بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کردی
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کردی WhatsAppFacebookTwitter 0 15 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی فِچ نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ اپ گریڈ کرتے ہوئے اسے ٹرپل سی پلس سے بڑھا کر بی مائنس کردیا۔
تفصیلات کے مطابق فچ نے پاکستان کا معاشی منظر نامہ بھی منفی سے بڑھا کر مستحکم قرار دے دیا۔ریٹنگ ایجنسی کی جانب سے پاکستان کی طویل مدتی غیر ملکی قرضہ جاتی ریٹنگ کو ٹپل سے پلس سے بڑھا کربی مائنس کردیا گیا ہے جبکہ پاکستان کی مقامی کرنسی کی ریٹنگ بھی بی مائنس کر دی گئی ہے۔
فچ کے مطابق یہ اپگریڈ پاکستان کی بجٹ خسارے کو کم کرنے اور معاشی اصلاحات کے تسلسل پر بڑھتے اعتماد کا مظہر ہے۔فچ کا کہنا ہے کہ پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد بہتر ہوا اور فنانسنگ تک رسائی میں بھی آسانی ہوئی۔ریٹنگ ایجنسی کے مطابق توقع کہ ہے جون تک پاکستان کا مجموعی بجٹ خسارہ کم ہو کر 6 فیصد ہو جائے گا، درمیانی مدت میں یہ خسارہ تقریبا 5 فیصد تک محدود رہنے کی امید ہے، مالی سال 2024 میں یہ خسارہ تقریبا 7 فیصد تھا۔
فچ کا کہنا ہے کہ پاکستان کا موڈیزاور ایس اینڈ پی آٹ لک بھی مستحکم ہے، یہ پیش رفت پاکستان کی معیشت میں استحکام کے اشارے ہیں۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے معاشی چیلنجز بدستور موجود ہیں، پاکستان میں معاشی اصلاحات کا تسلسل برقرار رکھنا انتہائی اہم ہے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ریٹنگ ایجنسی نے پاکستان پاکستان کی
پڑھیں:
2025-26 وفاقی بجٹ خسارہ 7222 ہزار ارب رہنے کا امکان
اسلام آباد:ذرائع وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ اگلے مالی سال کے وفاقی بجٹ کا خسارہ 7222 ہزار ارب روپے رہنے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال وفاقی حکومت کی آمدنی کا تخمینہ 19111 ہزار ارب روپے ہے جس میں ٹیکس آمدنی کا تخمینہ 15270 ارب، نان ٹیکس آمدنی کا 3841 ہزارارب روپے لگایا گیا ہے۔
این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 8780 ارب روپے منتقل ہونے کے بعد وفاق کی خالص آمدنی10331 ارب رہ جائیگی۔
مزید پڑھیں: حکومت کا آئندہ مالی سال کا بجٹ عید الاضحیٰ سے قبل پیش کرنے کا فیصلہ
وفاقی اخراجات کا تخمینہ17553ہزار ارب روپے ہے، اس میں 8106 ارب روپے سود کی ادائیگی کیلیے ہیں جس کے بعد وفاق کے پاس دیگر اخراجات کیلئے2225 ہزار ارب روپے بچیں گے۔
ان میں دفاع، پنشن، تنخواہیں، ترقیاتی پروگرام ، سبسڈیز، گرانٹس ودیگر خرچے شامل ہیں، انہیں پورا کرنے کیلیے قرضوں پر انحصار کرنا پڑسکتا ہے ۔