آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ دہشتگردوں کی 10 نسلیں بھی بلوچستان اور پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ کیا دشمنوں کا یہ خیال ہے کہ مٹھی بھر دہشتگرد پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کرسکتے ہیں؟ بلوچستان پاکستان کی تقدیر اور ہمارے ماتھے کا جھومر ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پہلے اوورسیز پاکستانیز کنونشن سے خطاب کیا۔ 

جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ میں آج بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے جذبات دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں، یقین دلاتا ہوں آپ کیلئے ہمارے جذبات اس سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ صرف پاکستان کے سفیر ہی نہیں، پاکستان کی وہ روشنی ہیں جو پورے اقوام عالم پر پڑتی ہے۔

پاک فوج ریاست کی سلامتی کیلئے دہشت گردی کیخلاف ڈھال بنی رہے گی، آرمی چیف

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے 4 مارچ کو بنوں کینٹ پر خوارج کے ناکام دہشتگرد حملے کے تناظر میں بنوں کا دورہ کیا۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ جو لوگ برین ڈرین کا بیانیہ بناتے ہیں وہ جان لیں یہ برین ڈرین نہیں برین گین ہے، بیرون ملک پاکستانی برین گین کی عمدہ ترین مثال ہیں۔

جنرل عاصم منیر نے کہا کہ آپ سب نے پاکستان کی کہانی اپنی اگلی نسل کو سنانی ہے، وہ کہانی جس کی بنیاد پر ہمارے آباؤ اجداد نے پاکستان حاصل کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کیا دشمنوں کا یہ خیال ہےکہ مٹھی بھردہشتگرد پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کرسکتے ہیں؟ دہشتگردوں کی 10 نسلیں بھی بلوچستان اور پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔

انکا کہنا تھا کہ بلوچستان پاکستان کی تقدیر اور ہمارے ماتھے کا جھومر ہے، جب تک غیور عوام ساتھ کھڑے ہیں آپ کی فوج ہر مشکل سے باآسانی نبرد آزما ہوسکتی ہے۔

مستقبل کی تشکیل میں نوجوانوں کا اہم کردار ہے، آرمی چیف

اسلام آباد چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے.

..

جنرل عاصم منیر نے کہا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے پاکستان کو بےبہا وسائل سے نوازا ہے جس پر ہمیں ہر وقت شکر ادا کرنا چاہیے۔

انکا کہنا تھا کہ ہم آج مل کر واضح پیغام دے رہے ہیں، جو پاکستان کی ترقی کے راستے میں حائل ہوگا ہم مل کر اُس رکاوٹ کو ہٹادیں گے۔ 

آرمی چیف نے کہا کہ آپ جس ملک میں بھی ہوں، یاد رکھیں آپ کی میراث ایک اعلیٰ معاشرہ، نظریہ اور تہذیب ہے، نامساعد حالات کے آگے بطور مسلمان اور پاکستانی نہیں گھبراتے، ہم کبھی بھی مشکلات اور دشواریوں کے سامنے نہ جھکے ہیں نہ جھکیں گے۔

انکا کہنا تھا کہ جب تک غیور عوام افوج پاکستان کیساتھ کھڑے ہیں، پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

آرمی چیف کا ایک بار پھر دشمن سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا عزم

دشمن بھاری نقصان اٹھاتے رہیں گے اور نقصان پہنچانے کی ان کی صلاحیت ختم ہوجائے گی، آرمی چیف

آرمی چیف نے کہا کہ قوم اپنے شہدا کو نہایت عزت اور وقار کی نظر سے دیکھتی ہے، شہدا کی قربانی لازوال ہے جس پر کبھی ملال نہ آنے دیں گے، ہم پاکستان کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جس کا خواب قائدِاعظم نے دیکھا تھا۔

انکا کہنا تھا کہ آپ ہمیشہ اپنا سر فخر سے بلند رکھیں کیونکہ آپ کا تعلق کسی عام ملک سے نہیں، آپ ایک عظیم اور طاقتور ملک کے نمائندے ہیں۔

جنرل عاصم منیر نے کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ پاکستانیوں کا دل ہمیشہ غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کا سفر جاری ہے، سوال یہ نہیں کہ پاکستان نے کب ترقی کرنی ہے، سوال یہ ہے کہ پاکستان نے کتنی تیزی سے ترقی کرنی ہے؟

آئی ایس پی آر کے مطابق اپنے خطاب کے اختتام پر آرمی چیف اور شرکا نے ”پاکستان ہمیشہ زندہ باد“ کا نعرہ لگایا۔

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: پاکستان کی تقدیر عاصم منیر نے کہا انکا کہنا تھا کہ کا کہنا تھا کہ اور پاکستان نے کہا کہ آرمی چیف رمی چیف

