دھونی نے شیخ رشید کی تعریف کیوں کی؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
چنئی(سپورٹس ڈیسک)بھارتی کرکٹ کے لیجنڈ اور چنئی سپر کنگز (CSK) کے اسٹینڈ اِن کپتان مہندر سنگھ (ایم ایس) دھونی نے ٹیم کے نوجوان بلے باز شیخ رشید کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید نیٹس میں بھی تیزی سے بہتر ہورہا ہے اور اُس کے پاس مستند شاٹس کے ساتھ حریف بولرز پر حاوی ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔
دھونی نے انڈین پریمیئر لیگ (IPL) 2025 میں شاندار کارکردگی کے ذریعے نیا ریکارڈ قائم کیا۔ لکھنؤ سپر جائنٹس (LSG) کے خلاف میچ میں دھونی نے صرف 11 گیندوں پر 26 رنز کی دھواں دار اننگز کھیل کر ٹیم کو سنسنی خیز فتح دلائی۔ مین آف دی میچ کا ایوارڈ وصول کرنے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے دھونی نے کہا کہ اگر کوئی بلے باز اچھی شروعات کرے تو اُسے اننگز کو مکمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
انہوں نے انڈر 19 ورلڈکپ کی فاتح ٹیم کا حصہ رہے شیخ رشید کی بلے بازی کی بہت تعریف کی جو اب آئی پی ایل میں ایم ایس دھونی کی قیادت میں چنئی سپر کنگز کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
بھارت کے نوجوان بلے باز شیخ رشید جو انڈر 19 ورلڈکپ 2022 کے فاتح اسکواڈ کا حصہ رہ چکے ہیں، اب انڈین پریمیئر لیگ (IPL) 2025 میں چنئی سپر کنگز (CSK) کے لیے ڈیبیو کر چکے ہیں۔ 20 سالہ شیخ رشید نے لکھنؤ سپر جائنٹس کے خلاف اپنا پہلا آئی پی ایل میچ کھیلا، جہاں وہ نیوزی لینڈ کے اوپنر ڈیون کونوے کی جگہ ٹیم میں شامل کیے گئے ہیں۔
فرسٹ کلاس کرکٹ سے ورلڈکپ تک کا سفر
آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے نوجوان کھلاڑی شیخ رشید نے انڈر 19 ورلڈ کپ کے فائنل میں انگلینڈ کے خلاف نصف سینچری اور سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے خلاف شاندار 94 رنز بنا کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس کارکردگی کے بعد شیخ رشید نے آندھرا پردیش کی جانب سے ڈومیسٹک کرکٹ میں قدم رکھا۔
فرسٹ کلاس کرکٹ میں وہ اب تک 19 میچز میں 37.
چنئی سپر کنگز سے وابستگی
شیخ رشید کو سب سے پہلے 2023 میں چنئی سپر کنگز نے 20 لاکھ روپے کے بیس پرائس پر خریدا تھا، تاہم وہ اس وقت پلیئنگ الیون میں جگہ نہیں بنا سکے۔ ٹیم نے ان پر اعتماد برقرار رکھتے ہوئے 2024 اور 2025 میں بھی اسکواڈ کا حصہ بنایا اور اب آخرکار وہ ایم ایس دھونی کی قیادت میں اپنا IPL ڈیبیو کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
دھونی کی تجربہ کار رہنمائی میں نوجوان بلے باز رشید کے کھیل میں مزید نکھار کی توقع کی جا رہی ہے، خاص طور پر CSK کی بیٹنگ لائن میں موجود حالیہ مشکلات کو دیکھتے ہوئے۔ چنئی سپر کنگز نے لکھنؤ سپر جائنٹس کے خلاف میچ میں رشید سمیت 2 اہم تبدیلیاں کیں۔ جہاں آل راؤنڈر جیمی اوورٹن نے تجربہ کار اسپنر روی چندرن ایشون کی جگہ لی، وہیں شیخ رشید کو ڈیون کونوے کی جگہ ٹیم میں موقع دیا گیا۔
یاد رہے کہ چنئی سپر کنگز اس سیزن میں ابتدائی کامیابی کے بعد مسلسل 5 میچ ہار چکی ہے، اور نوجوان کھلاڑیوں کی شمولیت سے ٹیم کو ایک نئی توانائی ملنے کی امید ہے۔
مزیدپڑھیں:راولپنڈی؛ ٹریفک پولیس آفس کے باہر سے موٹر سائیکل چوری کی انوکھی واردات
