ورلڈ کپ کوالیفائر: پاکستان ویمنز کی مسلسل تیسری کامیابی، تباہ کن بولنگ کرکے ویسٹ انڈیز کو 65 رنز سے ہرادیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
پاکستان ویمن کرکٹ ٹٰم نے آئی سی سی ورلڈ کپ کوالیفائر میں ویسٹ انڈیز کو 65 رنز سے ہراکر اپنا تیسرا مسلسل میچ جیت لیا۔
یہ بھی پڑھیں: آئی سی سی ویمنز ورلڈ کپ کوالیفائر ٹیموں کی شاہی قلعے میں مہمان نوازی
لاہور میں کھیلے جانے والے میچ میں قومی ٹیم نے ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کو جیت کے لیے 192 رنز کا ہدف دیا تھا تاہم پاکستانی بولز کی نپی تلی بولنگ کے سبب مہمان ٹیم 40ویں اوور میں ہی محض 126 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔
ویسٹ انڈیز کی بیٹر عالیہ ایلین سب سے زیادہ 22 رنز بناکر نمایاں رہیں۔
پاکستانی کپتان فاطمہ ثنا نے 16 رنز کے عوض 3 کھلاڑی آؤٹ کیے۔ رامین شمیم اور نشرا سندھو نے 2،2 جبکہ سعدیہ اقبال نے ایک وکٹ حاصل کی۔ ویسٹ انڈیز کی 2 بیٹرز رن آؤٹ ہوئیں۔
قبل ازیں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم 191 کے اسکور پر آل آؤٹ ہوگئی تھی۔ سدرا امین نے شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 54 رنز بنائے۔ انہیں پلیئر آف دی میچ قرار دیا گیا۔
منیبہ علی نے 33 رنز، سدرا نواز نے 23 اور عالیہ ریاض نے 20 رنز بنائے۔
ویسٹ انڈیز کی جانب سے ہیلی میتھیوز، ایفی فلیچر اور کرشمہ را مہراک نے 2، 2 وکٹیں حاصل کیں جبکہ اشمنی منیسر اور عالیہ علینہ نے ایک ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔
مزید پڑھیے: آئی سی سی ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ 2025 کوالیفائرز، کون سی ٹیمیں قسمت آزمائی کریں گی؟
قبل ازیں پاکستان ٹیم نے آئرلینڈ کو 38 رنز اور اسکاٹ لینڈ کو 6 وکٹوں سے ہرادیا تھا۔ اس طرح اب قومی ٹیم کے 3 میچ کھیل کر 6 پوائنٹس ہوچکے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان ویمنز بمقابلہ ویسٹ انڈٖیز پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم ویمنز ورلڈ کپ کوالیفائر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان ویمنز بمقابلہ ویسٹ انڈ یز پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم ویمنز ورلڈ کپ کوالیفائر ورلڈ کپ کوالیفائر ویسٹ انڈیز
پڑھیں:
کار مسلسل
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی( ایف آئی اے) پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کے خلاف انکوائری کررہا ہے۔ انھیں عید الفطر کی تعطیلات سے قبل طلب کیا گیا تھا اور 11اپریل کو دفتری اوقات کے بعد ایک سوالنامہ ارسال کیا گیا، بتایا جاتا ہے کہ کسی نامعلوم شخص کی درخواست پر اس انکوائری کا آغاز کیا گیا ہے۔
یہ سوالنامہ 12نکات پر مشتمل ہے،انھیں ہدایت کی گئی تھی کہ 17اپریل تک سوالنامہ کے جوابات جمع کرائیں۔ اس سوالنامے میں ان کے سینیٹر کی حیثیت سے اور بعد میں ہونے والی آمدنی کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے طریقہ کار سے واقف صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر اب ایک چارج شیٹ تیار کریں گے، پھر مزید کارروائی کے بارے میں پتہ چل جائے گا۔
