Daily Ausaf:
2025-04-22@01:35:40 GMT

وزیراعظم کا بیلا روس دورہ، معاہدوں سے عملی اقدامات تک

اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT

پاکستان اور بیلا روس کے درمیان دوطرفہ تعلقات عالمی سفارتی منظرنامے میں ایک خاص اہمیت کے حامل بنتے جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک جغرافیائی طور پر اگرچہ ایک دوسرے سے فاصلے پر واقع ہیں، مگر مشترکہ اقتصادی، تجارتی، تعلیمی اور تکنیکی مفادات کے باعث ان کے تعلقات میں گزشتہ چند برسوں کے دوران غیر معمولی بہتری آئی ہے۔بیلا روس، جو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد 1991 ء میں ایک خودمختار ریاست کے طور پر سامنے آیا، نے جلد ہی دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنا شروع کیے۔ پاکستان اور بیلا روس کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات 1992 ء میں قائم ہوئے۔ ابتدائی دہائی میں ان تعلقات میں خاص پیش رفت نظر نہیں آئی، لیکن 2000 ء کے بعد عالمی حالات اور علاقائی تعاون کے تناظر میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ قریبی روابط استوار کرنے کا آغاز کیا۔2015 ء میں بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ کیا، جو دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد 2024 ء میں دوبارہ ان کا دورہ، اور اس دوران مختلف معاہدوں پر دستخط، تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانے کی علامت ہیں۔2024 ء کے آخر میں بیلا روس کے صدر کے دورہ پاکستان کے دوران دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے کئی معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں (MoUs) پر دستخط کئے۔ ان معاہدوں کا دائرہ صنعت، تجارت، زراعت، دفاع، تعلیم، آئی ٹی اور معدنیات جیسے وسیع شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ابھی وزیراعظم شہباز شریف دو دن کے سرکاری دورے پر بیلاروس پہنچے جہاں میزبان صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے ان کا پُرتپاک استقبال کیا، مسلح افواج نے انہیں سلامی دی اور گارڈ آف آنر پیش کیا، دونوں ممالک کے قومی ترانے بجائے گئے۔استقبالیے کے بعد تقریب منعقد ہوئی جس میں دونوں ممالک کی جانب سے حکام نے مختلف معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط کئے۔
پاکستان اور بیلا روس نے ایک جامع صنعتی تعاون کا معاہدہ کیا جس میں بیلا روس کی مشہور کمپنیوں جیسے ’’منسک ٹریکٹر پلانٹ‘‘ اور ’’بیلشینا‘‘ نے پاکستانی مارکیٹ میں صنعتی مشینری اور دیگر سامان کی برآمد کے معاہدے کئے۔زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ بیلا روس نے اس شعبے میں اپنی مہارت فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے، جس میں جدید زرعی مشینری، بیجوں کی بہتری، فصلوں کے تحفظ کی تکنیک اور پانی کے انتظام کی جدید حکمتِ عملی شامل ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے فروغ کے لیے کئی مفاہمت کی یادداشتیں طے پائیں۔ پاکستان کے طلباء کو بیلا روس کی یونیورسٹیوں میں اسکالرشپس اور سائنسی تحقیق کے مواقع مل سکتے ہیں، جبکہ بیلا روس کے طلباء پاکستان کی زبان، تاریخ اور ثقافت سے روشناس ہو سکتے ہیں اس کا مقصد یونیورسٹیوں کے مابین مشترکہ تحقیق، فیکلٹی اور طلباء کے تبادلے، اور سائنسی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اس سے نہ صرف تعلیمی معیار میں بہتری آئے گی بلکہ دونوں قوموں کے درمیان ثقافتی ہم آہنگی بھی بڑھے گی۔دفاعی شعبے میں بھی دونوں ممالک نے تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ اس میں فوجی تربیت، سازوسامان کی فراہمی اور تکنیکی مہارت کا تبادلہ شامل ہے۔ پاکستان کی دفاعی صنعت کے لیے یہ معاہدے نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔یہ تعاون پاکستانی نوجوانوں کے لیے ترقی کے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔بیلا روس نے پاکستان میں معدنی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یہ معاہدے ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے اور قدرتی وسائل کے مؤثر استعمال کی راہ ہموار کریں گے۔دونوں ممالک نے ثقافتی پروگرامز، فنکاروں کے تبادلے اور مشترکہ ثقافتی تقریبات کے انعقاد پربھی اتفاق کیا۔
