فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (حصہ سوم)
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
مغرب کے ہر دور میں بدلتے دوہرے معیار کی ایک واضح مثال کے طور پر گز شتہ بار تفصیلاً بتایا گیا کہ جولائی انیس سو اڑتیس میں فرانس کے قصبے ایویان میں امریکا اور برطانیہ سمیت بتیس ممالک کی نو روزہ کانفرنس یورپی یہودیوں کو پناہ دینے کے کسی متفقہ فیصلے پر پہنچنے کے بجائے اس معاملے سے فٹ بال کی طرح کھیلتی رہی۔چنانچہ نازی جرمنی نے اس مسئلے کا حل بالاخر اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
ایویان کانفرنس کے ایک ماہ بعد اگست انیس سو اڑتیس میں جرمنی نے غیر ملکی باشندوں کے اجازت نامے منسوخ کر کے نئے اجازت نامے جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔جرمنی میں اس وقت بارہ ہزار پولش نژاد یہودی بھی آباد تھے۔ان سب کو نئے اجازت نامے جاری کرنے کے بجائے پولینڈ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پولش حکومت نے انھیں یوں واپس لینے سے انکار کر دیا کہ ایک قانون کے تحت پانچ برس سے زائد بیرونِ ملک رہنے والے پولش باشندوں کی شہریت منسوخ کر دی گئی تھی۔بالاخر کئی دن کی رد و کد کے بعد پولش حکومت نے بارہ میں سے آٹھ ہزار یہودیوں کو اپنا شہری تسلیم کر لیا۔
ان میں سے ایک پولش نوجوان یہودی تارکِ وطن ہرشل گرنزپین جو خود پیرس میں مگر اس کا خاندان انیس سو گیارہ سے جرمنی میں رہ رہا تھا۔اسے بھی جبراً پولینڈ بھیجا گیا۔ہرشل نے طیش میں آ کر سات نومبر کو پیرس میں جرمن سفارتکار ارنسٹ وان راتھ کو قتل کر دیا۔
نازی جرمنی نے اس واقعہ کا سنجیدگی سے نوٹس لیا۔ارنسٹ کے قتل کے دو روز بعد جرمن شہروں اور قصبات سے پولیس ہٹا لی گئی اور ہٹلر یوتھ کے دستے پورے ملک میں پھیل گئے۔عام جرمن بھی ان کے ساتھ مل گئے۔نو اور دس نومبر کی درمیانی شب جرمن تاریخ میں ’’ کرسٹل ناخت‘‘ (شیشوں کی رات ) کے نام سے مشہور ہے۔
اس رات جرمنی اور آسٹریا میں ایک ہزار سے زائد یہودی عبادت گاہوں کو تباہ کر دیا گیا۔ ساڑھے سات ہزار دوکانوں اور اسٹورز کو پھونک دیا گیا۔تیس ہزار سے زائد یہودی حراست میں لے کر لیبر کیمپوں میں بھیج دیے گئے۔اکیانوے یہودی مشتعل مجمع کے ہاتھوں قتل ہوئے۔یہودی قبرستانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
ان واقعات کی یورپی اور امریکی میڈیا میں خاصی کوریج ہوئی۔آخری جرمن بادشاہ قیصر ولیلہم دوم نے تبصرہ کیا کہ ’’ پہلی بار مجھے جرمن ہونے پر شرمندگی ہے‘‘۔ امریکا نے ان واقعات کی مذمت میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا مگر سفارتی تعلقات نہیں توڑے۔
کرسٹل ناخت کے نتیجے میں اگلے دس ماہ میں مزید ایک لاکھ پندرہ ہزار جرمن یہودی ملک چھوڑ گئے۔
کرسٹل ناخت سے پہلے یہودیوں کو سماجی اور اقتصادی طور پر الگ تھلگ کر کے جرمنی چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا تھا مگر اب نوبت جسمانی حملوں اور اجتماعی تشدد تک پہنچ چکی تھی۔فضا بتدریج نسل کشی کے لیے تیار ہو رہی تھی۔مگر یہودیوں کے ہمدرد کہلائے جانے والے ممالک اب بھی اپنے دروازے کھولنے کو تیار نہیں تھے۔
