احتساب کو مئوثر بنانے کے تقاضے
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
پاکستان میں دانشوروں کاایک طبقہ ایسا پیدا ہوچکا ہے جنہیں ملک میں ہر چیز خراب نظر آتی ہے یہ سچ ہے کہ ہر ادارے میں برائیاں بھی ہوتی ہیں اور اچھائیاں بھی لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ بڑی بڑی اچھائیوں کونظر انداز کیاجاتا ہے جبکہ معمولی برائیوں کو بڑھاچڑھا کر اجاگر کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے بیشتر اداروں میں کرپشن ایک ناسور کی طرح پھیلتا رہا چونکہ سبھی اس سے مستفیض ہو رہے تھے اس لیے احتساب کی کوئی روایت نہ پڑسکی۔ رشوت کو کنٹرول کرنے کے لیے اینٹی کرپشن کا محکمہ قائم کیاگیاابتدائی برسوں میں اس محکمے کی کارکردگی بڑی اچھی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ کالی بھیڑوں نے اس محکمے کی کارکردگی کو بری طرح سے متاثر کیایوں اس کی افادیت کم ہوتی چلی گئی۔ اور یہ کہاوت مشہور ہوگئی لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا۔ جب رشوت کی بیماری اعلیٰ حکام تک پھیل گئی تو ایف آئی اے کومیدان میں اتارا گیا۔ جب کرپشن ایوانوں تک جاپہنچی اور زبان خلق بننا شروع ہوئی تو صاحب اقتدار لوگوں کو عوام کومطمئن کرنے کے لیے مجبوراً احتساب کاادارہ قائم کرنا پڑا۔ احتساب کا عمل تو شروع ہوگیا لیکن پہلے ہی دن سے اسے سیاسی دشمنی تک محدود کردیاگیا اس لیے اس پر سارے ملک میں کھل کر تنقید ہوتی رہی جب فوجی حکومت آئی تو انہوں نے قومی احتساب بیوروتشکیل دیا جسے حرف عام میں نیب کہا جاتا ہے نیب کو یہ الزام دیا جاتا رہا ہے کہ وہ بھی ایک حد تک جانبدار ہے اور ان پر بھی تنقید ہوتی رہی کیونکہ کچھ بااثر افراد جن کے خلاف نیب تحقیقات کررہاتھا وہ حکومت کا ساتھ دے کر اپنے خلاف تحقیقات رکوانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اصل میں یہ لوگ ضمانتوں پررہا ہوئے ہیں جس طرح سے ماضی میں لوگ جیل میں بند ہونے کے باوجود الیکشن میں حصہ لے کر کامیاب ہوتے رہے ہیں اور بعض حالتوں میں وزیر بھی بنے اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون میں سقم ہے اور کمزوری ہے یہ کام تو الیکشن کمیشن کا تھا کہ وہ ایسے لوگوں کو الیکشن کے لیے نااہل قرار دیتا اس حوالے سے نیب پر تنقید بلاجواز ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ نیب نے شروع میں بغیر ہوم ورک کے اندھا دھند گرفتاریاں کیں جس سے ملک میں خوف وہراس کی سی فضا پیدا ہوگئی ،مگر آج نیب صاف وشفاف ادارے میں تبدیل ہوچکاہے۔ رہا سوال نیب کے احتساب کا تو بے شمار ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی گئی ہے جو نیب میں ہوتے ہوئے گڑبڑ کی کوشش کررہے تھے۔ نیب نے اپنے اندر کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کرکے خود احتساب کی مثال قائم کی ہے جو لائق تحسین ہے۔ نیب کے حوالے سے ایک عام تاثر یہ ہے کہ سیاستدانوں نے بڑی کرپشن کی ہے۔ نیب سے جب رابطہ کیا گیاتو انہوں نے کہا یہ تاثر صحیح نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ماسوائے چند سیاست دانوں کے بیشتر کاتعلق بیوروکریسی اور دوسرے لوگوں سے ہے۔ یاد رہے 15کروڑ عوام کا رابطہ بیوروکریسی سے ہی پڑتا ہے۔ سیاستدان تووٹ لے کرگم ہوجاتے ہیں۔ ایک عام آدمی کرپشن سے نجات چاہتا ہے اسے اور کچھ نہیں چاہیے وہ کرپٹ مافیا کے درمیان چکی کی طرح پس کررہ جاتا ہے اوراس کی کوئی داد رسی نہیں ہوتی اس بات میںکوئی شک نہیں کہ اوپر کی سطح پر کرپشن کافی حد تک کنٹرول کی جاچکی ہے اس کاسہرا بھی نیب کوہی جاتا ہے کیونکہ کک بیکس لینے والوں کاحشر عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح انہیں کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا جاتا ہے لیکن یہ کافی نہیں نیب کو چاہیے کہ وہ اپنا دائر ہ کار وسیع کرکے تحصیل لیول سے شروع کرکے اوپر تک جائیں کیونکہ عام آدمی کا واسطہ اعلیٰ افسران سے کم ہی پڑتا ہے۔ جبکہ بسااوقات چھوٹے سرکاری افسران سے پڑتا ہے۔ اس حوالے سے عوام پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر سطح پرجہاں بھی ان کو کرپشن یا کرپٹ افسر نظر آئے اس کی نشاندہی کریں۔ نشاندہی کرتے وقت صرف اتنا کہہ دینا کہ فلاں شخص بڑا کرپٹ ہے اس نے بڑا مال بنایا ہے اس سے کوئی بات نہیں بنتی نشاندہی کامطلب یہ ہوتا ہے کہ کرپشن کی زیادہ سے زیادہ تفصیلات سامنے لائی جائیں ۔ پلاٹ کتنے ہیں‘ مکان کتنے ہیں‘ گاڑیاں کتنی ہیں‘ بے نام کھاتے کتنے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ نیب اس طرح کی اطلاعات دینے والوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ احتساب کس کا ہوکیااس زمرے میں صرف وزیراعظم ‘ وزرائے اعلیٰ ‘ وفاقی وصوبائی وزرا‘ اراکین سینیٹ‘ قومی وصوبائی اسمبلی اور اعلیٰ سرکاری ونیم سرکاری عہدیدار ہی آئیں گے یابات اس سے آگے بڑھے گی کیا بدعنوانی صرف یہ ہے کہ مال بنایا جائے ۔ رشتہ داروں اور دوستوں کو نوازا جائے۔ بے شک یہ سب بدعنوانی ہے لیکن ہم یہاں انٹلکچوئل کرپشن کاذکر کرنا چاہتے ہیں جس سے جہاں ایک طرف حقداروں کاحق مارا جارہا ہے دوسری طرف نااہل لوگوں کو نوازا جارہا ہے۔ مثلاً کسی ادارے میں سینئرافسر موجود ہے لیکن کسی جونیئر کو اس پرلگادیا جائے یہ بھی کرپشن کی ہی شکل ہے اس کے علاوہ یہ کہ شخص کو ایسا عہدہ دے دیاجائے جس کاوہ مستحق نہیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا ایک نائب قاصد بھرتی کرنا ہوتاہے تو اس کے لیے اخبار میں اشتہار دیا جاتا ہے لیکن جب کسی ریٹائرڈ افسر کوملازم رکھنا ہوتا ہے تو یہ سب کچھ بغیر اشتہار کے ہوتا ہے۔ بعض حالتوں میں ادارے کی ملازمت کا کوئی سابقہ تجربہ یا پس منظر نہ رکھنے کے باوجود باقاعدہ سروس کے بڑے بڑے قابل لوگ پوری عمر بسر کرنے کے باوجود اس منصب تک نہیں پہنچ پاتے ‘ کیا یہ ان افراد کی حق تلفی اوران سے ناانصافی نہیں اور کیا یہ اخلاقی بدیانتی اور بدعنوانی نہیں۔ نیب کو چاہیے کہ ملک کے سبھی اداروں کی چھان بین کرے ان اداروں میں جائے متاثرہ لوگوں سے ملے اور اس طرح کی بددیانتی کے مرتکب اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف مقدمات قائم کرے اپنا دائرہ صرف کک بیکس تک محدود نہ رکھیں کک بیکس سے صرف مالی نقصان پہنچتا ہے لیکن کسی کم تر شخص کو جواس عہدے کااہل نہ ہو اس کو اعلیٰ عہدہ دے کر ادارے کو تباہ کرنے کے مترادف ہے اوراس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ قومی نقصان ہے اس طرح کے کاموں سے ملک کوناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتاہے۔
آخر میں یہ بتانا ضروری ہے کہ احتساب کو صرف بدعنوانی تک محدود نہیں رہنا چاہیے کرپشن کے خاتمے کے لیے ہر قسم کی بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہوگا جو سامنے نظر آتی ہے اور جو قدرے پوشیدہ ہے جسے عرف عام میں انٹلکچوئل بدعنوانی کہتے ہیں اس کاخاتمہ بھی ضروری ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ نیب کو اپنا نام تبدیل کرلینا چاہیے اس ضمن میں بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ اسے اکائونٹ ایبیلیٹی بیورو آف پاکستان کانام بھی دیاجاسکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: یہ ہے کہ جاتا ہے کے خلاف کرنے کے ہے لیکن نیب کو ہے اور کے لیے
