حکومت سندھ کی بے حسی؛ گریس مارکس کا نوٹیفکیشن تاخیر کا شکار، طلبہ کا مستقبل داؤ
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
کراچی:
سندھ حکومت کی روایتی سست روی اور غیر سنجیدگی نے کراچی کے ہزاروں طلبہ کے تعلیمی مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے پورے سندھ کی طرح کراچی میں بھی انٹر سال اول و دوئم کے سالانہ امتحانات طے شدہ فیصلے کے تحت 28 اپریل سے شروع ہونے ہیں اور اس پہلے مرحلے کے امتحانات میں 1 لاکھ کے قریب طلبہ صرف انٹر بورڈ کراچی کے تحت امتحانات دیں گے امتحانات میں اب صرف 13 روز باقی ہیں لیکن چیئرمین بورڈ نہ ہونے سے امتحانی شیڈول اور مراکز کی تفصیلات جاری ہوسکی ہیں اور نا ہی اراکین اسمبلی کی سفارشات پر انٹر سال اول کے طلبہ کو گریس مارکس دیے گئے ہیں۔
انٹر سال دوئم پری انجینئرنگ اور پری میڈیکل کے پرچوں میں شرکت کے خواہشمند تقریبا 50 ہزار طلبہ یہ بات ہی نہیں جانتے کہ انھیں اپنے فیل شدہ انٹر سال اول کے پرچے بھی دوبارہ دینے ہیں یا پھر سندھ اسمبلی کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں انھیں انٹر سال اول میں گریس مارکس دے کر پاس کردیا جائے گا۔
وزیر تعلیم سندھ سید سردار شاہ کی کنوینر شپ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین اسمبلی پر مشتمل کمیٹی کراچی کے انٹر سال اول پری انجینئرنگ اور پری میڈیکل کے نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے فزکس، کیمسٹری اور ریاضی کے پرچوں میں طلبہ کو 20 فیصد تک گریس مارکس دینے کی سفارش کر چکی ہے۔
یہ سفارش این ای ڈی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سروش لودھی کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تجویز پر کی گئی تھی اور اس حوالے سے 25 مارچ کو سندھ اسمبلی میں منعقدہ اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اراکین اسمبلی نے اس بات سے آگاہ کیا تھا کہ طلبہ کو یہ گریس مارکس دیے جارہے ہیں اور محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اس سلسلے میں سمری بنا کر وزیر اعلیٰ سندھ سے منظوری کے بعد اس فیصلے کو نوٹیفائی کردے گا۔تاہم اب کم از کم 20 روز گزرنے کےبعد بھی معاملہ جوں کا توں ہے اور محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز تاحال اس فیصلے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرسکا۔
"ایکسپریس" نے اس سلسلے میں سیکریٹری محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز عباس بلوچ سے رابطہ کیا، تاہم ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔
ادھر صورتحال یہ ہے کہ اب اگر اس فیصلے کا نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے تو انٹر بورڈ کراچی کو انٹر سال اول کے نتائج تبدیل کرنے اور طلبہ کو گریس مارکس دینے میں ایک بڑی مشق سے گزرنا ہوگا نتائج کی ٹیبولیشن دوبارہ ہوگی ایک بار پھر مارک شیٹس پرنٹ ہوں گی اور طلبہ کو جاری کی جائیں گی جس کے لیے کم از کم 1 ماہ کا وقت درکار ہے جبکہ 28 اپریل سے انٹر سال دوئم کا امتحان دینے والے طلبہ اپنے امتحانی فارم پر انٹر سال اول کے فیل شدہ پرچوں کی تفصیلات درج کرچکے ہیں۔
مزید براں گزشتہ تقریبا دو ہفتے سے انٹر بورڈ کراچی میں کوئی چیئرمین موجود نہیں ہے حکومت سندھ قائم مقام چیئرمین پروفیسر شرف علی شاہ کو سبکدوش کر چکی ہے جس کے بعد نئے چیئرمین کی تقرری کی گئی تھی انھوں نے چارج نہیں سنبھالا، اب حکومت سندھ متوقع امیدوار ریجنل ڈائریکٹر کالجز کراچی فقیر لاکھو کو چارج دینے میں تذبذب کا شکار ہے۔
امتحانات میں 13 روز باقی ہیں لیکن چیئرمین بورڈ نہ ہونے سے اب تک امتحانی شیڈول کا اجراء ہوسکا ہے اور نہ ہی سینٹر لسٹ جاری کی گئی ہے کیونکہ ان دونوں اہم فیصلوں کی منظوری چیئرمین بورڈ کی جانب سے دی جاتی ہے اور امتحانات سے 13 روز قبل بھی کراچی کے طلبہ یہ نہیں جانتے کہ ان کا امتحانی سینٹر کہاں بنایا گیا ہے اور 28 اپریل اور ازاں بعد انھیں کس مضمون کا پرچہ کس تاریخ کو دینا ہے۔
"ایکسپریس" نے قائم مقام ناظم امتحانات زرینہ چوہدری سے بھی اس سلسلے میں بات کی جس پر ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ہوم ورک تو مکمل ہے لیکن چیئرمین بورڈ ہمارا انتظامی سربراہ ہوتا ہے اس کی منظوری کے بغیر امتحانات کا شیڈول جاری کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سینٹر کی تفصیلات طلبہ کو بتائی جا سکتی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انٹر سال اول کے چیئرمین بورڈ کراچی کے طلبہ کو ہے اور
پڑھیں:
