اسلام ٹائمز: شکست کس کو ہو رہی ہے، فلسطین کا پرچم تو کہیں سے سرنگوں نہیں ہوا، وہ تو دنیا بھر کے بچوں اور بڑوں کے دل و دماغ میں سرائیت کرچکا ہے، وہ اتنا بلند ہوچکا ہے کہ تا حد نگاہ وہی نظر آتا ہے تو آخر کہنا پڑے گا۔۔۔ کہ جناب ثاقب اکبر صاحب نے دنیا سے جانے سے قبل درست فرمایا تھا۔۔۔ "فلسطین پہلے سے زیادہ مضبوط ہوچکا ہے اور اسرائیل پہلے سے زیادہ کمزور" اور بچے جنھوں نے پرچم میں رنگ بھرے۔۔۔ یہ سب غزہ کے یچے ہیں۔۔۔۔ یہ اقصیٰ کے بیٹے ہیں۔۔۔ تحریر: زینب بنت الھدیٰ نقوی
"فلسطین پہلے سے زیادہ مضبوط ہوچکا ہے اور اسرائیل پہلے سے زیادہ کمزور" یہ تاریخ میں رقم ہوا جملہ جناب ڈاکٹر ثاقب اکبر صاحب (مرحوم) نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا، جو بالکل ابھی تک میری سماعتوں میں گونج رہا ہے۔ انہوں نے اسوقت کے مطابق تجزیہ کیا، جو بالکل درست تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج پوری دنیا اس ظلم پر خاموش تماشائی نہیں بنی ہوئی۔ چاہے ہندو ہو یا عیسائی کمیونسٹ ہو یا مسلمان سب اس ظلم پر آواز بلند کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ اسرائیل کی کمزوری اور فلسطین کی مضبوطی کی ایک اور دلیل جس نے مجھے اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر مجبور کیا، وہ ننھے ننھے بچے، جنھیں میں نے فلسطین کے پرچم میں رنگ بھرتے دیکھا۔ اچانک آنکھوں میں اشک آکر رک گئے، دل بے چین اور بے قرار ہوگیا، مگر ایک امید کی کرن نے دل و دماغ کو خیرہ کیا۔۔۔۔ یہ کیا۔؟
کہتے ہیں غزہ میں موجود بچے، بوڑھے، مرد اور خواتین زیادہ تر شہید ہوچکے ہیں اور فلسطین کی حالت یہ ہے کہ وہ وینٹی لیٹر پر اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔۔۔ مگر ماضی کی جنگوں پر نگاہ دوڑائیں تو پوری جنگ میں سب کی جس پر نگاہ ہوتی تھی، یہاں تک کہ سپہ سالار فوج بھی جس پر نگاہیں جمائیں بیٹھا ہوتا ہے، وہ فوج کا علم بردار (پرچم بردار) ہوتا تھا اور اسی کوشش میں رہتے تھے کہ کسی بھی صورت میں پرچم سرنگوں نہ ہو۔۔۔۔ تو پھر یہ طاغوتی قوم کس پرچم کو سرنگوں کرکے خوش ہے اور اپنی فتح کا جشن منا رہی ہے یا یوں کہوں کس سلطنت کے تخت پر بیٹھ کر تاج پہننے کے لئے آمادہ ہیں۔؟ وہ سلطنت۔۔۔۔۔۔ جہاں آب کا رنگ سرخ اور تاج میں موجود ہیروں کی جگہ گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لگے ہوئی ہیں۔۔۔۔
ایک دم تاریخ کے اوراق پر نگاہ گئی، کہتے ہیں کہ تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے۔۔۔ جناب امیر مختار نے فرمایا تھا کہ یہ جو تخت پر بیٹھنے کے لیے بے چین ہیں، یہ بہت جلد خون میں ڈوبے ہوئے تخت پر آکر بیٹھے گا، جس کے باعث وہ اسی خون میں ڈوب جائے گا۔ (مسلمان کے خون میں ڈوبی ہوئی زبیری حکومت۔۔۔ یاد رکھنا کل تمھیں بھیڑ بکریوں کی مانند قتل کر دیں گے، تم کس امان نامہ پر راضی ہو، جو صرف ایک دھوکہ اور فریب ہے۔) ابھی بھی یوں ہوا، رمضان المبارک میں جنگ بندی ہوئی، امن معاہدہ کیا۔۔۔ اور اب اسرائیل نے وہی دھوکہ اور فریب دکھایا، جو ہمیشہ سے کرتا آرہا ہے۔۔۔۔
یہاں بھی ویسی ہی حکومت بنانا چاہ رہا ہے، جو معصوم لوگوں اور بچوں کے لہو میں غرق ہے۔۔۔ اور شکست کس کو ہو رہی ہے، فلسطین کا پرچم تو کہیں سے سرنگوں نہیں ہوا، وہ تو دنیا بھر کے بچوں اور بڑوں کے دل و دماغ میں سرائیت کرچکا ہے، وہ اتنا بلند ہوچکا ہے کہ تا حد نگاہ وہی نظر آتا ہے تو آخر کہنا پڑے گا۔۔۔ کہ جناب ثاقب اکبر صاحب نے دنیا سے جانے سے قبل درست فرمایا تھا۔۔۔ "فلسطین پہلے سے زیادہ مضبوط ہوچکا ہے اور اسرائیل پہلے سے زیادہ کمزور" اور بچے جنھوں نے پرچم میں رنگ بھرے۔۔۔ یہ سب غزہ کے یچے ہیں۔۔۔۔ یہ اقصیٰ کے بیٹے ہیں۔۔۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پہلے سے زیادہ ہوچکا ہے پر نگاہ ہے اور
پڑھیں:
پوپ فرانسس 88 برس کی عمر میں انتقال کرگئے
نیویارک (نیوزڈیسک)پوپ فرانسس 88 برس کی عمر میں انتقال کرگئے ۔ ویٹیکن نے تصدیق کردی ،وہ لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والے پہلے کیتھولک پیشوا تھے ،پوپ فرانسس کو پچھلے ہفتے ڈبل نمونیا ہوا تھا.