فرحت اللہ بابر بنیادی طور پر انجنیئر ہیں۔ وہ 70ء کی دہائی میں سابقہ صوبہ سرحد حکومت کے محکمہ اطلاعات میں شامل ہوئے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو بطور وزیراعظم صوبہ سرحد کے دورے پر پشاور آئے تو بھٹو صاحب نے صوبائی کابینہ میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔
احتیاط یہ کی گئی تھی کہ یہ خبر قبل از وقت افشا نہیں ہونی چاہیے اور شام کو پی ٹی وی کی خبروں میں یہ خبر شامل ہونی چاہیے۔ محکمہ اطلاعات کے اعلیٰ افسروں نے جونیئر افسر فرحت اللہ بابر کو گورنر ہاؤس بھیجا اور ہدایت کی کہ جلد سے جلد خبر کا ہینڈ آؤٹ تیار کر لیں۔ بابر صاحب نے یہ ہینڈ آؤٹ تیار کیا، یوں بھٹو صاحب ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوئے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ سرکاری نوکری کو خدا حافظ کہہ کر سعودی عرب چلے گئے اور وہاں کئی سال گزارے۔ وہ جونیجو دور میں واپس پاکستان آگئے اور پشاور سے شائع ہونے والے معروف انگریزی کے مینیجنگ ایڈیٹر بن گئے۔
اس اخبار کے ایڈیٹر معروف صحافی عزیز صدیقی تھے۔ یہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے آخری ایام تھے ۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر عزیز صدیقی اور فرحت اﷲ بابر کو اس اخبار سے رخصت ہونا پڑا۔ فرحت اﷲ بابر پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں میں شامل ہوگئے، وہ بے نظیر بھٹو حکومت کی پالیسی اور پلاننگ کمیٹی کے رکن رہے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے، تو انھوں نے انھیں اپنا پریس سیکریٹری مقرر کیا۔ وہ پیپلز پارٹی کی جانب سے کئی دفعہ خیبر پختون خوا سے سینیٹ کے رکن رہے۔ انھوں نے خواتین، ٹرانس جینڈر اور مظلوم طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہونے والی قانون سازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
انھوں نے اطلاعات کے حصول کے قانون کی تیاری میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ انسانی حقوق کے مقدمات کی پیروی بھی کی۔ وہ ایچ آر سی پیP کے بانی ارکان میں شامل ہیں اور کمیشن کے بنیادی ادارے کے منتخب رکن بھی ہیں۔ وہ اس ادارے کو فعال کرنے میں ہمیشہ متحرک رہے اور انھوں نے اپنے اس مقصد کے لیے کبھی کسی بڑی رکاوٹ کو اہمیت نہیں دی۔
فرحت اللہ بابر لاپتہ افراد کے حوالے سے آئین کے تحت دیے گئے انسانی حقوق کے چارٹر اور سول و پولیٹیکل رائٹس کنونشنز جس پر پاکستان نے بھی دستخط کیے ہیں کے تحت اس مسئلے کے لیے کبھی سینیٹ میں آواز اٹھاتے ہیں تو کبھی عدالتوں کی سیڑھیوں پر اور کبھی نیشنل پریس کلب کے سامنے بینر اٹھائے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ دفعہ پیپلز پارٹی نے فرحت اللہ بابر کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا تو بابر صاحب کے پاس انتخابی فارم کے ساتھ زرِ ضمانت جمع کرانے کے لیے رقم موجود نہیں تھی۔ ان کے چند دوستوں نے چندہ جمع کر کے زرِ ضمانت کی رقم جمع کرائی تھی۔
فرحت اللہ بابر نے ہمیشہ پیپلز پارٹی میں رہ کر مظلوم طبقات کے لیے آواز اٹھائی مگر پیپلز پارٹی کی قیادت کی خاموشی سے بہت سے پوشیدہ حقائق آشکار ہورہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے ۔ فرحت اللہ بابر پاکستان کی سول سوسائٹی کا استعارہ ہیں۔ رئیس فروغ کا یہ شعر بابر صاحب کی شخصیت پر پورا اترتا ہے:
عشق وہ کارِ مسلسل کہ ہم اپنے لیے
کوئی لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے