  • اسرائیلی حکومت اور معاشرے کے درمیان گہری تقسیم
  • غزہ پٹی: اسرائیلی حملوں میں مزید نوے افراد ہلاک