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دھونی نے بلے باز کے خلاف
پڑھیں:
پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
ایک خبر نظر سے گزری جس پر ابھی تک حیرانی نہیں جا رہی۔ یہ ایک خبر ہی نہیں ہے بلکہ فکر انگیز موضوع ہے۔ اس سے ہمارے محفوظ یا غیرمستحکم مستقبل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس خبر کے مطابق کراچی کے 80سال کے ایک بزرگ نے کراچی کی فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی یے جس کا موضوع ’’کراچی میں ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت اور سامعین‘‘ تھا۔ اگر یہ خبر سچی ہے اور ملک بھر میں نمایاں ہوئی ہے تو سچی ہی ہو گی۔ لیکن دل ابھی تک نہیں مان رہا ہے کہ اس موضوع پر بھی کوئی کارآمد تھیسز لکھا یا لکھوایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اہل علم اور سرکردگان فکری طور پر اس قدر تشنہ تکمیل اور کسمپرسی کا شکار ہو سکتے ہیں اس کا ابھی تک یقین نہیں آ رہا ہے۔ شائد یہ ہماری قومی تعلیمی ترقی کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کا پہلا واقعہ ہے کہ اس طرز کے کسی فضول اور لایعنی موضوع پر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی ہے! بہتر ہوتا کہ موصوف نے پی ایچ ڈی ہی کرنی تھی تو اس موضوع پر تین چار سال مغز ماری کرنے کی بجائے وہ کسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگری ہی خرید لیتے۔
ہاں یہ واقعہ پی ایچ ڈی کے 80سالہ طالب علم کے لئے قابل فخر ضرور ہے کہ انہوں نے اپنے علم و تحقیق کا شوق پورا کرنے کے لئے عمر کے اس حصے میں یہ غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس مد میں ان کی تحقیق کے شوق اور محنت کو تو سراہا جا سکتا ہے مگر موضوع کے انتخاب پر وہ کسی داد کے مستحق نہیں ہیں۔ اس خبر کے مطابق صاحب کی صحت ٹھیک نہیں تھی، انہیں مختلف اوقات میں چار دفعہ ہارٹ اٹیک اور ایک بار فالج کا حملہ ہوا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا۔ طالب علم کے علمی عزم اور استقلال کو ہم بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے پی ایچ ڈی کے لیئے اس موضوع کو منظور کیا ان کی عقل و بصیرت پر حیرت ہے کہ وہ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کروا کر قوم و ملک اور دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔
تعلیمی دنیا میں پی ایچ ڈی ایک تحقیقی مقالہ ہوتا ہے جس میں کسی ایک خاص موضوع کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کروا کر اس کے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ اس تحقیق میں بھی 5,000 سے زائد افراد(مرد و خواتین) نے حصہ لیا، اور اس میں انہوں نے ایف ایم ریڈیو کے سیاسی شعور، آفات سے متعلق آگاہی، ثقافت اور زبان پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی آرا پیش کیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اردو زبان کی وسعت یا متاثر کن گفتگو کے آداب وغیرہ کے کسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھواتے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم علم و تحقیق کے میدان میں بھی اتنے ہی کرپٹ ہیں جتنے زندگی کے دوسرے معاملات میں ہیں یعنی آپ چاہیں تو کوئی سورس (جگاڑ) لگا کر اپنی کاروباری برانڈ پر بھی تحقیقی مقالہ لکھوا کر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دلوا سکتے ہیں یعنی ڈگری کی ڈگری اور کاروبار کا کاروبار!