پڑھیں:

عمران زیادہ بڑے خود پسند اور ذہنی مریض ہیں یا جرنیل؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251212-03-5
اقبال کا مشہورِ زمانہ شعر ہے
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
ہائے بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف چودھری کی حالیہ پریس کانفرنس سننے کے بعد ہم نے عرض کیا ہے۔

ملک کے فوجی اہلکار ہوں یا آلِ شریف
ہائے بیچاروں کے اعصاب پہ ’’بانی‘‘ ہے سوار

اس اجمال کی تفصیل ڈی جی آئی ایس پی آر کی اخبارات میں شائع ہونے والی پریس کانفرنس ہے۔ اس کانفرنس میں احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ عمران خان خود پسند، ذہنی مریض اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ شخص‘‘ سمجھتا ہے کہ میں نہیں تو کچھ بھی نہیں، ’’تمہارا باپ‘‘ بھی فوج اور عوام میں دراڑ نہیں ڈال سکتا۔ تم خود کو سمجھتے کیا ہو؟ انہوں نے کہا کہ ایک ذہنی مریض افواج پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کررہا ہے۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والا دوسروں کو غدار کہتا پھر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس شخص‘‘ کی سیاست ختم ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کسی شخص‘‘ کو فوج کے خلاف بیانیہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ احمد شریف چودھری نے کہا بھارت اور افغانستان ’’ان کے‘‘ بیانیے کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایسے لوگوں‘‘ کے بارے میں یہی ہوں گا کہ جب ’’کتا‘‘ بھونک رہا ہوتا ہے تو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ (روزنامہ جسارت اور ڈیلی ڈان۔ 6 دسمبر 2025)

عمران خان کے بارے میں یہ بات ’’مشہورِ زمانہ‘‘ بھی ہے اور ’’بدنام زمانہ‘‘ بھی کہ وہ ایک ’’خودپسند‘‘ شخص تھے اور ہیں۔ اس کی وجہ ان کی کرکٹ کی عظمت ہے۔ کرکٹ کی تاریخ کے اگر دس بڑے بولرز کا شمار کیا جائے تو عمران ان میں سے ایک ہوں گے۔ کرکٹ کے پانچ عظیم بولرز کا انتخاب کیا جائے گا تو ان میں عمران کا نام شامل ہوگا۔ کرکٹ کے تین عظیم بولرز کی فہرست بنائی جائے گی تو عمران اس فہرست کا بھی حصہ ہوں گے۔ عمران خان دنیائے کرکٹ کے چند بڑے آل رائونڈرز میں بھی شامل تھے۔ وہ ان خوش قسمت کپتانوں میں سے ایک ہیں جنہوںنے اپنے ملک کو کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر دیا ہے۔ وہ 25 سال تک کروڑوں افراد کے دل کی دھڑکن بنے رہے۔ کروڑوں خواتین ان کی پرستار تھیں، بھارت میں وہ ’’دیوتا‘‘ کی طرح دیکھے جاتے تھے۔ ایسا شخص اگر خود پسند ہوجائے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ خود پسند شخص ذہنی مریض بھی بن جاتا ہے بلکہ خود پسندی تو خود ایک ذہنی و نفسیاتی مرض ہے لیکن اس سلسلے کا بنیادی سوال یہ ہے کہ عمران خان زیادہ بڑے خود پسند، ذہنی مریض اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں یا پاکستانی جرنیل؟

تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان کی تخلیق میں جرنیلوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس لیے کہ 1940ء سے 1947ء تک کوئی پاکستانی فوج ہی موجود نہیں تھی۔ لیکن پاکستان بنتے ہی جرنیل پاکستان کے اقتدار پر قبضے کے خواب دیکھنے لگے۔ امریکا کی خفیہ دستاویزات کے سامنے آنے سے معلوم ہوا کہ جنرل ایوب 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خفیہ خط و کتابت کررہے تھے۔ وہ امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ پاکستان کو تباہ کردیں گے۔ جنرل ایوب فرما رہے تھے کہ پاکستان کی فوج سیاست دانوں کو پاکستان تباہ نہیں کرنے دے گی۔ سوال یہ ہے کہ جو فوج تخلیق پاکستان کے عمل میں کہیں شریک ہی نہیں تھی اسے جنرل ایوب نے اچانک پاکستان کا ’’مائی باپ‘‘ کیسے بنادیا؟ یہ جنرل ایوب کی ’’خود پسندی‘‘ اور ’’ذہنی مرض‘‘ نہیں تھا تو کیا تھا جو انہیں اقتدار پر قبضے کا خواب دکھا رہا تھا؟ دیکھا جائے تو جنرل ایوب کے اقتدار پر قبضے کا نہ کوئی مذہبی جواز تھا، نہ تاریخی و تہذیبی جواز تھا۔ یہاں تک کہ ان کے قبضے کا کوئی جمہوری اور سیاسی جواز بھی نہیں تھا مگر جنرل ایوب خود پسندی کے ذہنی مرض میں مبتلا تھے۔ چنانچہ انہوں نے عملاً 1958ء میں اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ایسا کرکے انہوں نے قائداعظم کی میراث اور تحریک پاکستان کی عظیم جمہوری جدوجہد پر تھوک دیا۔ چنانچہ احمد شریف چودھری کو عمران خان کے ساتھ ساتھ جنرل ایوب کو بھی ان کی خود پسندی اور ذہنی مرض پر مطعون کرنا چاہیے۔ جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی 1956ء کا آئین منسوخ کردیا۔ یہ بھی ان کی خود پسندی اور ذہنی مرض کا شاخسانہ تھا۔ جنرل ایوب کے زمانے میں قومی اخبارات میں مادرِ ملت فاطمہ جناح کے خلاف آدھے آدھے صفحے کے ایسے اشتہارات شائع کرائے گئے جن میں انہیں ’’بھارتی ایجنٹ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ ایسے اشتہارات جنرل ایوب کی مرضی کے بغیر شائع نہیں کرائے جاسکتے تھے۔ ان اشتہارات سے ثابت ہوتا ہے کہ جنرل ایوب خود پسند بھی تھے اور ذہنی مریض بھی۔ یہاں تک کہ وہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ تھے اس لیے کہ فاطمہ جناح قائداعظم کی بہن تھیں اور وہ قومی اتحاد کی علامت تھیں۔ چنانچہ ان کے امیج کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش قومی سلامتی کے لیے خطرہ تھی۔ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب کے خلاف صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تو جنرل ایوب نے دھاندلی کرکے انہیں ہرا دیا۔ یہ عمل بھی جنرل ایوب کی خود پسندی اور ذہنی مرض کی علامت تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ اس عمل سے قومی سلامتی کے لیے بھی سنگین خطرہ پیدا ہوا کیونکہ فاطمہ جناح مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دونوں جگہ مقبول تھیں۔ محترمہ فاطمہ جناح صدر پاکستان بن جاتیں تو مغربی اور مشرقی پاکستان کی یکجائی بڑھ جاتی۔

جنرل یحییٰ خان بلا کے شراب نوش اور عورت باز تھے۔ انہوں نے تین سال میں ملک کے دو ٹکڑے کردیے۔ اس سے ثابت ہوا کہ وہ پہلے دن سے قومی سلامتی کے لیے ایک بہت ہی بڑا خطرہ تھے۔ جنرل یحییٰ کے ملک توڑنے کی بات ہم خود نہیں کہہ رہے۔ جنرل یحییٰ کے زمانے کے ڈی جی آئی ایس پی آر بریگیڈیئر صدیقی نے کچھ سال پہلے جیو کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ جنرل یحییٰ نے 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کو ہرانے کے لیے مولانا بھاشانی کو بھاری رشوت دی تھی مگر پھر مولانا بھاشانی نے دیہی علاقوں میں شیخ مجیب کے خلاف انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ انٹرویو لینے والے نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ تھی تو 1970ء کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل یحییٰ پاکستان توڑنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ مگر اس کے باوجود جنرل یحییٰ شان سے جیے اور مرنے کے بعد پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیے گئے۔ 1971ء کے بحران کا ایک اہم کردار جنرل نیازی تھا۔ اسے ایسٹرن کمانڈ کا سربراہ بنایا گیا تو اس نے بنگالیوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ باز نہ آئے تو ہم بنگالی عورتوں کو اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ کیا ایسا بیان خود پسندی اور ذہنی مرض میں مبتلا ہوئے بغیر دیا جاسکتا ہے؟ کیا اس بیان سے ثابت نہیں ہوتا کہ جنرل نیازی قومی سلامتی کے لیے بہت ہی بڑا خطرہ تھا۔ لیکن پاکستانی فوج کے کسی جرنیل نے آج تک جنرل نیازی کو خود پسند، ذہنی مریض اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ باور نہیں کرایا۔