تفصیلات کے مطابق ویٹیکن سٹی نے پیر کو اعلان کیا کہ رومن کیتھولک چرچ کے پہلے لاطینی امریکی رہنما پوپ فرانسس انتقال کر گئے ہیں۔ کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا 88 سال کے تھے اور اپنے 12 سالہ پوپ کے دور میں مختلف بیماریوں کا شکار رہے۔
پوپ فرانسس لمبی بیماری کے بعد چند روز قبل ہی صحت یاب ہو کر ہسپتال سے فارغ ہوئے تھے۔ اتوار کو انہوں نے عیسائیوں کے مذہبی تہوار ایسٹر کے موقعے پر ملاقاتیں بھی کی تھیں۔
: پوپ فرانسس 88 سال کی عمر میں انتقال کرگئے ہیں۔ ویٹی کن نے ان کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ چند ماہ سے علیل تھے اور فروری میں برونکائٹس کے علاج کیلئے روم کے جیمیلی اسپتال میں داخل ہوئے تھے۔
صحت میں وقتی بہتری کے باوجود، ان کی طبیعت دوبارہ بگڑ گئی۔کاردینل کیون فیرل نے پوپ کے انتقال کا اعلان کرتے ہوئے انہیں خدمت، ایمان داری اور ہمدردی کا پیکر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پوپ فرانسس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ غریبوں اور محروم طبقات کے لیے وقف کیا۔
تاریخی حیثیت رکھنے والے پوپ
پوپ فرانسس، جن کا اصل نام خورخے ماریو برگولیو تھا، 17 دسمبر 1936 کو بیونس آئرس، ارجنٹینا میں پیدا ہوئے۔ وہ 13 مارچ 2013 کو پوپ منتخب ہوئے، اور تاریخ میں کئی اعتبار سے منفرد مقام حاصل کیا:
پہلے لاطینی امریکی پوپ
پہلے یسوعی فرقے سے تعلق رکھنے والے پوپ
اور یورپ سے باہر منتخب ہونے والے پہلے پوپ
ان کا دور قیادت اصلاحات، سماجی انصاف، ماحولیات کے تحفظ، اور چرچ میں شفافیت کے لیے جانا گیا۔
عالمی سطح پر تعزیت اور خراج عقیدت
پوپ فرانسس کے انتقال پر دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ کیتھولک برادری کے علاوہ، دیگر مذاہب کے رہنماؤں نے بھی ان کی روحانی قیادت، عاجزی، اور بین المذاہب مکالمے کے لیے کی گئی کاوشوں کو سراہا ہے۔
آخری رسومات اور نئے پوپ کا انتخاب
ویٹی کن کے مطابق، پوپ فرانسس کے انتقال پر نو روزہ سوگ منایا جائے گا، جس کے بعد ان کی آخری رسومات ادا کی جائیں گی۔ اس کے بعد، نئے پوپ کے انتخاب کے لیے کارڈینلز کا اجلاس منعقد ہوگا۔
خدمات کا تسلسل
پوپ فرانسس کے دور میں کیتھولک چرچ نے کئی اہم موضوعات پر جرات مندانہ مؤقف اختیار کیا، جن میں:
غریبوں کی فلاح
ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف اقدامات
چرچ کے اندر شفافیت اور اصلاحات
ان کی وفات سے ایک عہد کا اختتام ہو گیا ہے، تاہم ان کے نقوش اور خدمات طویل عرصے تک یاد رکھی جائیں گی۔
ہیٹ ویو کا خطرہ، یکم جون سے تعطیلات کی سمری منظوری کیلئے وزیراعلیٰ کو ارسال