پاکستان اور بیلا روس کے مابین ہونے والے یہ معاہدے محض کاغذی کارروائی نہیں، بلکہ ان کے عملی فوائد اور اثرات دونوں ممالک کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان معاہدوں کے نتیجے میں نہ صرف باہمی تعلقات میں مضبوطی آئے گی بلکہ اقتصادی، معاشرتی، اور سٹریٹجک سطح پر بھی نمایاں ترقی کے امکانات پیدا ہوں گے۔ماضی میں پاکستان اور بیلا روس کے درمیان تجارتی حجم محدود تھا، لیکن ان معاہدوں کے نتیجے میں تجارت میں تیزی سے اضافہ متوقع ہے۔ پاکستانی مصنوعات جیسے چاول، آم، ٹیکسٹائل، اسپورٹس گڈز، فارماسیوٹیکل مصنوعات اور چمڑے کی اشیاء بیلا روسی مارکیٹ میں متعارف کرائی جا سکتی ہیں۔ اس کے برعکس، بیلا روس سے زرعی مشینری، کیمیکلز، ٹائر، صنعتی ساز و سامان اور الیکٹرانکس پاکستان کو درآمد کئے جا سکتے ہیں۔پاکستان کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے پیشِ نظر، روسی اتحادی ممالک جیسے بیلا روس کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینا بین الاقوامی سفارتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ یہ توازن پاکستان کو سفارتی سطح پر زیادہ خودمختاری فراہم کرتا ہے۔دونوں ممالک شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے رکن ہیں، جو ایک ابھرتا ہوا علاقائی اتحاد ہے۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم پر پاکستان اور بیلا روس نہ صرف سیکیورٹی بلکہ اقتصادی، تجارتی، اور ماحولیاتی امور میں مشترکہ ایجنڈا پر کام کر سکتے ہیں۔پاکستان بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) اور CPEC کا اہم حصہ ہے، جبکہ بیلا روس وسطی یورپ اور روس سے قریب تر ہے۔ ان دونوں کا باہمی رابطہ نہ صرف دوطرفہ فائدے کا باعث بنے گا بلکہ وسطی ایشیا اور یوریشیا میں تجارتی کنیکٹیویٹی کے نئے دروازے کھولے گا۔پاکستان اور بیلا روس کے درمیان تعلقات میں حالیہ پیش رفت ایک مثبت اور خوش آئند علامت ہے۔ بیلا روس کے ساتھ طے پانے والے معاہدے اگر سنجیدگی سے نافذ کیے جائیں تو نہ صرف یہ دونوں ممالک کے لیے سود مند ہوں گے بلکہ خطے میں اقتصادی توازن قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ماضی میں ایسے کئی معاہدے محض اعلانات تک محدود رہے۔ حکومت پاکستان کو اس بار ادارہ جاتی سطح پر فالو اپ میکانزم بنانا ہو گا تاکہ ہر معاہدے کی پیش رفت پر نظر رکھی جا سکے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستانی سرمایہ کاروں اور برآمدکنندگان کو بیلا روس کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے میں سہولت فراہم کرے، ٹیکس میں ریلیف دے اور مشترکہ منصوبوں کے لیے مالی معاونت فراہم کرے۔بیلا روس کے ساتھ ہونے والے معاہدوں پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیے ایک مشترکہ ’’مانیٹرنگ سیل‘‘ قائم کیا جائے، جس میں وزارتِ خارجہ، تجارت، دفاع، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے نمائندگان شامل ہوں۔پاکستان اور بیلا روس کو ہر سال تجارتی نمائشوں اور بزنس فورمز کا انعقاد کرنا چاہیے تاکہ تاجروں کو براہِ راست روابط قائم کرنے کے مواقع میسر آئیں۔دونوں ممالک کو بینکنگ چینلز کو مضبوط بنانا ہو گا تاکہ ادائیگی کے مسائل نہ ہوں اور کرنسی ایکسچینج میں سہولت ہو۔ اس مقصد کے لئے ’’کرنسی سویپ‘‘ معاہدہ یا ’’ٹریڈنگ اکاؤنٹ‘‘ کا قیام مفید ثابت ہو سکتا ہے۔اگر ان معاہدوں کو مؤثر حکمتِ عملی کے تحت نافذ کیا جائے تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بیلا روس کا تعلق نہ صرف اقتصادی ترقی کا ذریعہ بنے گا بلکہ بین الاقوامی منظرنامے پر پاکستان کے لئے ایک نئی سفارتی طاقت کے طور پر بھی ابھر سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان اور بیلا روس کے درمیان بیلا روس کے ساتھ دونوں ممالک نے دونوں ممالک کے تعلقات میں پاکستان کے ان معاہدوں سکتے ہیں نے والے کے لیے کے بعد

