اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اپریل 2025ء) یہ ادارہ اب وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر ونگ کی جگہ لے گا اور پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2025 کے تحت کام کرے گا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ این سی سی آئی اے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو گا اور ملک بھر میں ضلعی سطح پر ’’سائبر تھانے‘‘ قائم کیے جائیں گے تاکہ شہریوں کی رسائی آسان بنائی جا سکے۔

پاکستان میں بڑھتے سائبر کرائمز، زیادہ شرح مالیاتی جرائم کی

پیکا ایکٹ کتنا صحیح کتنا غلط؟

پولیس سروس آف پاکستانکے ایک اچھی شہرت کے حامل افسر وقار الدین سید کو اس نئے ادارے کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا ہے۔

’’میری تصاویر وائرل ہوئیں، اور کوئی دروازہ نہ تھا‘‘

کراچی کی رہائشی 26 سالہ ماہم (فرضی نام) کے لیے 2023 کا سال کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔

(جاری ہے)

اُن کی نجی تصاویر اُن کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیک ہونے کے بعد وائرل ہو گئیں اور انہیں بلیک میل کیا گیا۔

ماہم کے مطابق انہیں ایف آئی اے کے دفتر تک کورنگی سے گلستان جوہر جانا پڑا، جہاں کئی گھنٹے انتظار کے بعد انہیں محض ایک کاغذ تھما دیا گیا۔ کیس میں انصاف حاصل کرنے میں چھ ماہ لگے، وہ بھی اس وقت جب انہوں نے نجی طور پر ایک آئی ٹی ماہر کی مدد حاصل کی۔

ماہم کہتی ہیں، ’’اگر میرے ضلع میں کوئی سائبر تھانہ ہوتا تو میں فوری طور پر مدد حاصل کر سکتی تھی۔ میرے جیسے کئی لوگ صرف اس لیے خاموش رہ جاتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے۔‘‘

80 فیصد شکایات، صرف 20 فیصد وسائل

2024 میں ایف آئی اے کو موصول ہونے والی کل شکایات میں سے تقریباً 80 فیصد سائبر کرائمز سے متعلق تھیں۔

تاہم ایف آئی اے کے مجموعی وسائل کا صرف 20 فیصد حصہ سائبر ونگ کو فراہم کیا گیا، جبکہ 80 فیصد وسائل امیگریشن، اکنامک کرائم اور اینٹی کرپشن ونگز پر خرچ کیے گئے۔

این سی سی آئی اے کے حکام کے مطابق، اسی فرق کو ختم کرنے اور سائبر کرائمز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی نوعیت کے مطابق وسائل اور مہارت مختص کرنے کے لیے نیا ادارہ قائم کیا جا رہا ہے۔

لوگو، وردی، نئی شناخت اور اختیارات

این سی سی آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمود الحسن ستی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں بتایا کہ اس ’’ادارے کے لیے مخصوص وردی، لوگو، اور دیگر انتظامی اقدامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔‘‘ ان کے مطابق ایف آئی اے کے سائبر ونگ کی افرادی قوت، ٹیکنالوجی اور دیگر وسائل این سی سی آئی اے کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ادارہ صرف شکایات سننے تک محدود نہیں ہوگا بلکہ تکنیکی تربیت، ڈیجیٹل فارنزک، اور تیز رفتار کارروائی کے لیے ایک جامع فریم ورک پر کام کرے گا۔

محمود الحسن ستی کے مطابق، ’’جو شخص جان بوجھ کر کسی ایسی اطلاع کو، جس کے غلط یا جھوٹا ہونے کا اسے علم ہو یا خدشہ ہو، پھیلائے گا یا عوام میں خوف و ہراس پیدا کرے گا، اسے تین سال تک قید یا بیس لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

‘‘

ایڈیشنل ڈائریکٹر نے مزید بتایا کہ معاملات کو شفاف بنانے کے لیے ایک سوشل میڈیا کونسل بنائی جا رہی ہے اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی میں صحافیوں کی نمائندگی بھی رکھی جائے گی۔ قبل ازیں یہ اختیارات دفعہ 37 کے تحت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے پاس تھے۔