مارچ انیس سو انتالیس میں ہٹلر نے پورے چیکوسلوواکیہ پر قبضہ کر لیا۔یوں مزید ایک لاکھ اسی ہزار یہودی جرمن قبضے میں آ گئے۔برطانیہ نے کرسٹل ناخت کے بعد ترس کھا کر دس ہزار کمسن بچوں کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا مگر ان کے والدین کو پیچھے چھوڑ دیا گیا۔جون انیس سو انتالیس تک آسٹریا ، چیکو سلوواکیہ اور جرمنی کے تین لاکھ نو ہزار یہودیوں نے ستائیس ہزار امریکی امیگریشن ویزا کوٹے کے لیے درخواست دی۔
اگر ستمبر انیس سو انتالیس کے ہالوکاسٹ انسائیکلو پیڈیا کے اعداد و شمار پر اعتبار کر لیا جائے تو ہٹلر کے برسراقتدار آنے کے بعد اگلے سات برس میں ساڑھے پانچ لاکھ جرمن یہودی آبادی میں سے دو لاکھ بیاسی ہزار اور آسٹریا کے ایک لاکھ سترہ ہزار یہودی ملک چھوڑ چکے تھے۔مجموعی طور پر یہ تعداد تین لاکھ ننانوے ہزار بنتی ہے۔ان میں سے پچانوے ہزار امریکا ، ساٹھ ہزار فلسطین ، چالیس ہزار برطانیہ ، پچھتر ہزار وسطی و جنوبی امریکا اور اٹھارہ ہزار جاپان کے زیرِ قبضہ شنگھائی پہنچ گئے۔
جنگ شروع ہونے تک جرمنی میں صرف دو لاکھ دو ہزار اور آسٹریا میں ستاون ہزار یہودی باقی رہ گئے۔ان میں سے بیشتر عمر رسیدہ لوگ تھے۔ اکتوبر انیس سو اکتالیس میں جب یہودیوں کی نقل مکانی پر نازی جرمنی نے مکمل پابندی لگا دی تب تک جرمنی میں صرف ایک لاکھ تریسٹھ ہزار یہودی باقی تھے۔اس دوران جرمنی نے فرانس ، ہالینڈ، پولینڈ، ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ، بلجئیم، ناروے، ڈنمارک پر قبضہ کر لیا تھا۔اگر ان سب ممالک کی یہودی آبادی کو یکجا کر کے فرض کر لیا جائے کہ اکتوبر انیس سو اکتالیس کے بعد سب کو گیس چیمبر میں بھیج دیا گیا تب بھی ساٹھ لاکھ کا عدد پورا نہیں ہوتا۔یہ عدد کیسے تاریخ کا حصہ بنا ؟ یہ سوال اٹھانا بھی سنگین یہود دشمنی کے برابر ہے ؟
بہت سے یورپی ممالک میں اس عدد کو چیلنج کرنے کی سزا جیل ہے۔
بہرحال ایک واقعہ اور سن لیجیے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ آج جو اسرائیل کے محسن بنے پھر رہے ہیں پچاسی برس پہلے انھوں نے کیا کیا۔
جنگ شروع ہونے سے لگ بھگ ساڑھے تین ماہ قبل تیرہ مئی انیس سو انتالیس کو ایک جرمن مسافر بردار جہاز سینٹ لوئی جرمن بندرگاہ ہیمبرگ سے کیوبا کی بندرگاہ ہوانا کے لیے روانہ ہوتا ہے۔اس میں نو سو سینتیس جرمن یہودی ہیں۔ انھوں نے کیوبا کا ویزہ اور لینڈنگ سرٹیفکیٹ ڈیڑھ سو ڈالر فی کس رشوت دے کر خریدا ہے۔ان میں سے اکثر نے امریکی ویزے کے لیے بھی اپلائی کر رکھا ہے تاکہ فیصلہ ہونے تک کیوبا میں رہ کر انتظار کر لیا جائے۔کیوبا میں پہلے ہی سے ڈھائی ہزار یہودی تارکینِ وطن موجود ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ ، اور امریکی یہودیوں کی کچھ تنظیموں کو خبر ہے کہ اس جہاز کی روانگی سے ایک ہفتے قبل کیوبا میں صدر فریدریکو برو کی حکومت نے امیگریشن قوانین بدل دیے ہیں۔