Islam Times:
2025-04-22@01:41:10 GMT

ایران اسلامی مزاحمت اور امریکہ سے مذاکرات

اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT

ایران اسلامی مزاحمت اور امریکہ سے مذاکرات

اسلام ٹائمز: رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گذشتہ چند ہفتوں سے اپنے بیانات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ نہ تو خطے میں اسلامی مزاحمت کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ایران کمزور ہوا ہے بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو چکا ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے بارہا امریکہ اور اسرائیل کو خبردار کیا کہ کسی بھی فوجی مہم جوئی اور حماقت کی صورت میں فوری طور پر منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ لہذا ایران سفارتی میدان میں بھی اور دیگر میدانوں میں بھی انتہائی طاقتور چہرے کے ساتھ ظاہر ہوا ہے جس کے نتائج نہ صرف مسقط بلکہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے قاہرہ میں جاری مذاکرات میں بھی نیز لبنان میں اسٹیو وٹکوف کی اسسٹنٹ اورٹیگاس کے دورے میں بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ اسی کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ اورٹیگاس حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار سوائے سمیر جعجع کے کسی سے نہ کر پائی۔ تحریر: ہادی محمدی
 
عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ جوہری مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں ہفتہ 12 اپریل کو پہلی نشست منعقد ہوئی جس میں ایران کی مذاکراتی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ عباس عراقچی جبکہ امریکی وفد کی سربراہی مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کر رہے تھے۔ ان مذاکرات میں عمان کے وزیر خارجہ ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں اور دونوں وفود میں پیغام بھی ردوبدل کرتے ہیں۔ پہلی نشست کے اختتام کے بعد اسٹیو ویٹکوف، ڈونلڈ ٹرمپ اور وائٹ ہاوس نے اپنے الگ الگ بیانات میں مذاکرات کو بہت خوش آیند اور مثبت قرار دیا۔ ان بیانات کی وجہ سے بہت سے امور سے عالمی توجہ ہٹ گئی جیسے یہ کہ مذاکرات میں کیا اہم نکات زیر بحث لائے گئے یا کس فریق کو کس فریق پر غلبہ حاصل رہا وغیرہ۔
 
غاصب صیہونی رژیم اور اس کے اتحادی ممالک جیسے امریکہ اور برطانیہ کے ذرائع ابلاغ گذشتہ کئی ماہ سے شدت سے یہ پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف تھے کہ اسرائیل کے شدید حملوں کے باعث ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک بہت زیادہ کمزور ہو گئے ہیں اور وہ فعال کردار ادا نہیں کر پا رہے۔ لیکن حالیہ بالواسطہ جوہری مذاکرات نے نہ صرف اس پروپیگنڈے کا جھوٹا ہونا واضح کر دیا ہے بلکہ صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں کو ایک انتہائی تلخ حقیقت سے بھی روبرو کر دیا ہے۔ وہ آخرکار ایران کی غالب پوزیشن قبول کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی طور پر میڈیا پر شور شرابہ مچانے اور دوسروں پر دھونس جمانے کا رجحان رکھتا ہے اور اس نے ایران پر مذاکرات کے بارے میں اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش بھی کی لیکن بری طرح ناکام ہوا۔
 
ٹرمپ نے شروع میں ایران کو خط لکھا اور اس میں مذاکرات کے آغاز کے لیے شرائط کی لمبی چوڑی فہرست بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان مطالبات کو پورا نہ کرنے کی صورت میں فوجی حملے اور وحشت ناک نتائج کی دھمکی بھی دی۔ لیکن آخر میں جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ ایران نے نہ صرف ٹرمپ کے مطالبات پورے نہیں کیے بلکہ اس سے براہ راست مذاکرات کو بھی ٹھکرا دیا اور امریکہ کی خواہش کے برعکس متحدہ عرب امارات کی بجائے عمان کو بالواسطہ مذاکرات میں ثالثی کا کردار سونپا اور عمان کو بالواسطہ مذاکرات کا مقام مقرر کیا۔ یہ تمام امور ایران کی مرضی کے مطابق طے پائے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح پسپائی اختیار کرتے ہوئے ایران کی مطلوبہ شرائط کے تحت بالواسطہ مذاکرات انجام دینے میں ہی عافیت جانی۔ یوں ٹرمپ نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ امریکہ کمزور پوزیشن میں ہے اور اسے ایران سے مذاکرات کی ضرورت ہے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ احساس صرف ایران سے متعلق پالیسی سازی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ٹرمپ نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران اسے ٹھیک ٹھاک کھینچا تاکہ وہ اشتعال انگیز بیانات اور اقدامات ترک کر دے اور ایران سے جنگ کی بجائے مذاکرات کے ذریعے ممکنہ معاہدے کے بارے میں سوچے کیونکہ اس طرح کا معاہدہ صیہونی رژیم کے اندرونی حالات کے تناظر میں بھی بہت مناسب دکھائی دیتا ہے۔ ٹرمپ اور وٹکوف کی سربراہی میں اس کی مذاکراتی ٹیم نے ایران کی مذاکراتی ٹیم کی جانب سے پیش کردہ سفارشات قبول کر کے نہ صرف نیتن یاہو بلکہ یورپی اتحادیوں کو بھی نظرانداز کر دیا اور انہیں کوئی اہمیت نہیں دی۔ البتہ اسرائیل کا ساتھ دینے والے کچھ مغربی سربراہان اور علاقائی کٹھ پتلیوں نے غلط انداز میں خبریں پھیلانے کی کوشش بھی کی جسے دنیا میں کسی نے کوئی اہمیت نہیں دی۔
 
رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گذشتہ چند ہفتوں سے اپنے بیانات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ نہ تو خطے میں اسلامی مزاحمت کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ایران کمزور ہوا ہے بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو چکا ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے بارہا امریکہ اور اسرائیل کو خبردار کیا کہ کسی بھی فوجی مہم جوئی اور حماقت کی صورت میں فوری طور پر منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ لہذا ایران سفارتی میدان میں بھی اور دیگر میدانوں میں بھی انتہائی طاقتور چہرے کے ساتھ ظاہر ہوا ہے جس کے نتائج نہ صرف مسقط بلکہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے قاہرہ میں جاری مذاکرات میں بھی نیز لبنان میں اسٹیو وٹکوف کی اسسٹنٹ اورٹیگاس کے دورے میں بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ اسی کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ اورٹیگاس حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار سوائے سمیر جعجع کے کسی سے نہ کر پائی۔
 
طاقت کے اسی اظہار نے شام میں ابو محمد الجولانی کو اہل تشیع کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران لکنت کا شکار کر دیا اور وہ ایران کا اقتدار ماننے پر مجبور ہو گیا۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ جب سوڈان میں آرمی کے مقابلے میں ریپڈ ری ایکشن فورس نے پسپائی اختیار کی تو نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ایران نے شام کا بدلہ سوڈان میں لے لیا ہے۔ البتہ اسرائیل کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور کچھ دیگر ایسے عرب ممالک نے بھی سوگ منایا جنہوں نے سوڈان میں امریکی اسرائیلی فتنے کی مالی امداد کر رکھی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام تر پروپیگنڈے کے برعکس ایران اور امریکہ میں بالواسطہ جوہری مذاکرات آگے بڑھنے کی صورت میں ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ اسی حقیقت کے باعث بہت سی طاقتیں ابھی سے شدید تشویش کا شکار ہو چکی ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رہبر معظم انقلاب مذاکرات میں کی صورت میں اور امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ میں ایران ایران اور ایران کی کمزور ہو ہے بلکہ میں بھی کیا کہ اور اس ہے اور کے لیے دیا ہے ہوا ہے کر دیا

پڑھیں:

امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف سینکڑوں مظاہرے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) صدر ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں ان کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ہزاروں افراد ملک بھر میں منعقدہ درجنوں تقریبات میں سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے ٹرمپ کی جارحانہ امیگریشن پالیسیوں، بجٹ میں کٹوتیوں، یونیورسٹیوں، نیوز میڈیا اور قانونی اداروں پر دباؤ سمیت یوکرین اور غزہ کے تنازعات سے نمٹنے کی پالیسی کی مذمت کی۔

اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے ڈونلڈ ٹرمپ نے ارب پتی ایلون مسک کے ساتھ مل کر حکومتی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کی ہیں۔ انہوں نے دو لاکھ سے زیادہ وفاقی ملازمین کو فارغ کیا اور اہم وفاقی ایجنسیوں جیسے کہ USAID اور محکمہ تعلیم کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے۔

ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں پر تنقید

ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی ریلیاں گروپ 50501 کی قیادت میں منعقد کی جا رہی ہیں، جس کا مطلب پچاس ریاستوں میں پچاس مظاہرے اور ایک تحریک کی نمائندگی کرنے والوں کا اتحاد ہے۔

(جاری ہے)

یہ گروپ اپنی احتجاجی ریلیوں کو "ٹرمپ انتظامیہ اور اس کے ساتھیوں کے جمہوریت مخالف اور غیر قانونی اقدامات کا ایک ردعمل قرار دیتا ہے۔"

ایک احتجاجی ریلی میں اپنی پوری فیملی کے ساتھ شریک اسی سالہ تھامس باسفورڈ نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل اس ملک کی اصلیت کے بارے میں جانیں۔ ان کے بقول، آزادی کے لیے امریکہ میں یہ ایک بہت خطرناک وقت ہے۔

"بعض اوقات ہمیں آزادی کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔" 'امریکہ میں کوئی بادشاہ نہیں'

مظاہرین نے ٹرمپ کی ملک بدری کی پالیسیوں کا نشانہ بننے والے تارکین وطن کے لیے حمایت کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان وفاقی ملازمین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا جنہوں نے اپنی ملازمتیں کھو دی تھیں۔ انہوں نے ان یونیورسٹیوں کے حق میں بھی آواز بلند کی جن کے فنڈز میں کٹوتی کا خطرہ ہے۔

نیویارک میں مظاہرین نے "امریکہ میں کوئی بادشاہ نہیں" اور "ظالم کے خلاف مزاحمت" جیسے نعروں کے ساتھ مارچ کیا۔

دارالحکومت واشنگٹن میں لوگوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ ٹرمپ جمہوریت اور ملک کے اقدار کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ مظاہرین نے کیفیہ اسکارف کے ساتھ مارچ کیا اور "آزاد فلسطین" کے نعرے لگائے۔ چند لوگوں نے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے یوکرین کا پرچم اٹھا رکھا تھا۔

امریکی مغربی ساحل پر واقع شہر سان فرانسسکو میں کچھ مظاہرین نے امریکی پرچم الٹا اٹھا رکھا تھا، جو عام طور پر پریشانی کی علامت ہے۔

ادارت: رابعہ بگٹی

متعلقہ مضامین

  • امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
  • ایران امریکا مذاکرات
  • امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف سینکڑوں مظاہرے
  • ایران کا جوہری پروگرام(3)
  • ایران کیساتھ مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، امریکی محکمہ خارجہ
  • مذاکرات، مقاومت اور جہد مسلسل
  • ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری پروگرام پر اہم مذاکرات
  • ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا دوسرا دور آج روم میں ہوگا
  • جب مزاحمت بھی مشکوک ٹھہرے، فلسطین، ایران فوبیا اور امت کی بے حسی
  • رہبر معظم انقلاب اسلامی کی سفارتی حکمت عملی