ججز تبادلہ کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان نے اہم سوالات اٹھادیے
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججوں کے تبادلے کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے ججوں کے تبادلے پر اہم سوالات اٹھادیے۔
انہوں نے دریافت کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام ایکٹ کے ذریعے عمل میں لایا گیا، کیا مذکورہ ایکٹ میں ججوں کا تبادلہ کرکے لانے کا اسکوپ موجودہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کے وکیل منیر اے ملک کا موقف تھا کہ مذکورہ ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کی گنجائش نہیں ہے، ایکٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں صرف نئے ججز کی تعیناتی کا ذکر ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
جسٹس نعیم اختر افغان نے دریافت کیا کہ جب ججز کی آسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفر کے بجائے انہی صوبوں سے نئے جج کیوں تعینات نہیں کیے گئے، کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں۔
منیر اے ملک نے جواب دیا کہ حلف کے ڈرافٹ میں صوبے کا ذکر ہوتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حلف اٹھاتے ہوئے ’اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری‘ کا ذکر آتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ ہم جب عارضی جج بنتے ہیں تو حلف ہوتا ہے مستقل ہونے پر دوبارہ ہوتا ہے، سینیارٹی ہماری اس حلف سے شمار کی جاتی ہے جو ہم نے بطور عارضی جج اٹھایا ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں:
جسٹس محمد علی مظہر کے مطابق، دیکھنا یہ ہے اگر دوبارہ حلف ہو بھی تو کیا سنیارٹی سابقہ حلف سے نہیں چلے گی، نئے حلف سے سینیارٹی شمار کی جائے تو تبادلے سے پہلے والی سروس تو صفر ہوجائے گی۔
منیر اے ملک کا موقف تھا کہ اسی لیے آئین میں کہا گیا ہے جج کو اس کی مرضی لیکر ہی ٹرانسفر کیا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس محمد علی مظہر جسٹس نعیم اختر افغان سپریم کورٹ منیر اے ملک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر جسٹس نعیم اختر افغان سپریم کورٹ منیر اے ملک جسٹس نعیم اختر افغان اسلام آباد ہوتا ہے
پڑھیں:
ججز ٹرانسفر، سنیارٹی کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ کا جواب جمع
سپریم کورٹ آف پاکستان (ایس سی پی) میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر، سنیارٹی کیس میں عدالت عالیہ اسلام آباد نے جواب جمع کرادیا۔
رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالت عالیہ کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں جواب جمع کرایا۔
جواب میں کہا گیا کہ ججز ٹرانسفر کی سمری کا آغاز وزارت قانون کی جانب سے کیا گیا، وہاں سے سمری وزیراعظم اور پھر صدر مملکت کو بھجوائی گئی۔
جواب میں مزید کہا گیا کہ صدر مملکت نے سمری منظور کی، جس کےلیے چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز سے مشاورت کی گئی۔
عدالت عالیہ اسلام آباد کے جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کے مطابق ججز ٹرانسفر کی گئی۔
جواب میں کہا گیا کہ جسٹس سرفراز ڈوگر پہلے ہی بطور ایڈیشنل جج اور پھر مستقل جج کے طور پر حلف اٹھا چکے، سابق چیف جسٹس نے ٹرانسفر کے بعد انتظامی کمیٹی تشکیل دی گئی۔
عدالت عالیہ اسلام آباد کے جواب کے ہمراہ نئی ججز سنیارٹی فہرست، ججز ٹرانسفر نوٹیفکیشنز، ہائی کورٹ ججز ریپریزنٹیشن بھی جمع کرائی گئی۔