آئی ایم ایف کی حکومت کی کارکردگی سے متعلق رپورٹ جاری، 'کرپشن رپورٹ تاخیر سے شائع ہوئی'
اسلام آباد:عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے حکومت کی کارکردگی سے متعلق رپورٹ جاری کردی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ توسیعی سہولت پروگرام (سی ایف ایف)کے تحت دوسرے جائزے میں زیادہ تر اہداف پورے کرلیے گئے تاہم گورننس اور کرپشن رپورٹ تاخیر سے شائع ہوئی اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا ٹیکس ہدف بھی پورا نہیں ہوا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری حکومت کی کارکردگی رپورٹ کے مطابق پاکستان نےقرض پروگرام کے تحت دوسرے جائزے میں زیادہ تر اہداف پورے کر لیے ہیں تاہم گورننس اور کرپشن رپورٹ تاخیر سے شائع ہوئی اور ایف بی آر کا خالص ٹیکس ہدف بھی حاصل ہونے سے رہ گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 13 میں سے 8 اسٹرکچرل اصلاحات مکمل ہوئیں، زرعی آمدن پر ٹیکس اور بجٹ اصلاحات کامیابی سے لاگو کیا گیا، سرکاری افسران کے اثاثہ جات ظاہر کرنے کے قانون میں ترمیم کی گئی ہے، بجلی کے شعبے میں ادائیگیوں کا ہدف پورا کیا گیا۔
آئی ایم ایف نے بتایا کہ خصوصی اقتصادی زونز ختم کرنے کا منصوبہ بعد میں مکمل ہوا، چند ریاستی اداروں کے قوانین میں ترمیم مؤخر کی گئی، چینی کی درآمد پر استثنیٰ کی وجہ سے ایک شرط پوری نہ ہو سکی، کھاد اور کیڑے مار ادویات پر ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف پورا نہیں ہوا، 7 میں سے 6 دیگر اہم اہداف مکمل حاصل کیے گئے۔
حکومتی کارکردگی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بی آئی ایس پی کا ایک ہدف معمولی فرق سے رہ گیا، بی آئی ایس پی کے بنیادی پروگراموں پر زیادہ فنڈز خرچ ہوئے، اسٹیٹ بینک کے ذخائر اور ٹیکس ریٹرنز کے ہدف پورے ہوئے، اسٹیٹ بینک کے ڈومیسٹک اثاثوں کا ہدف بھی مکمل ہوا اور حکومتی پرائمری خسارہ مقررہ حد میں رہا۔
آئی ایم ایف کے مطابق حکومتی ضمانتیں آئی ایم ایف حد کے اندر رہیں، حکومت نے بعض رہ جانے والے اہداف پر چھوٹ مانگی ہے، صحت اور تعلیم کے اخراجات کا ہدف پورا نہیں ہو سکا۔
رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستان کی معاشی کارکردگی میں بہتری آئی ہے، مشکل حالات اور سیلاب کے باوجود معیشت مستحکم ہوئی، مالی کارکردگی مضبوط، پرائمری سرپلس 1.3 فیصد رہا، پرائمری سرپلس آئی ایم ایف ہدف کے مطابق حاصل کیا گیا جبکہ سیلاب کے بعد خوراک کی قیمتوں سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق مہنگائی کا دباؤ عارضی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر 14.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئے، ایک سال میں ذخائر 9.4 ارب سے بڑھ کر 14.5 ارب ڈالر ہوگئے ہیں اور آئندہ برسوں میں ذخائر مزید بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
اسی طرح پاکستان نے 14 سال بعد پہلا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس حاصل کیا، مضبوط پالیسیوں نے پاکستان کو حالیہ جھٹکوں سے نکالنے میں مدد دی اور رواں سال معاشی ترقی توقع سے بہتر رہی، حالیہ سیلاب نے اگلے سال کی معاشی رفتار کو کچھ کم کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل بہتری جاری ہے، سیلاب کے باوجود مہنگائی قابو میں رہی، ای ایف ایف پروگرام درست سمت میں جاری ہے، آر ایس ایف پروگرام بھی مقررہ راستے پر ہے، پہلے ریویو کے اہداف پورے ہوئے اور پاکستان کو دونوں پروگرامز کی مد میں 1.2 ارب ڈالر کی قسط جاری کر دی گئی۔
بتایا گیا کہ سیلاب کے بعد اصلاحات اور پالیسی تسلسل کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے، مالی سال26-2025 کا پرائمری سرپلس ہدف قابل حصول قرار دیا گیا ہے اور محصولات بڑھانے اور قرض کم کرنے کی اصلاحات جاری ہیں۔
آئی ایم ایف نے مہنگائی کنٹرول میں رکھنےکے لیے سخت مانیٹری پالیسی برقرار رکھنے پر زور دیا ہے، شاکس جذب کرنے کے لیے ایکسچینج ریٹ میں لچک بھی ضروری قرار دی گئی ہے، توانائی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ سے پاور سیکٹر کی بہتری میں پیش رفت ہوئی ہے تاہم پاورسیکٹر کو مستحکم کرنے کے لیےمزید اصلاحات کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ میں سرکاری اداروں میں گورننس اور سرمایہ کاری ماحول کی بہتری بھی اہم قرار دے دی گئی ہے، تجارتی اور سرمایہ کاری اصلاحات پائیدار ترقی کے لیے ضروری ہیں اور آر ایس ایف اصلاحات سے سیلابی خطرات اور پانی کے انتظام میں بہتری آئے گی۔