نئے قوانین کے تحت پرانے لینڈنگ سرٹیفکیٹ منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ نئے سرٹفیکیٹ صرف کیوبا کی وزارتِ خارجہ جاری کر سکتی ہے اور اس کی فیس پانچ سو ڈالر فی مسافر ہے۔ خدشہ ہے کہ منسوخ سرٹفیکیٹس کی بنیاد پر سینٹ لوئی کے مسافروں کو کیوبا قبول نہ کرے۔مگر جہاز راں کمپنی کی جانب سے سینٹ لوئی میں سوار مسافروں کو کوئی خبر نہیں دی گئی۔
جب ستائیس مئی کو سینٹ لوئی ہوانا کی بندرگاہ میں لنگر انداز ہوتا ہے تو صرف اٹھائیس مسافروں کو اترنے کی اجازت ملتی ہے۔ان میں وہ بائیس یہودی بھی ہیں جن کے پاس امریکی ویزہ بھی ہے ۔باقی نو سو آٹھ مسافروں کو اترنے کی اجازت نہیں ہے۔یہ خبر امریکی اور یورپی اخبارات میں شہہ سرخیوں کے ساتھ شایع ہوتی ہے۔دو جون کو جہاز کو مسافروں سمیت کیوبا کی حدود سے نکل جانے کا حکم ملتا ہے۔
سینٹ لوئی کا رخ میامی کی طرف ہے۔کچھ مسافر وائٹ ہاؤس تار بھیجتے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے ایک مسافر کو جوابی تار آتا ہے کہ وہ ضوابط کے مطابق اپنی درخواست پر فیصلے کا انتظار کرے۔درخواستوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان پر ترتیب وار غور کیا جا رہا ہے۔جرمنی اور آسٹریا کے لیے سالانہ امریکی کوٹا ستائیس ہزار تین سو ستر مقرر ہے۔
سیٹ لوئی کے علاوہ ایک سو چار مسافروں سے بھرے فرنچ جہاز فلنادرے اور بہتر مسافروں سے بھرے برطانوی جہاز اورڈونا کو بھی واپس کر دیا جاتا ہے۔اورڈونا کے مسافروں کو بہرحال امریکی انتظام کے علاقے پاناما میں اترنے کی عارضی اجازت مل جاتی ہے۔
سینٹ لوئی اپنے مسافروں سمیت یورپ پہنچتا ہے۔ان میں سے دو سو اٹھاسی مسافروں کو برطانیہ ، ایک سو اکیاسی کو ہالینڈ ، دو سو چودہ کو بلجئیم اور دو سو چوبیس کو فرانس عارضی ویزہ جاری کر دیتے ہیں۔جو مسافر برطانیہ میں اتر جاتے ہیں وہ زندہ بچ جاتے ہیں۔جب کہ ہالینڈ ، بلجیم اور فرانس میں اترنے والے پانچ سو بتیس مسافر ان ممالک پر مئی انیس سو چالیس میں جرمن قبضے کے بعد کنسنٹریشن کیمپوں میں بھیج دیے جاتے ہیں۔ (جاری ہے)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور ا سٹریا ہزار یہودی مسافروں کو کرسٹل ناخت سینٹ لوئی ہے ان میں ایک لاکھ دیا گیا کر لیا کر دیا
پڑھیں:
جب مزاحمت بھی مشکوک ٹھہرے، فلسطین، ایران فوبیا اور امت کی بے حسی
اسلام ٹائمز: ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمتِ مسلمہ فلسطین کے مسئلے کو صرف مسلکی یا جغرافیائی زاویے سے نہ دیکھے۔ فلسطین ایک انسانی، اخلاقی اور اصولی مسئلہ ہے۔ جو بھی اسکی حمایت کرے۔ خواہ وہ ایران ہو، ترکی یا کوئی عرب ریاست۔ اُسکا ساتھ دینا اصولی فریضہ ہے۔ یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح اسلام کسی مخصوص نسل، قوم یا زبان تک محدود نہیں، اسی طرح مظلوم کی حمایت بھی کسی مسلکی حد بندی کی محتاج نہیں۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی
غزہ میں جاری ظلم و ستم اور نسل کشی نے دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، مگر حیرت انگیز طور پر پاکستان جیسے بیدار دل معاشرے میں، خاص طور پر مذہبی طبقات میں، ایک غیر معمولی خاموشی طاری رہی۔ یہ خاموشی صرف وقتی نہیں، بلکہ ایک فکری جمود اور بیانیاتی تقسیم کا اظہار ہے، جو امتِ مسلمہ کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے بجائے اسے مسلکی اور جغرافیائی تعصبات میں بانٹ دیتی ہے۔ فلسطینیوں پر ہونیوالے مظالم کسی ایک لمحے یا واقعے تک محدود نہیں۔ شہداء کے لاشے، تباہ حال ہسپتال، یتیم بچے، زخمی ماں باپ، جلتی بستیاں، یہ حالات گذشتہ کئی ماہ سے جاری ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اب یکدم جذبات کیوں بھڑک اُٹھے؟ (فتوے کیوں آنا شروع ہوگئے) اور پہلے کیوں خاموشی رہی؟ یہ جذبات اگر واقعی فلسطینی عوام کیلئے ہیں تو اُن لمحوں میں کیوں نہیں اُبھرے، جب حزب اللہ، حماس اور ایران اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہے تھے۔؟
یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب ایران نے شام یا لبنان کے محاذ سے اسرائیل کو جواب دیا، یا جب حماس اور حزب اللہ نے عسکری مزاحمت کی تو بیشتر مذہبی حلقے خاموش رہے۔ اس وقت دلیل یہ دی گئی کہ یہ "ایران کا ایجنڈا" ہے، یا یہ "شیعہ سیاست" کا حصہ ہے۔ اس طرزِ فکر نے فلسطینی مزاحمت کو مسلکی خانوں میں قید کر دیا۔ یوں امتِ مسلمہ کا ایک اہم اور مقدس مسئلہ فرقہ وارانہ بیانیے کی نذر ہوگیا۔ یہ خاموشی محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے پروپیگنڈے کا نتیجہ بھی ہے، جس کا مقصد امت کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم رکھنا ہے۔ جب ایک مزاحمتی تحریک کو صرف اس بنیاد پر مشکوک بنا دیا جائے کہ اسے کسی مخصوص مسلک یا ملک کی حمایت حاصل ہے تو یہ درحقیقت ظالم کے بیانیے کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اگر کوئی سنی ملک فلسطین کی کھل کر عسکری حمایت کرے تو پھر وہ حمایت "حلال" اور قابلِ قبول ہو جائے، لیکن اگر یہی کام ایران کرے تو وہ فوراً "مسلکی ایجنڈا" بن جائے؟ کیا ظلم کیخلاف آواز اٹھانے کا جواز صرف اس وقت بنتا ہے، جب وہ آواز ہماری مسلکی شناخت کے مطابق ہو۔؟
یہ طرزِ فکر انتہائی خطرناک ہے، کیونکہ یہ نہ صرف فلسطینی عوام کی حمایت کو محدود کرتا ہے، بلکہ اُمت کو اصولوں سے ہٹا کر شناختوں کی قید میں جکڑ دیتا ہے۔ اگر فلسطین کا مسئلہ واقعی اُمت کا مسئلہ ہے تو پھر اس کی حمایت ہر اس شخص، ریاست یا گروہ سے کی جانی چاہیئے، جو اخلاص سے مظلوم کیساتھ کھڑا ہو، چاہے اس کی فقہی یا سیاسی شناخت کچھ بھی ہو۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران، اپنے سیاسی و مسلکی پس منظر کے باوجود، فلسطین کی مسلح مزاحمت کا سب سے مستقل اور مخلص حامی رہا ہے۔ اگر اس کی حمایت کو صرف اس بنیاد پر مسترد کیا جائے کہ وہ ایک شیعہ ملک ہے، تو یہ انصاف اور عقل دونوں کے منافی ہے۔ ایسی سوچ نہ صرف فلسطینیوں کیلئے نقصان دہ ہے، بلکہ پوری مسلم دنیا میں وحدت کے امکانات کو بھی مجروح کرتی ہے۔ فلسطینی مزاحمت کے حق میں آواز بلند کرنا ایک اصولی فرض ہے اور یہ فرض اس سے مشروط نہیں ہونا چاہیئے کہ کون ساتھ دے رہا ہے۔ جب ایران یا اس کے حمایت یافتہ گروہ جیسے حزب اللہ یا حماس میدان میں ہوں تو ان کی حمایت یا مخالفت کا پیمانہ صرف مسلک نہیں، بلکہ یہ ہونا چاہیئے کہ کیا وہ مظلوم کی مدد کر رہے ہیں یا نہیں۔
یہ فرقہ وارانہ تقسیم صرف فلسطینی کاز کو نہیں، بلکہ خود امت کے اتحاد کو کمزور کرتی ہے۔ اگر مزاحمت کو صرف اس بنیاد پر قبول یا مسترد کیا جائے کہ اسے کون کر رہا ہے، تو یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم اصول، انصاف اور مظلوم کی حمایت کو شخصیات، ریاستوں اور مسالک کی بنیاد پر تول رہے ہیں۔ یہی انتخابی مزاحمت (Selective Activism) ہے۔ جب تصاویر زیادہ دردناک ہو جائیں، جب سوشل میڈیا پر لہر اُٹھے، جب عرب میڈیا بھی مجبور ہو کر کچھ دکھا دے، تب عوامی غصہ سامنے آتا ہے۔ مگر جب زمینی سطح پر مزاحمت ہو رہی ہو، جب خون بہہ رہا ہو، جب دشمن کو جواب دیا جا رہا ہو، تب ہم خاموش رہتے ہیں۔ یا پھر اسے "ایرانی ایجنڈا" کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک فکری غلامی ہے۔ ایک ایسا ذہنی جال جس میں امت کو اس حد تک اُلجھا دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ہی جنگ میں غیر جانبدار، بلکہ کبھی کبھار مخالف بن جاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمتِ مسلمہ فلسطین کے مسئلے کو صرف مسلکی یا جغرافیائی زاویے سے نہ دیکھے۔ فلسطین ایک انسانی، اخلاقی اور اصولی مسئلہ ہے۔ جو بھی اس کی حمایت کرے۔ خواہ وہ ایران ہو، ترکی یا کوئی عرب ریاست۔ اُس کا ساتھ دینا اصولی فریضہ ہے۔ یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح اسلام کسی مخصوص نسل، قوم یا زبان تک محدود نہیں، اسی طرح مظلوم کی حمایت بھی کسی مسلکی حد بندی کی محتاج نہیں۔ اگر ہم کسی ملک یا گروہ کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر اس کے موقف کو رد کر دیں تو ہم خود بھی اسی تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کیخلاف اسلام نے ہمیں خبردار کیا ہے۔ فلسطینی پرچم صرف جذبات کی لہر یا وقتی احتجاج کیلئے نہیں، بلکہ اصولی موقف، فکری استقلال اور اتحادِ امت کی علامت ہونا چاہیئے۔ اس پرچم کو کسی ایجنڈے، پراکسی یا مسلک سے جوڑنے کی بجائے، اسے ظلم کیخلاف مزاحمت اور حق کی سربلندی کا نشان بنانا ہوگا۔ جب تک امت اس بنیادی اصول کو نہیں سمجھے گی، تب تک ہم فلسطین کیساتھ بھی انصاف نہیں کرسکیں گے اور نہ ہی اپنے آپ کیساتھ۔ (مضمون نگار تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ اور پاکستان کے ممتاز عالم دین ہیں)