سوشل میڈیا کونسل اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی

حکومت سوشل میڈیا کونسل اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی کے قیام کی بھی تجویز دے رہی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ضابطۂ اخلاق کا پابند بنایا جائے گا، اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی صارفین کے ڈیٹا اور آن لائن حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔
فی الحال ملک کے چند بڑے شہروں میں سائبر کرائم سیل فعال ہیں۔ این سی سی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ ضلعی سطح پر سائبر تھانے قائم کیے جائیں گے، جس سے شکایت درج کروانا آسان اور فوری ہوگا۔
ادارے کے مطابق، عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے پیکا قانون کا اردو ترجمہ ویب سائٹ پر جاری کیا جا رہا ہے۔

اگلے مراحل میں قانون کو پنجابی، پشتو، سندھی اور بلوچی زبانوں میں بھی ترجمہ کر کے عام فہم بنایا جائے گا۔

ایک سائبر کرائم ماہر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’عوام کو معلوم ہی نہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔ جب تک قانون کو آسان زبان میں نہ سمجھایا جائے، اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔ اگر این سی سی آئی اے نے ایف آئی اے کی طرز پر روایتی پولیسنگ کی، تو عوام میں پذیرائی حاصل کرنا مشکل ہوگا۔

‘‘ پیکا قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے خدشات

پاکستان کے ایک سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک پیکا قانون دراصل ’’مارشل لا‘‘ ہے۔ ان کے مطابق، یہ قوانین نہ صرف صحافیوں بلکہ سیاست دانوں پر بھی لاگو ہوں گے، جیسا کہ فرحت اللہ بابر کو نوٹس دیے جانے کی مثال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ: ’’شق 26 اتنی وسیع ہے کہ کسی کو بھی اس کے تحت نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو اس قانون کی شدت کا اندازہ تب ہوگا جب وہ خود اپوزیشن میں ہوں گے۔‘‘

پیکا ایکٹ 2016 میں متعارف ہوا تھا۔ 2023 اور اب 2025 میں اس میں اہم ترامیم کی گئی ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم عوامی مفاد میں کی گئی ہیں، مگر بعض حلقے انہیں آزادیِ اظہار پر قدغن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

صحافیوں، ڈیجیٹل رائٹس کارکنوں اور سوشل میڈیا صارفین کا مؤقف ہے کہ پیکا ایکٹ کو مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

این سی سی آئی اے کے ایک افسر نے تاہم ان تحفظات کے حوالے سے کہا، ''یہ غلط فہمی ہے کہ ہم اظہارِ رائے پر پابندی لگا رہے ہیں، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اسی نوعیت کے قوانین موجود ہیں۔ اصل ہدف ان افراد کو روکنا ہے جو یوٹیوب یا دیگر پلیٹ فارمز پر بغیر ثبوت کے لوگوں پر الزامات لگاتے ہیں یا جعلی خبریں پھیلاتے ہیں۔‘‘

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سی سی آئی اے سوشل میڈیا ایف آئی اے آئی اے کے کے مطابق کے لیے

پڑھیں:

نہروں کا مسئلہ وفاق کو خطرے میں ڈال سکتا، منصوبہ واپس نہ لیا تو حکومت کیساتھ نہیں چلیں گے: بلاول