پی ایچ ڈی ہولڈر کو فلاسفی کا ڈاکٹر بھی کہا جاتا ہے۔ علمی کامیابی کی سب سے بڑی سطح پی ایچ ڈی (ڈاکٹر آف فلاسفی)ہے، جو کہ ڈاکٹریٹ کی تحقیقی ڈگری ہے۔ اس کا مطلب فلسفہ کا ڈاکٹر ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی کسی موضوع پر تحقیق کرتا ہے تو وہ اس میں خود کو غرق کر دیتا ہے، اس کی مکمل چھان بین کر کے اس کی تاریخ جاننے کی کوشش کرتا ہے، اس کے سیاق وسباق سے آگہی حاصل کرتا یے اور پھر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی تحقیق کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ اس کے بعد جس امیدوار کا لکھا ہوا پی ایچ ڈی کا مقالہ پاس ہو جاتا ہے وہ اپنے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا اضافہ کر سکتا ہے۔
عام میڈیکل ڈاکٹر وہ شخص ہوتا ہے جو کسی بیمار کے مرض کی تفتیش اور تشخیص کرتا ہے اور مریض کی جانچ پڑتال کے بعد اس کی صحت کی بحالی کے لئے دوا لکھ کر دیتا ہے۔ ہمیں زوال سے نکلنے کے لئے اپنے ہر شعبے میں پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ تشخیص کریں اور ہمیں بتائیں کہ ہمارے زوال کی اصل وجوہات کیا ہیں۔
میرے خیال میں وہ شخص جو جنون کی حد تک اپنے مضمون سے پیار نہیں کرتا، اس میں خود کو کھو نہیں دیتا اور جسے اپنے مضمون پر مکمل عبور اور دسترس نہیں ہوتی وہ حقیقی معنوں میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر کہلانے کا حق دار نہیں ہو سکتا ہے۔ اصل میں پی ایچ ڈی ہولڈر صحیح معنوں میں اسی وقت ڈاکٹر کہلاتا ہے جب وہ اپنے موضوع کا ایک سپیشلسٹ کی طرح ’’ایکسپرٹ‘‘ ہو جاتا ہے۔
ہماری پی ایچ ڈی ڈگریوں کی یونہی تنزلی جاری رہی تو آئندہ تاریخ کی پی ایچ ڈی کا عنوان ہو گا، ’’سکندر اعظم نے دنیا کو فتح کرنے کی بجائے ڈانس کی کلاس میں داخلہ کیوں نہ لیا‘‘ یا اردو زبان کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ہو گا، ’’بہادر شاہ ظفر کو اردو شعرا کے مشاعرے کروانا کیوں پسند تھے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب سرسید احمد خان نے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور علامہ اقبال ؒنے ’’اسلامی عقیدے کی تشکیل نو‘‘ کے تحقیقی موضوعات پر خامہ فرسائی کی تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ اجاگر ہوا اور ’’اسلامی مملکت خداداد‘‘ وجود میں آئی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر پاکستان اب تک قائم ہے تو ہمارے علمی موضوعات ایسے ہونے چایئے کہ جس سے پاکستان دنیا کی ’’سپر پاور‘‘ بن سکے۔ محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار کو اس پر غور کرنا چایئے کہ وہ تعلیمی نصاب اور موضوعات کی سمت درست کرنے کی طرف توجہ دیں۔ اگر ہماری علمی اور تعلیمی تنزلی یونہی جاری رہی تو کچھ بعید نہیں کہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے لیئے کسی کو اگلا موضوع ’’لوٹا کریسی‘‘ ہی نہ دے دیا جائے۔ اگر ریڈیو ایف ایم پر پی ایچ ڈی ہو سکتی ہے تو سیاسی لوٹوں پر پی ایچ ڈی نہ کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