چینی اور غیر ملکی فلمی صنعتوں میں گہرا تعاون وقت کا تقاضہ ہے، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
چینی اور غیر ملکی فلمی صنعتوں میں گہرا تعاون وقت کا تقاضہ ہے، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 14 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ :ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز کے دورہ چین کے موقع پر چین اور اسپین نے بیجنگ میں معیشت و تجارت، تعلیم، ثقافت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کی متعدد دستاویزات پر دستخط کیے۔ ان میں سے دونوں ممالک کے درمیان “فلمی صنعت میں تعاون پر مفاہمت کی یادداشت” نے بہت زیادہ توجہ حاصل کی ہے۔ مفاہمت کی اس یادداشت کے مطابق چین اور اسپین فلم کے شعبے میں تبادلوں اور تعاون کو مزید گہرا کریں گے اور فلمی فیسٹیولز اور نمائشوں میں شرکت، فلموں کی باہمی اسکریننگ، مشترکہ پراڈکشن اور اہلکاروں کے تبادلوں میں عملی تعاون کو وسعت دیں گے۔ اتفاق سے اس سے چار دن قبل یعنی 7 اپریل کو ، چائنا چھانگ چھون فلمی گروپ نے بوڈاپیسٹ میں ہنگری فلم ایشیا کے ساتھ “اسٹریٹجک تعاون فریم ورک معاہدے” پر دستخط کیے ، جس میں فلم پراجیکٹ اور مارکیٹنگ کے شعبوں میں گہرے تعاون پر اتفاق رائے ہوا۔بنی نوع انسان کی مشترکہ زبان کے طور پر ، فلم ہمیشہ ثقافتی تبادلے کا ایک اہم ذریعہ رہی ہے ۔
خاص طور پر آج، جب معاشی عالمگیریت کو مشکلات کا سامنا ہے اور یکطرفہ تسلط پسندی کی سوچ شدت اختیار کر رہی ہے، چین کا اس شعبے میں دیگر ممالک کے ساتھ تعاون نہ صرف فنکارانہ تبادلے کا مشن رکھتا ہے، بلکہ کثیر الجہتی کے تحفظ اور تہذیبوں کے مابین باہمی سیکھ کو فروغ دینے کا ایک مؤثر طریقہ بھی بن گیا ہے.
چین اور جاپان کی مشترکہ پراڈکشن میں بننے والی فلم ‘دی لیجنڈ آف دی ڈیمن کیٹ’ تھانگ شاہی دور کے منظرنامے اور جاپانی جمالیات کاانضمام کرتی ہے۔ ان مشترکہ پراڈکشنز کی کامیابی سے ثابت ہوتا ہے کہ تہذیبوں کے درمیان مکالمہ ایسے فن پاروں کو جنم دے سکتا ہے جو جغرافیائی حدود سے تجاوز کرتے ہوں ۔آج چین نے دنیا بھر کے 30 سے زائد ممالک اور خطوں میں چینی فلم فیسٹیولز منعقد کیے ہیں۔ “” نیژا 2″ باکس آفس پر عالمی فلمی تاریخ میں ٹاپ فائیو میں شامل ہے۔ 2024 میں ‘بلیک ڈاگ ‘ اور ‘مائی فرینڈ آندرے’ کو بالترتیب کانز اور ٹوکیو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں انعام ملا۔ ” کری ایشن آف دا گاڈز ون :کنڈم آف اسٹارمز ” ” کی بیرون ملک نشریات 160 سے زیادہ ممالک اور خطوں کا احاطہ کرتی ہے اور اس فلم کو فرانس کے 140 سینما گھروں میں تقریباً 500 بار دکھایا جا چکا ہے۔ ایک ہی وقت میں ، چین اور فرانس کے درمیان دستخط کردہ فلم اور ٹیلی ویژن اینیمیشن تعاون کے معاہدے نے دونوں اطراف کی تکنیکی جدت طرازی کو فروغ دیا ہے۔ اطالوی فلم انڈسٹری ایسوسی ایشن کے بین الاقوامی شعبے کے ڈائریکٹر رابرٹ اسٹابیل نے چینی فلم انڈسٹری کی پیشہ ورانہ مہارت اور کارکردگی کی تعریف کی اور سعودی بحیرہ احمر فلم فیسٹیول نے چینی فلموں کو متعارف کرانے کے لیے ایک سیکشن قائم کرنے میں پہل کی ۔ یہ ساری سرگرمیاں اور کامیابیاں چینی فلم انڈسٹری اور غیر ملکی فلم انڈسٹریز کے درمیان تعاون میں بھر پور قوت کی عکاس ہیں ۔12 اپریل تک ، 2025 میں چین کا باکس آفس (بشمول پری سیلز) 25 بلین یوآن سے تجاوز کر چکا تھا ،
جو دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی فلم مارکیٹ کے طور پر، باکس آفس کی شاندار کارکردگی مارکیٹ کی زبردست کشش ظاہر کر رہی ہے. چینی مارکیٹ وسیع ہے اور جو بھی اچھی فلم ہو، چینی ناظرین اس کی تعریف کا اظہار اپنی زبان سے اور اس کی پزیرائی اسے سنیما میں جا کر دیکھ کر کرتے ہیں. 2017 میں فلم ” دنگل ‘ نے چینی مارکیٹ میں باکس آفس پر تقریباً 1.3 ارب یوآن کمائے جو بھارت میں اس کے ملکی باکس آفس سے کہیں زیادہ آمدنی تھی ۔
تھائی فلم ” بیڈ جینئیس ” نے چینی مارکیٹ میں باکس آفس پر 270 ملین یوآن کما کر چین میں کسی بھی تھائی فلم کا باکس آفس ریکارڈ توڑ ا.چین کی نیشنل فلم ایڈمنسٹریشن نے بارہا یہ واضح کیا ہے کہ چین کھلے پن اور جامعیت کے اصول پر قائم رہتے ہوئے مختلف ممالک سے مزید زیادہ اقسام کی اچھی فلمیں درآمد کرےگا اور بین الثقافتی رشتے کے طور پر فلم کے اہم کردار کو سمجھتے ہوئے اسے ادا کرے گا ۔یہ پالیسی اور تصور مختلف ممالک کے وسائل کا مؤثر انضمام ، تخلیقی موضوعات کی فراوانی اور عالمی ثقافتی تنوع کے بقائے باہمی کو فروغ دے گا.عالمی فلم انڈسٹری کی ایک سو تیسویں اور چینی فلم انڈسٹری کی ایک سو بیسویں سالگرہ کے تاریخی موڑ پر کھڑے ہو کر ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ فلموں کا تبادلہ اور تعاون، چین اور دنیا کے دیگر ممالک اور علاقوں کے مابین تفہیم اور اعتماد کو بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ بن چکاہے.