پڑھیں:
بنیادی صحت کے مراکز کی نجکاری قبول نہیں، دھرنا جاری رہے گا، رخسانہ انور
نیشنل پروگرام ہیلتھ ایمپلائز ایسوسی ایشن پنجاب کی صدر رخسانہ انور نے کہا ہے کہ بنیادی صحت کے مراکز کی نجکاری کرنے کے خلاف ہمارا احتجاج جاری رہےگا، چاہے 15 روز مزید دھرنا دینا پڑے لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پنجاب میں آج انسداد پولیو مہم شروع ہونی تھی، ہم نے اس کا بھی بائیکاٹ کیا ہے، ہمارے مطالبات ایسے نہیں ہیں جو نہ مانے جا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں لاہور: گرینڈ ہیلتھ الائنس کا دھرنا جاری، وزیراعلیٰ ہاؤس جانے کی کوشش پر پولیس کا لاٹھی چارج، متعدد گرفتار
انہوں نے کہاکہ ہم گزشتہ 15 روز سے مال روڈ پر احتجاج کررہے ہیں، حکومت نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا، خواتین ورکرز بے یارومدد گار یہاں پر دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ پنجاب میں بنیادی صحت کے مراکز کو پرائیویٹائز نہ کیا جائے، لیکن حکومت بضد ہے کہ نجکاری ہر صورت کرکے بنیادی صحت کے مراکز کو ٹھیکیداروں کو دینا ہے، جس سے صحت کے شعبے کو نقصان ہوگا۔
’ملازمین پر تشدد کیا گیا اور زہریلا پانی پھینکا گیا‘انہوں نے کہاکہ مریم نواز تو کہتی تھیں کہ خواتین ان کی ریڈ لائن ہیں لیکن کئی روز سے ہیلتھ ورکرز سڑکوں پر احتجاج کررہی ہیں، اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ، ڈپٹی وزیراعلیٰ، چیف جسٹس ہائیکورٹ، وزیر اطلاعات، سیکریٹری ہیلتھ سمیت پنجاب کے تمام بڑے عہدوں پر خواتین بیٹھی ہیں، لیکن کوئی ہمارے مسائل حل کرنے کے لیے تیار نہیں۔
رخسانہ انور نے کہاکہ جس روز ہم نے وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاج کرنے کی کوشش کی، اس روز ہم پر مرد پولیس اہلکاروں نے لاٹھیاں چلائیں اور خواتین کی چادریں اتاری گئیں۔
انہوں نے کہاکہ وہاں پر کچھ خواتین اہلکار بھی ضرور تھیں لیکن مرد پولیس اہکار خواتین کو مارتے رہے، مریم نواز اگر سب کی ماں ہے تو ہمارے ساتھ کیوں سوتیلی ماں والا سلوک کیا جارہا ہے۔
’ہم پر تیزاب گردی کی گئی‘’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب رورل ہیلتھ ایسوسی ایشن کے نائب صدر جام فاضل نے کہاکہ جس دن پولیس نے مال روڈ پر ہمارے ورکرز پر کریک ڈاؤن کیا تو اس دن تیزاب پھینکا گیا جس سے ہمارے کچھ ملازمین جھلس گئے۔
انہوں نے کہاکہ جلھسنے والے کچھ افراد کو ہم نے گنگا رام اسپتال منتقل کیا جبکہ کچھ کی موقع پر ہی ابتدائی طبی امداد دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں پنجاب کے سرکاری ملازمین کا مطالبات کے حق میں ماڈل ٹاؤن کے باہر احتجاج
انہوں نے کہاکہ حکومت کا اگر یہ رویہ ہے تو ہم بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ہم نجکاری کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں، جبکہ حکومت ہماری آواز کو دبانے کی کوشش کررہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بنیادی صحت مراکز پولیس تشدد تیزاب گردی حکومت پنجاب دھرنا جاری رخسانہ انور مریم نواز وزیراعلٰی ہاؤس وی نیوز