اسٹوریج کی کمی سے سبزیوں کی فصل ضائع ہونے لگی
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
لاہور:
اسٹوریج کی کمی سے سبزیوں کی فصل ضائع ہونے لگی، سبزیوں کی کاشت میں 15 سے 64 فیصد تک اضافے سے قیمتیں 52 فیصد تک گر گئیں۔
زرعی پیداوار میں اضافہ عموماً کسی بھی زرعی معیشت کے لیے خوش آئند تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم، جب جدید ذخیرہ، پراسیسنگ اور پیکیجنگ کی سہولیات میسر نہ ہوں تو فصلوں کی زیادتی کسانوں کے لیے مصیبت بن جاتی ہے۔ نتیجتاً یا تو کسانوں کو اپنی پیداوار انتہائی کم قیمت پر فروخت کرنا پڑتی ہے یا پھر سبزیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔
پنجاب میں گزشتہ برس گندم کی کاشت سے بھاری نقصان اٹھانے کے بعد بڑی تعداد میں کسانوں نے موسمی سبزیوں کی طرف رجوع کیا جن میں مٹر، آلو، گوبھی، پیاز، ٹماٹر، لہسن، گاجر اور مولی شامل ہیں۔ تاہم مقامی طلب میں کمی، برآمدات میں کمی اور پیداوار میں اضافے کی وجہ سے سبزیوں کی قیمتیں گزشتہ پانچ برسوں کی کم ترین سطح پر پہنچ گئیں، جس سے کسانوں کو شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
بھسین کے رہائشی کسان علی حمزہ نے گزشتہ سال 10 ایکڑ پر گندم کاشت کی اور نقصان اٹھایا۔ اس سال انہوں نے 5 ایکڑ پر مٹر، شلجم، گاجر، مولی اور ساگ جیسی سبزیاں اگائیں، مگر اس بار بھی قیمتوں کے گرنے کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’صرف گوبھی اور گاجر کی فصل میں مجھے 3 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ گوبھی تو میں نے مارکیٹ میں بیچنے کے بجائے جانوروں کے لیے چارہ بنا دیا۔‘‘
اسی طرح سبزی منڈی کے ایک آڑھتی میاں افضل نے بتایا کہ کسانوں کے ساتھ ساتھ بیج، کھاد یا قرض دینے والے آڑھتی بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ’’کسان فصل کی کٹائی کے بعد ادھار چکاتے ہیں، لیکن اب تو انہیں فصل کاٹنے اور مارکیٹ پہنچانے کے اخراجات بھی نہیں مل رہے، وہ قرض کیسے واپس کریں گے؟‘‘
پنجاب ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ (ایکسٹینشن) کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر انجم علی بٹر کے مطابق ’’اس بار سبزیوں کی کاشت معمول سے پہلے شروع ہوگئی تھی اور موسم سازگار رہا، جس سے پیداوار میں اضافہ ہوا۔ مزید برآں، اس سال آلو اور بند گوبھی جیسی سبزیاں افغانستان برآمد نہ ہو سکیں، جس سے مقامی منڈی میں سپلائی بڑھ گئی اور قیمتیں گر گئیں۔‘‘
ایوب ایگریکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد کے سینیئر سائنسدان عامر لطیف نے بھی تصدیق کی کہ سبزیوں کی زیادہ فراہمی نے قیمتوں میں کمی کا سبب بنی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’گزشتہ سال گندم کے کسانوں کو مناسب قیمت نہیں ملی، اس لیے اس سال انہوں نے متبادل فصلوں، خصوصاً سبزیوں کی کاشت کا رخ کیا۔‘‘
پنجاب ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، اس سال گندم کی کاشت 11.
