اسرائیل کیخلاف جہاد میں حصہ لیں
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
ﷰامریکا کی مکمل حمایت سے غزہ پر نہ رکنے والے اسرائیلی ظلم و ستم کو روکنے کیلئے کوئی آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ ظالم اپنے ظلم میں روز بروز بڑھتا جا رہا ہے لیکن دنیا کا ضمیر سویا ہوا ہے۔ ماسوائے زبانی جمع خرچ کے کوئی بھی مظلوم فلسطینیوں کو ظالم اسرائیل سے بچانے کیلئےآگے نہیں بڑھ رہا۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ افسوس مسلمانوں اور مسلمان ممالک پر ہوتا ہے جو فلسطینیوں کی اس نسل کشی کو بڑی سرد مہری کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے اگر بیانات سے آگے کوئی بات نہیں بڑھتی تو عمومی طور پر عام مسلمانوں کو بھی جو کرنا چاہیے وہ نہیں کیا جا رہا۔ پاکستان کے بڑے عالم دین اور اسکالر محترم مفتی تقی عثمانی نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں غزہ پر اسرائیلی ظلم و ستم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب تمام مسلمان ممالک کی حکومتوں پر فلسطینیوں کو اسرائیل کے ظلم و ستم سے بچانےکے لیے جہاد فرض ہو چکا۔ محترم مفتی صاحب کی اس بات کا پاکستان سمیت دوسرے اسلامی ممالک کے حکمرانوں پر کتنا اثر ہوتا ہے اس بارے میں مجھے کوئی خوش فہمی نہیں لیکن اگر عام مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اس صورتحال میں ساری ذمہ داری صرف مسلمان ممالک کی حکومتوں کی ہے تو یہ بات بھی درست نہیں۔ اگر مسلمانوں کے حکمراں فلسطینیوں کی مدد کرنے اور اسرائیل کے خلاف جہاد کرنے کیلئےتیار نہیں تو پھر کیا عام مسلمان بھی خاموش ہو کر بیٹھ جائیں؟ اپنے آپ کو بے بس ثابت کر کے اور مسلمان ممالک کے حکمرانوں پر ساری ذمہ داری ڈال کر عام مسلمانوں کا وہ کچھ بھی نہ کرنا جو اُن کے بس میں ہے کیا اس ظلم میں اسرائیل کا ساتھ دینے کے مترادف نہیں۔ ایک عام مسلمان چاہے اُس کا تعلق پاکستان سے ہو، سعودی عرب یا ترکی سے یا وہ امریکا اور یورپ کے کسی ملک میں بیٹھا ہو اوہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے ایک ایسے جہاد کا حصہ نہیں بن سکتا جس کا اسرائیل کو نقصان بھی ہو اور اپنے آپ کویہ احساس بھی کہ کم از کم میرے بس میں جو ہے وہ میں عملی طور پر کر رہا ہوں۔ اسرائیل کے غزہ پر حملوں اور بچوں، عورتوں، بوڑھوں سمیت ہزاروں فلسطینیوں کو نشانہ بنانے پر اسرائیلی اور یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی مہم چلائی گئی۔ پاکستان میں بھی یہ مہم چلائی گئی اور اسرائیلی مصنوعات کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کیا گیا۔ اس پر عوام کے ایک خاطر خواہ طبقہ نے اسرائیلی مصنوعات،برینڈز، فرین چائزز، فوڈ چینز وغیرہ کا بائیکاٹ کیا لیکن بعد میں اس احتجاج میںحصہ لینے والوں کی شرح میں بدستور کمی ہوتی گئی اس سلسلے میں کچھ عوامی سروے میں بھی یہ حقیقت سامنے آئی۔اسرائیلی فوڈ چینز میں وہی رش لوٹ آیا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ اب جب کہ اسرائیل کا ظلم تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور مسلمان ممالک کے حکمراں بھی کچھ کرنے کو تیار نہیں تو عام مسلمان اسرائیل کو مالی طور پر نقصان پہنچانے کیلئے اسرائیلی و یہودی مصنوعات، اشیاء، فوڈ چینز، کولڈ ڈرنکس وغیرہ کا بائیکاٹ کر کے جہاد کی اس صورت میں اپنا حصہ کیوں نہیں ڈالتے۔ اگر ہم اسرائیلی اور یہودی مصنوعات وغیرہ کا بائیکاٹ نہیں کرتے اور اُنہیں خریدتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اُس اسرائیل کو مالی طور پر مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جو مظلوم فلسطینیوں کا خون بہانے سے رکنے کا نام نہیں لے رہا۔کچھ عرصہ قبل جب اسرائیلی مصنوعات کے حوالے سے تفصیلات سامنے آئیں تو پتا چلا کہ ہمارے گھروں میں استعمال ہونے والی اکثر اشیاء کا تعلق اسرائیل سے ہے۔ یعنی اگر ہم ان اشیاء کو خریدنے سے نہیں رکتے تو ہم عملی طور پر ظالم اسرائیل کو مضبوط اور مظلوم فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس ظلم کو روکنے کیلئے ہمیں اسرائیل کے خلاف اس جہاد میں حصہ لینا چاہیے۔اگر مسلمان ممالک کے حکمراں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھی وہ کام نہ کریں جو ہمارے بس میں ہے اور جس کا ایک اثر بھی ہے۔
انصار عباسی
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسرائیلی مصنوعات مسلمان ممالک کے اسرائیل کے اسرائیل کو کا بائیکاٹ
پڑھیں:
غزہ پٹی: اسرائیلی حملوں میں مزید نوے افراد ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے بتایا ہے کہ تازہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں مزید نوے فلسطینی مارے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ ہلاکتیں گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں کے دوران کیے گئے حملوں کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اسرائیلی دفاعی افواج حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔
ہلاک ہونے والے افراد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ غزہ پٹی میں وزارت صحت کے مطابق کچھ افراد ایسے علاقوں میں بھی مارے گئے ہیں، جو اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی ہمدردی کے زون قرار دیے گئے تھے۔
جنوبی شہر خان یونس میں بھی کم از کم گیارہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس شہر کے علاقے مواسی کو اسرائیل نے انسانی ہمدردی کا زون زون قرار دیا ہوا ہے۔
(جاری ہے)
یہاں عارضی بنائی گئی پناہ گاہوں میں لاکھوں بے گھر فسلطینی رہائش پذیر ہیں۔ تاہم اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جنگجو شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، اس لیے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری عسکریت پسند حماس پر ہی عائد ہوتی ہے۔ انسانی بحرانی المیہ شدید ہوتا ہوااکتوبر 2023ء سے جاری جنگ نے غزہ کے بڑے حصے کو تباہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں وہاں کے باسی خوراک پیدا کرنے کی صلاحیت سے تقریبا محروم ہو چکے ہیں۔
اس مسلح تنازعے کے باعث غزہ پٹی کی نوے فیصد سے زائد آبادی بے گھر ہو چکی ہے جبکہ لاکھوں افراد خیموں یا تباہ شدہ عمارتوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔نئے اسرائیلی فضائی حملے ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں، جب امدادی تنظیمیں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر عائد مکمل ناکہ بندی پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ غزہ پٹی میں گزشتہ چھ ہفتوں سے تمام اشیائے خور و نوش اور دیگر ضروریات زندگی کی رسد بند ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ہزاروں بچے غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں اور بیشتر افراد بمشکل ایک وقت کا کھانا کھا پا رہے ہیں کیونکہ خوراک کے ذخائر ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
محاصرے اور جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار افراد خوراک کی شدید قلت کے باعث سمندری کچھوؤں کا گوشت کھانا شروع ہو گئے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق کچھ مجبور خاندانوں نے پروٹین کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر ایسا اقدام اٹھایا ہے۔
جنگ بندی کی جامع ڈیل چاہتے ہیں، حماسدریں اثنا حماس نے فائر بندی کی اسرائیلی پیشکش مسترد کر دی ہے۔ اس عسکریت پسند تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ کسی جزوی ڈیل کو قبول نہیں کرے گی بلکہ وہ جنگ بندی کا ایک جامع معاہدہ چاہتی ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کی نئی کوششیں جاری ہیں لیکن حماس کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی معاہدے کو قبول کرے گی جو جنگ کا مکمل خاتمہ کرے۔
غزہ میں حماس کے سربراہ خلیل الحیہ نے کہا، ''ہماری تحریک (حماس) جنگ بندی کے ایک ایسے معاہدے پر فوری مذاکرات کے لیے تیار ہے، جس کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی طے شدہ تعداد کی رہائی کے بدلے یرغمالیوں کی آزادی ممکن ہو سکے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس نئی ڈیل کے تحت ہماری عوام کے خلاف جنگ کا مکمل خاتمہ ہو، اسرائیلی افواج غزہ سے مکمل طور پر نکل جائیں اور غزہ پٹی کی تعمیر نو کا آغاز ہو۔
‘‘ اسرائیل نے کیا پیشکش کی تھی؟اسرائیل 45 دن کی جنگ بندی کے بدلے مزید 10 یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ تجویز بھی ہے کہ اس مدت میں فریقین مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات کریں گے۔
اسرائیلی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے تاہم یہ عسکری گروہ اس مطالبے کو مسترد کر چکا ہے۔
مذاکرات ابھی تک تعطل کا شکار ہیں جبکہ غزہ میں لڑائی جاری ہے۔
اس صورتحال میں غزہ کے عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تنازعہ کیسے شروع ہوا تھا؟غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق دو ماہ کی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد دوبارہ شروع کیے گئے اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں میں اب تک کم از کم 1,691 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سات اکتوبر سن 2023ء سے جاری اس جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد اکاون ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔
سات اکتوبر سن 2023ء کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کی سرزمین پر حملہ کرتے ہوئے اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1,218 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ ڈھائی سو سے زائد افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔ اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیلی دفاعی افواج نے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی شروع کر دی تھی۔ یورپی یونین، امریکہ اور متعدد دیگر مغربی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
ادارت: عرفان آفتاب، مریم احمد