چینی اور غیر ملکی فلموں کے درمیان تعاون کو گہرا کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔ پہاڑوں اور سمندروں کو پارکرکے روشنی اور سائے سے بنتے فنی و تیکنیکی مکالمے و تبادلے نہ صرف اس صنعت کی ترقی کے لئے ایک ناگزیر انتخاب ہیں، بلکہ یہ باہمی تعاون انسانیت کا ہم نصیب معاشرہ تشکیل دینے میں بھی ایک روشن راستہ ہے ۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: چینی اور غیر ملکی
پڑھیں:
پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی کے لیے صرف فلم سٹی کافی نہیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اپریل 2025ء) ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی فلم انڈسٹری کی صورت حال پر قریب سے نظر رکھنے والے صحافی طاہر سرور میر نے صوبہ پنجاب میں ایک فلم سٹی بنانے کے اعلان کا خیر مقدم تو کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر جملہ سہولیات کی فراہمی کے باوجود مواد کی تخلیق میں آزادی کو یقینی نہ بنایا گیا، تو ملکی فلمی صنعت کی بحالی کا مقصد پورا نہیں ہو گا۔
لاہور میں نیشل کالج آف آرٹس کی اسما نامی ایک سابقہ طالبہ نے، جو ایک نوجوان فلم میکر بھی ہیں، ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لوگ سینما گھروں میں اس لیے جاتے ہیں کہ وہ حقیقی دنیا سے کچھ دیر کے لیے دور ہو کر دلچسپ اور تفریحی فلمیں دیکھ سکیں۔
اسما کا کہنا تھا کہ اگر سینما گھروں میں بھی شائقین نے پراپیگنڈا ہی دیکھنا اور سننا ہے، تو پھر ایسی فلمیں دیکھنے کے لیے ٹکٹیں کون خریدے گا؟ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں کئی فلمیں معمولی غلط فہمیوں کی وجہ سے بھی طویل عرصے تک ریلیز نہ ہو سکیں، ''تو یہ ایسے معاملات ہیں، جن پر حکومت کو توجہ دینا چاہیے۔
(جاری ہے)
‘‘ عوام کو فلموں سے دور کن عوامل نے کیا؟طاہر سرور میر کہتے ہیں کہ پاکستان میں سابق فوجی حکمران ضیا الحق کے دور میں بھارتی اداکار شتروگھن سنہا ان کے گھر آتے جاتے رہے لیکن پاکستان میں فلم انڈسٹری پابندیوں ہی کا شکار رہی۔ اس کے علاوہ پاکستانی فلم انڈسٹری کو پابندیوں کے علاوہ دہشت گردی کا بھی سامنا کرنا پڑا، سینما گھروں میں بم دھماکے ہوتے رہے اور رہی سہی کسر ان کم تعلیم یافتہ لوگوں نے پوری کر دی، جو پاکستانی فلمی صنعت کا حصہ بن گئے تھے، ''ان عوامل کے باعث تخلیقی شخصیات اور عام شائقین فلموں سے دور ہوتے چلے گئے۔
‘‘آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں بیشتر روایتی سینما گھر اب شادی ہالوں، ورکشاپوں،پارکنگ ایریاز اور شو رومز میں بدل چکے ہیں۔ لاہور کے معروف گلستان سینما میں موجود اکرم نامی ایک شخص نے بتایا کہ پچھلے کئی ہفتوں سے یہ سینما بند ہے اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ سینما دوبارہ کب کھلے گا۔ اسی طرح نغمہ سینما کے باہر موجود نثار نامی ایک شخص نے بتایا کہ وہاں سینما مستقل طور پر ختم ہو چکا ہے۔
کئی ماہرین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فلم سٹی جیسے منصوبے کو اگر افسر شاہی کے سپرد کر دیا گیا، یا اگر اسے اقربا پروری اور سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا، تو یہ صرف وسائل کے ضیاع کا باعث بنے گا۔
فلموں سے متعلق عمومی سوچ کی تبدیلی کی ضرورتاداکارہ جیا علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آرٹ، کلچر اور فلموں کے بارے میں ملکی اشرافیہ کو اپنی سوچ بدلنا ہو گی اور مقابلتاﹰ زیادہ بہتر طرز عمل اپنانا ہو گا۔
انہوں نے کہا، ''ہم نے اپنے سکولوں میں طلبا کو ڈرامہ، میوزک، ڈانس اور تھیٹر کی تربیت حاصل کرتے دیکھا تھا۔ اسی طرح آج بھی آرٹ کو اسکولوں میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے، تاکہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں سامنے آ سکیں۔‘‘ ان کے بقول آرٹ اور کلچر سے متعلق ملکی پالیسیوں کا دیرپا ہونا بھی ناگزیر ہے۔
