اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 اپریل2025ء) چیئرپرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سینیٹر روبینہ خالد نے پیر کو بی آئی ایس پی کے آفیشل فیس بُک اکاؤنٹ کے ذریعہ لائیو ای-کچہری سیشن کا انعقاد کیا۔ ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی ای-کچہری کے دوران ملک بھر سے 30کالرز نے کال کرکے چیئرپرسن کواپنے مسائل سے آگاہ کیا۔ چیئرپرسن رو بینہ خالد نے بی آئی ایس پی حکام کو تمام مسائل اور شکایات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ہدایات دیں۔

سینیٹر روبینہ خالد نے ای۔کچہری کے آغاز پرتمام کالرز بالخصوص بی آئی ایس پی بینیفشریز سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ خواتین جنہیں بی آئی ایس پی سے مالی معاونت وصول کرتے ہوئے 3 سال مکمل ہوچکے ہیں ان کیلئے لازم ہےکہ وہ ریسرٹیفکیشن یعنی دوبارہ سروے کروائیں تاکہ انکی اہلیت کا تعین کیا جاسکے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ دوبارہ سروے نہ کروانے کی صورت میں مستحق خواتین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے لہذا بی آئی ایس پی تحصیل آفس سے اپنے گھرانے کا دوبارہ سروے کرالیں۔

سینیٹر روبینہ خالد نے مزید کہا کہ سروے کے دوران اپنا وہ موبائل نمبر رجسٹر کرائیں جو ہر وقت آپ کے استعمال میں ہو۔ اپنا رجسٹرڈ نمبر ہرگز تبدیل نہ کریں ، موبائل نمبر تبدیل کرنے کی صورت میں بی آئی ایس پی دفتر ضرور اطلاع دیں تاکہ مستقبل میں آپ سے رجوع کرنے کیلئے اسی موبائل نمبر کا استعمال کیا جائے۔ چیئرپرسن بی آئی ایس پی سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ ای ۔

کچہری کے انعقاد کا مقصد عوام کی براہ راست شکایات سننا اور انکا سدباب کرنا ہے۔ انہوں نے کالرز کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹریشن کیلئے سروے کی کوئی فیس نہیں ہے اور سروے بالکل مفت کیا جاتا ہے ۔ اگر بی آئی ایس پی کے نام پر آپ سے کوئی کسی بھی قسم کی فیس کا تقاضہ کرے تو وہ آپ سے جھوٹ بول رہا ہے۔ بی آئی ایس پی کی کسی بھی مرحلے پر کسی سکیم کی کوئی فیس نہیں ہے۔

سینیٹر روبینہ خالد نے مزید کہا کہ ایک مرتبہ سروے ہونے کے بعد 2 سال سے قبل اس گھرانے کا سروے ممکن نہیں لہذا بار بار سروے کی درخواست نہ کریں نہ ہی بار بار سینٹرز جا کر خود کو تکلیف میں ڈالیں ۔ انہوں نے کہا کہ 8171 کے علاوہ کسی بھی دوسرے نمبر پر بھروسہ نہ کریں، تمام دوسرے نمبرز سےآنے والے میسج در حقیقت فراڈ ہیں ۔ مستحق خواتین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی رقم پوری گن کے وصول کریں اور کٹوتی کی صورت میں فوری طور پر اپنی شکایت کا اندراج 080026477 پر کرائیں یا قریبی بی آئی ایس پی دفتر سے رجوع کریں ۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سینیٹر روبینہ خالد نے بی آئی ایس پی کہا کہ

پڑھیں:

ایران کا جوہری پروگرام(3)

اسلام ٹائمز: مسقط میں ہونیوالے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟ تحریر: سید نوازش رضا

مسقط مذاکرات سے قبل ایران نے دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود سائنسی و جوہری ترقی ممکن ہے اور وہ اس میدان میں خود کفیل ہوچکا ہے۔ اگرچہ جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم ساتھ ہی ایک خاموش مگر واضح پیغام بھی دیا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا جوہری پروگرام اب اُس سطح تک پہنچ چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ مزید برآں، ایران نے یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کی گئی تو اس کا ردعمل نہایت سخت اور سنگین ہوگا، جس کے عالمی سطح پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔"

اسرائیل کے لیے پیغام:
"ہم ٹیکنالوجی میں اتنے قریب ہیں کہ اگر چاہیں تو جوہری ہتھیار بنا سکتے ہیں، اس لیے حملے کی غلطی نہ کرنا۔" اسرائیل کے لیے یہ اسٹریٹیجک ڈیٹرنس (Strategic Deterrent) ہے، تاکہ اسرائیل کو باز رکھا جا سکے۔

