بلوچستان میں سیکیورٹی خدشات، بولان میل کی وقت تبدیل
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
بلوچستان میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر ٹرین کا وقت تبدیل کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: جعفر ایکسپریس واقعہ کے بعد بولان ایکسپریس کی سروسز معطل
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ریلوے ترجمان نے بتایا کہ صوبے میں سیکیورٹی خدشات کے نتیجے میں ٹرین کا وقت تبدیل کیا گیا ہے۔
ریلوے ترجمان نے کہا کہ کراچی سے کوئٹہ آنے والی بولان ٹرین جو کراچی سے شام 7 بجے روانہ ہوتی تھی اس کا وقت تبدیل کر کے شام 4 بجے کر دیا گیا ہے تاکہ دن کے اوقات میں ٹرین کوئٹہ پہنچ سکے۔
ترجمان نے بتایا کہ بولان میل کے علاوہ کسی اور ٹرین کا وقت تبدیل نہیں کیا گیا تاہم سیکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ٹرینوں کو رات کے اوقات میں بلوچستان کی حدود میں نہیں لایا جائے گا۔
مزید پڑھیے: بولان: پل کی تباہی سے ماہانہ 4 کروڑ روپے کا نقصان پہنچے گا، ریلوے حکام
ریلوے حکام کے مطابق بلوچستان سے مجموعی طور پر 3 مسافر ٹرینیں چلائی جارہی ہیں جن میں کوئٹہ سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لیے جعفر ایکسپریس روزانہ جبکہ کوئٹہ سے اندرون سندھ اور کراچی کے لیے ہر 2 روز بعد بولان میل چالائی جاتی ہے جبکہ کوئٹہ سے چمن کے درمیان ٹرین سروس بھی چلائی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز کراچی سے کوئٹہ آنے والی بولان میل کو جیک آباد پر سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے روکا گیا۔ بولان میل میں 150 سے زائد مسافر سوار تھے جو کئی گھنٹے تک سخت گرمی میں ریلوے اسٹیشن پر پریشان حال رکے رہے تاہم مسافر کے احتجاج کے سبب جیک آباد سے کوئٹہ تک کا کرایہ دیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بلوچستان میں سیکیورٹی خطرات بولان میل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان بلوچستان میں سیکیورٹی خطرات بولان میل کا وقت تبدیل بولان میل
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں 'یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔
البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔
سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔
علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔
ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔
اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔
یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