کن فلمی میلہ: ٹرانس جینڈر سے متعلق پاکستانی فلم انعام کی حقدار
طاہر سرور میر سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی ریاست اور معاشرے کی ترجیح ہے ہی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں فلم کو بھی ابلاغ عامہ کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے، تاہم پاکستان میں فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد کو کمتر اور برا سمجھا جاتا ہے۔طاہر سرور میر کے بقول، ''پاکستانی فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے اس سیکٹر کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا۔ اسے عزت دینا ہو گی۔ اس شعبے کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی۔ دوسری طرف پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کو بھی ذمہ دارانہ طرز عمل اپنانا ہو گا۔
‘‘ ماضی میں فلمی شعبے سے متعلق کیے گئے اعلاناتصحافت کے سینئر استاد، پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کی فلمی صنعت کی بحالی کے کئی اعلانات ماضی میں بھی کیے گئے، لیکن ان کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔
انہوں نے کہا، ''اہم ترین بات تربیت یافتہ افرادی قوت کی عدم دستیابی ہے۔‘‘ ان کے بقول یونیورسٹیوں میں فلم اسٹڈیز پڑھانے والے خود فلم کی عملی تربیت سے عاری ہیں اور اسی لیے ان سے تعلیم حاصل کرنے والوں کو بھی کچھ نہیں آتا۔
‘‘لالی وڈ کا زوال: کراچی پاکستان فلم انڈسٹری کا مرکز کیسے بنا؟
پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر کے بقول پاکستانی معاشرے میں یہ غلط تاثر عام ہے کہ لوگ پیدائشی اداکار ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق فلم سازی ایک سنجیدہ کام ہے، جس کے لیے اداکاروں، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز سب کو اچھی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، ''پہلے لوگ اداکار بننے کی آرزو کرتے تھے۔
اب ہر کوئی پہلے ہی دن سے سپر سٹار بن جانا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ معیار کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتا۔‘‘ڈرامہ نگار اور اداکار افتخار احمد عثمانی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فلم سٹی کے قیام کا اعلان ایک اچھا اقدام ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ فلمی صنعت ''بےجا سرکاری پابندیوں میں جکڑی ہوئی نہیں ہونا چاہیے۔
‘‘ وفاقی وزارت کے پاس سو سے زائد فلموں کی تجاویزافتخار احمد عثمانی کے مطابق، ''اب تک میں نے خود جتنے بھی ڈرامے لکھے ہیں، ان میں ایک ڈرامہ نگار کے طور پر میرے اپنے اندر بھی ایک سنسرشپ تھی، کہ فلاں بات نہیں لکھنا چاہیے کیوں کہ وہ معاشرے کے لیے بہتر نہیں۔ آج بھی میں جو ویڈیوز بناتا ہوں، ان میں میری کوشش ہوتی ہے کہ اچھے اور مہذب الفاظ کا چناؤ کروں۔
یا پھر اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کر کے زیب داستاں کے لیے اسے اس قابل بنا دوں کہ اس ویڈیو کہانی کو بچے، بچیاں، بزرگ، سبھی دیکھ سکیں اور اس سے کچھ نہ کچھ سیکھ بھی سکیں۔‘‘پاکستانی فلمی صنعت: زوال کی گرد سے عروج کے چڑھتے سورج تک
پاکستان کی وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات میں فلم کے شعبے کے سربراہ جاوید میاں داد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فلمی صنعت کی بحالی کے لیے وفاقی حکومت کے پاس 107 فلموں کی تجاویز آئی ہوئی ہیں اور حکومت اگلے چند ہفتوں میں ان میں سے 50 کے قریب فلموں کی تجاویز منظور کر کے انہیں فلمیں بنانے کے لیے گرانٹ دے گی جو کہ زیادہ سے زیادہ پانچ کروڑ تک ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے صوبے میں پہلے فلم سٹی، فلم اسٹوڈیو، پوسٹ پروڈکشن لیب اور فلم اسکول کے قیام کی منظوری دے دی۔ ساتھ ہی فلموں کی تیاری کے لیے امدادی رقوم کی فراہمی کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔
ادارت: مقبول ملک