بنگالی پاکستان کی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر 1947ء سے 1962ء تک فوج میں ایک بھی بنگالی نہیں تھا۔ 1971ء میں جب ملک دو ٹکڑے ہوا تو فوج میں بنگالیوں کی تعداد 7 سے 8 فی صد تھی حالانکہ وہ آبادی کا 56 فی صد تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو 1947ء سے 1971ء تک جتنے جرنیل آئے وہ سب قومی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے ملک کے اکثریتی طبقے کو فوج جیسے اہم ادارے میں وہ مقام ہی حاصل کرنے نہیں دیا جس کے بنگالی مستحق تھے۔ فوج کے حوالے سے ’’مارشل ریس‘‘ یا ’’برترنسل‘‘ کا فلسفہ ایجاد کیا گیا۔ برتر نسلیں دو تھیں پنجابی اور پشتون جن کی فوج میں اکثریت تھی۔ بنگالیوں کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ’’پستہ قد‘‘ ہیں اس لیے فوج کے لیے موزوں نہیں۔ یہ بھی پنجابی اور پشتون جرنیلوں کی خود پسندی اور ذہنی مرض کا حاصل تھا۔

جنرل ضیا الحق نے کراچی اور حیدر آباد میں الطاف حسین جیسے جرائم پیشہ سیاست دان کی پشت پناہی کی۔ اسے زیرو سے ہیرو بنایا اور سندھ کے شہری علاقوں کو ’’ناپاک مہاجریت‘‘ کے نشے میں مبتلا کیا۔

اس سے معلوم ہوا کہ جنرل ضیا الحق کی ’’مذہبیت‘‘ بھی جعلی تھی اور ’’پاکستانیت‘‘ بھی جعلی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں الطاف حسین نے بھارت کے دورے کے موقع پر کہا کہ اگر میں 1947ء میں ہوتا تو کبھی پاکستان کے حق میں ووٹ نہ ڈالتا لیکن اس بیان کے بعد بھی جنرل پرویز نے دہلی میں پاکستان کے سفارت خانے کو حکم دیا کہ وہ الطاف حسین کو رات کے کھانے پر مدعو کرے اور پاکستانی سفارت خانے نے ایسا ہی کیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اگر جنرل پرویز مشرف نواب اکبر بگٹی کو ڈرون حملے میں ہلاک نہ کرتے تو بلوچستان آج آتش فشاں بنا ہوا نہ ہوتا۔ یہ تمام واقعات بھی جرنیلوں کے ذہنی مرض میں مبتلا ہونے اور ان کے سیکورٹی رسک ہونے کا ثبوت ہیں۔

جہاں تک عمران خان کی خودپسندی کا تعلق ہے تو وہ کبھی بھی راز نہیں تھی مگر اس کے باوجود جرنیلوں نے انہیں اپنے سائے میں لیا۔ انہیں ذرائع ابلاغ پر چھا جانے کے مواقعے دیے۔ انہیں Electables فراہم کیے، انہیں ملک کا وزیر اعظم بنایا یہاں تک کہ بشریٰ بی بی سے ان کی شادی کرائی۔ یہاں تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ عمران خان صاحب ِ کردار تھے، قومی ہیرو تھے، وزیراعظم بننے کے لائق تھے لیکن جیسے ہی وہ جرنیلوں کے ہاتھ سے نکلے وہ اچانک ’’خود پسند‘‘ بھی ہوگئے، ’’ذہنی مریض‘‘ بھی بن گئے اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ بھی قرار پاگئے۔ کیا یہی جرنیلوں کی ’’ایمانداری‘‘ ہے کیا یہی ان کی ’’حب الوطنی‘‘ ہے؟۔

شاہنواز فاروقی سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • سابق آرمی چیف قمرباجوہ نے فیض حمید سےکہا رانا بہت موٹا ہوگیا، اسے دوبارہ اسمارٹ بناؤ، مشیر وزیر اعظم
  • جنرل فیض حمید کیس: سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کلیئر ؟
  • میری حکومت جنرل باجوہ اور فیض حمید نے ختم کروائی تھی، ثناء اللہ زہری
  • 35ویں نیشنل گیمز کی اختتامی تقریب، فیلڈ مارشل نے فاتح پاک آرمی کو ٹرافی پیش کی
  • بنوں؛ رات گئے پولیس چوکی پر دہشتگردوں کا بزدلانہ حملہ، 5اہلکار زخمی
  • 9 مئی کے واقعات فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعیناتی پلٹنےکا منصوبہ تھا،خواجہ آصف کا انکشاف
  • جنرل باجوہ نے ٹیک اوور کی دھمکی دی، فیض حمید کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے، خواجہ آصف کا دعویٰ
  • عمران زیادہ بڑے خود پسند اور ذہنی مریض ہیں یا جرنیل؟
  • 9 مئی واقعات فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعیناتی پلٹانے کا منصوبہ تھے: خواجہ آصف
  • فیصلے کے خلاف آرمی چیف کے پاس  اپیل کریں گے، جنرل فیض حمید کے وکیل کا اعلان