امریکہ کے لیے پیغام:
ایران نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ اگر امریکہ نے باعزت اور برابری کی سطح پر مذاکرات نہ کیے اور عائد پابندیاں ختم نہ کیں، تو وہ اپنے راستے پر بغیر رکے آگے بڑھتا رہے گا۔ ایران نے یہ بھی باور کرا دیا کہ وہ جوہری ٹیکنالوجی میں اُس مقام سے آگے نکل چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔"

اسرائیل اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟
اسرائیل:
ممکنہ طور پر ایران کے سائنسدانوں، تنصیبات یا سپلائی چین کو ہدف بنا سکتا ہے، لیکن: امریکہ براہ راست فوجی کارروائی سے اس وقت گریز کرے گا، کیونکہ: یوکرین کا محاذ ابھی کھلا ہے۔ ایران کا جوابی حملہ مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک سکتا ہے

اس تمام صورتحال میں امریکہ کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے
-امریکن صدر ٹرمپ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے صرف جارحانہ بیانات دے سکتا ہے، لیکن امریکہ فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔  
-امریکی اسٹیبلشمنٹ (سی آئی اے، پینٹاگون) سفارتی حل کو ترجیح دے گی۔
یورپ اور امریکہ، خاص طور پر ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں (جیسے CIA ،MI6) ایران کی جوہری پیش رفت پر مسلسل نظر رکھتی آئی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ: ایران یورینیم کو 60% تک افزودہ کر رہا ہے، جبکہ 90 فیصد بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایران نے جدید IR-6 اور IR-9 سینٹری فیوجز بنائے ہیں۔ ایران نے ریسرچ ری ایکٹرز اور بھاری پانی کی ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔

اس لیے مغربی انٹیلیجنس دائرے میں یہ بات اب ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ ایران جوہری ٹیکنالوجی میں ایک اہم مرحلہ عبور کرچکا ہے۔ البتہ وہ عوامی سطح پر اس کو تسلیم نہیں کرتے، تاکہ ایران پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے اور اپنے لاڈلے لونڈے اسرائیلی کے اس مطالبات سے بچا جاسکے کہ "فوری حملہ کرو۔" اب سوال یہ ہے کہ امریکہ مسقط مذاکرات میں کیا حاصل کرنا چاہتا تھا اور کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔؟ کیا وہ سفارتی ذرائع کے ذریعے JCPOA جیسے معاہدے کی جانب واپسی کا راستہ اختیار کرے گا، یا پھر اپنی سپر پاور حیثیت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے مزید دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور خفیہ فوجی اقدامات کا سہارا لے گا؟"

ظاہراً امریکہ کے پاس سفارتی ذرائع کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے کے سوا کوئی مؤثر آپشن نظر نہیں آتا، کیونکہ ماضی میں اقتصادی پابندیوں نے ایران پر خاطر خواہ اثر نہیں ڈالا اور فوجی اقدام دنیا کو ایک ممکنہ عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ "ایران نے جس انداز سے اب تک اپنی فوجی اور جوہری طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے امریکہ کو یہ باور کرا دیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر اب ایک طاقتور اور متوازن فریق موجود ہے۔ ٹرمپ چاہے زبان سے سخت لہجہ اختیار کریں، لیکن اندرونی طور پر انہیں لچک دکھانا پڑے گی، کیونکہ ایران اب "دباؤ" کے بجائے "ٹیکنالوجی" کی زبان میں بات کرے گا۔

مسقط میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟

متعلقہ مضامین

  • سام سنگ کا نیا اسمارٹ فون آتے ہی چھا گیا!
  • خیبرپختونخوا حکومت نے آئندہ مالی سال کیلیے بجٹ کی تیاری شروع کر دی
  • پنجاب حکومت نے زیادہ گندم اگانے والے کاشتکاروں کیلئے انعام کا اعلان کردیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ، ماتحت عدلیہ کے 2ججز کی خدمات پشاور ہائیکورٹ کو واپس
  • پی ایس ایل 10: آج کراچی کنگز اور پشاور زلمی کے درمیان جوڑ پڑے گا
  • افغانستان پولیو ختم کرنے کیلئے پاکستان سے بہتر کوششیں کررہا ہے، مصطفی کمال
  • چین پر محصولات عائد کرنے سے پیداہونے والے بحران پر وائٹ ہاؤس ایک ٹاسک فورس تشکیل دے گا
  • ایران کا جوہری پروگرام(3)
  • گندم پر سپورٹ پرائس ختم ہونے پر کسانوں کو 900 ارب روپے نقصان ہوا. خالد حسین باٹھ
  • پہلی مرتبہ جائیداد منتقلی پر ایڈوانس انکم ٹیکس وصولی لاگو نہیں ہوتی، ہائیکورٹ