پڑھیں:

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آئندہ ہفتے دو روزہ دورے پر سعودی عرب جائیں گے

گزشتہ برسوں کے دوران بھارت اور سعودی عرب کی شراکت داری سیاست، دفاع، سکیورٹی، توانائی، تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، تعلیم، صحت اور ثقافتی تعاون تک مختلف شعبوں تک وسیع ہوئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان کی دعوت پر اگلے ہفتے سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔ وزارت خارجہ کے مطابق یہ دورہ 22، 23 اپریل تک ہوگا اور یہ نریندر مودی کا اپنی تیسری میعاد کے دوران سعودی کا پہلا دورہ ہوگا۔ مودی اس سے قبل 2016ء اور 2019ء میں دو بار سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں۔ نریندر مودی کا یہ دورہ ستمبر 2023ء میں محمد بن سلمان کے ہندوستان کے سرکاری دورے کے بعد ہو رہا ہے، جس کے دوران انہوں نے G20 سربراہی اجلاس میں شرکت کی اور ہندوستان و سعودی عرب اسٹریٹجک پارٹنرشپ کونسل کے افتتاحی اجلاس کی شریک صدارت بھی کی تھی۔

بھارت اور سعودی عرب ثقافتی اور تجارتی تبادلوں کی میراث کے ساتھ تاریخی طور پر قریبی اور دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران ان دونوں ممالک کی شراکت داری سیاست، دفاع، سکیورٹی، توانائی، تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، تعلیم، صحت اور ثقافتی تعاون تک مختلف شعبوں تک وسیع ہوئی ہے۔ وزارت خارجہ کے مطابق گزشتہ دہائی کے دوران دو طرفہ تعلقات میں مزید مضبوطی آئی ہے۔ مودی کا یہ دورہ بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ہندوستان سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے۔ یہ دورہ ممکنہ طور پر اس کثیر جہتی شراکت داری میں اضافہ کرے گا اور مشترکہ دلچسپی کے اہم علاقائی اور عالمی معاملات پر بات چیت کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرے گا۔

یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب جغرافیائی سیاسی پیشرفت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں تہران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات بھی شامل ہیں۔  بھارت نے 1947ء میں سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے اور 2010ء میں یہ تعلقات اسٹریٹجک پارٹنرشپ میں تبدیل ہوگئے۔ 2024ء کے آغاز سے بھارت سے سعودی عرب کے 11 وزارتی سطح کے دورے ہوئے ہیں۔ مزید برآں سعودی عرب کے وزیر خارجہ اور وزیر صنعت و معدنی وسائل نے بالترتیب نومبر 2024ء اور فروری 2025ء میں ہندوستان کا دورہ کیا۔ سعودی عرب نے آپریشن کاویری کے دوران بھی معاون کردار ادا کیا اور سوڈان سے جدہ کے راستے ہندوستانی شہریوں کو نکالنے میں مدد کی۔

متعلقہ مضامین

  • وزیر اعظم کل ترکیہ دورے پر روانہ ہوں گے
  • وزیراعظم شہباز شریف کل ترکیہ کا دورہ کریں گے، صدر اردوان سے ملاقات شیڈول
  • افغان عبوری وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت قبول کر لی
  • پاکستان اور روانڈا تعلقات میں پیشرفت؛ سرمایہ کاری سمیت دیگر مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • پاکستان اور ایران کے تعلقات، چیلنجز اور تعاون کی راہ
  • متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ 20 سے 21 اپریل تک پاکستان کا دورہ کرینگے
  • متحدہ عرب امارات کے نائب وزیراعظم ہزہائینس شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان سرکاری دورے پر آج پاکستان پہنچیں گے
  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل، نائب وزیراعظم، وزیر خارجہ سے ملاقاتیں: پاکستان افغانستان کا بہتر روابط، مضبوط ٰتعلقات برقرار رکھنے پر اتفاق
  • بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آئندہ ہفتے دو روزہ دورے پر سعودی عرب جائیں گے