ترقی پسند کسان عامر حیات بھنڈارا نے نشاندہی کی کہ چونکہ سبزیاں جلد خراب ہونے والی اشیاء ہیں، اس لیے ان کی شیلف لائف کو بڑھانے کے لیے جدید پراسیسنگ، ذخیرہ اور کولڈ چین سہولیات کی اشد ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اگر یہ سہولیات ہوں تو کسانوں کو پیداوار فوری منڈی پہنچانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ دنیا بھر میں خشک سبزیاں عام ہیں کیونکہ وہ زیادہ عرصے تک تازہ رہتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ رجحان نہیں ہے۔‘‘
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سبزیوں کی کاشت کسانوں کو کے لیے اس سال
پڑھیں:
خیبرپختونخواہ حکومت کا ٹرانسپلانٹ اور امپلانٹ سروسز مفت فراہم کرنے کا فیصلہ
پشاور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 اپریل 2025ء ) پاکستان تحریک انصاف کی خیبرپختونخواہ حکومت نے ٹرانسپلانٹ اور امپلانٹ سروسز مفت فراہم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس حوالے سے مشیر اطلاعات خیبرپختونخواہ بیرسٹر سیف نے بتایا ہے کہ صوبائی حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے وژن کے مطابق صحت کے شعبے میں ایک اور انقلابی قدم اٹھا لیا اور اب ٹرانسپلانٹ اور امپلانٹ سروسز مفت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ گردے، جگر اور بون میرو ٹرانسپلانٹ کے تمام اخراجات صحت کارڈ کے تحت حکومت برداشت کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ کوکلیئر امپلانٹ کے مہنگے علاج کا خرچ بھی حکومت خود اٹھائے گی۔(جاری ہے)
صوبائی مشیر اطلاعات نے مزید کہا کہ منشیات کے عادی افراد کی بحالی کو بھی جلد صحت کارڈ پروگرام میں شامل کیا جائے گا اور اس حوالے سے وزیراعلیٰ نے محکمہ صحت کو ضروری ہدایات جاری کر دی ہیں، علاج، تحقیق اور صنعتی مقاصد کے لیے کینابیس (بھنگ) پلانٹ کے استعمال سے متعلق قواعد و ضوابط کی منظوری بھی دی گئی ہے جو کہ طب و صنعت کے میدان میں جدت کا دروازہ کھول سکتی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں مخصوص اضلاع میں بھنگ کاشت کی جائے گی اور اس کے لیے باقاعدہ لائسنس جاری کیے جائیں گے، مختلف شعبوں کے لیے لائسنس فیس الگ ہوگی، لائسنس کے اجراء کے لیے زراعت، صحت، ایکسائز، نارکاٹیکس اور دیگر متعلقہ محکموں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی، حکومت نے ایک ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی منظوری بھی دے دی ہے جو بھنگ سے متعلق تمام امور کو ریگولیٹ کرے گی۔ صوبائی وزیر زراعت سجاد برکوال نے بتایا کہ اس شعبے کو ریگولیٹ کیا جا رہا ہے، ابتدائی مرحلے میں بھنگ کی کاشت مخصوص علاقوں تک محدود رہے گی، صرف لائسنس یافتہ افراد ہی کاشت کر سکیں گے، کاشت کاری، پیداوار، نقل و حمل اور استعمال کے تمام پہلوؤں کی نگرانی کے لیے ریگولیٹری اتھارٹی تشکیل دی جائے گی، اتھارٹی قانون کی تعمیل کو یقینی بنائے گی اور غلط استعمال کی روک تھام کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ لائسنسنگ کے عمل کی نگرانی کے لیے ایک کثیر محکمانہ کمیٹی بھی قائم کی جائے گی، اس کمیٹی میں زراعت، صحت، ایکسائز اور انسداد منشیات کے محکموں کے نمائندے شامل ہوں گے، صوبائی حکومت نے پہلے ہی اس نئی پالیسی کی حمایت کے لیے باضابطہ قواعد و ضوابط کی منظوری دے دی ہے، بھنگ کی کاشت سے صوبے میں اناج کی پیداوار متاثر نہیں ہوگی اور نئی پالیسی سے معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملنے کی توقع ہے۔