حیدرآباد (نوائے وقت رپورٹ)پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وفاق کینالز منصوبے کو واپس لے ورنہ پیپلزپارٹی حکومت کے ساتھ نہیں چلے گی۔ پانی کی تقسیم کا مسئلہ وفاق کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ یہ بات انہوں نے حیدر آباد میں پیپلز پارٹی کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا عمر کوٹ میں پیپلز پارٹی کی جیت مبارک ہو، پاکستان کے عوام آج بھی شہید بینظیر بھٹو کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سندھ کے عوام نے ثابت کردیا کہ سندھ میں صرف تیر کا مینڈیٹ ہے، 17 جماعتیں ایک طرف اور پیپلز پارٹی ایک طرف تھی پھر بھی فتح ہمیں ملی۔ انہوں نے کہا حیرت تو اس بات پر ہے کہ ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف اور ن لیگ ایک پیج پر تھے مگر عوام نے انہیں تاریخی شکست دی اور وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا اسلام آباد والے اندھے اور بہرے ہیں، سندھ کے عوام نے کینالز منصوبہ مسترد کردیا ہے۔  انہوں نے کہا 6 میں سے دو کینالز کی منظوری قیدی نمبر 420 نے دی تھی، اس وقت بھی پیپلزپارٹی نے مزاحمت کی تھی۔ ہم عوام کی طاقت سے انکے خلاف عدم اعتماد لے کر آئے اور دو کینال کی اجازت دینے والے کوگھر بھیج دیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا  اگر حکومت یہ متنازعہ منصوبہ روک دے تو میں اسکے ساتھ بیٹھ کر زرعی ترقی کیلئے اگلے 50سال کے منصوبے بنانے کیلئے تیار ہوں۔چیئرمین پی پی نے کہا پانی کی تقسیم کا مسئلہ وفاق کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، انہوں نے کہا دہشت گرد تنظیمیں بلوچستان اور خیبر پی کے میں حملے کر رہی ہیں عین اسی وقت ایسا موضوع چھیڑ دیا گیا جس سے بھائی کے بھائی سے لڑنے کا خطرہ  ہے‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے پیاسے مرجانے کا خطرہ ہے۔  ان کا کہنا تھا کہ شیر والوں کا ہر منصوبہ کسان دشمن ہوتا ہے،  گندم سکینڈل کی وجہ سے کسانوں کا معاشی قتل عام ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا شیر والے صرف عوام کا خون چوستے ہیں اور کچھ نہیں کرتے۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا حکومت کسی غلط فہمی میں نہ رہے کہ پیچھے ہٹ جاؤں گا‘ میں عوام کے ساتھ کھڑا ہوں۔ ہم نے شہباز شریف کو ایک بار نہیں دو بار وزیراعظم بنوایا اور کیا اب دھمکی سے پیپلز پارٹی کو ڈرایا جائے گا؟ یہ سمجھتے ہیں دھمکیوں سے ہمیں ڈرائیں گے، ہم تو ہر مشکل سہہ کر بھی پیچھے نہیں ہٹتے‘ ہم اصولوں پر سودا نہیں کریں گے۔ آپ آپنا متنازعہ کینالز منصوبہ چھوڑ دیں، میں عوام کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا‘ ہم اپنا وفاق‘ اپنا کسان اور اپنا سندھ بچائیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے شہباز حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی دیدی اور کہا کہ وفاق کینالز منصوبے کو واپس لے ورنہ پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ نہیں چلے گی۔ انہوں نے کہا 25اپریل کو سکھر میں پیپلزپارٹی کا تاریخی جلسہ اور احتجاج ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ کی عوام اپنے حقوق کا سودا کرنے والوں کو کسی قسم کے مذاکرات کا حق نہیں دیگی، سردار عبدالرحیم
  • کوہ ہندوکش و ہمالیہ میں برف باری کم ترین سطح پر پہنچ گئی، دو ارب انسان خطرے سے دوچار
  • کراچی کی شاہراؤں پر چمکدار پینٹ لگائے بچے خطرے میں ہیں، گلوکار بلال مقصود
  • بہار کے سابق رکن اسمبلی ماسٹر مجاہد عالم وقف قانون کی حمایت کرنے پر جنتا دل یونائیٹڈ سے مستعفی
  • عیدالاضحی:جانو روں کی خریداری کرنے والوں کےلئے اہم خبر
  • جائیداد کی کم قیمت لگاکر ٹیکس بچانے والوں کیلئے بری خبر
  • کاروبار پر حملہ کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا،طلال چوہدری
  • عوامی فیصلوں کو ماننا چاہیے، کوئی ادارہ ریاست نہیں، وزیر بلدیات سندھ
  • بھارتی پولیس افسر متنازعہ وقف ترمیمی قانون کیخلاف بطور احتجاج مستعفی
  • نہروں کا مسئلہ وفاق کو خطرے میں ڈال سکتا، منصوبہ واپس نہ لیا تو حکومت کیساتھ نہیں چلیں گے: بلاول