بھارت، وقف ترمیمی بل کے خلاف بطور احتجاج بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھنے پر مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
سٹی مجسٹریٹ وکاس کشیپ نے مسلمانوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں 16 اپریل کوپیش ہونے اور دو لاکھ روپے تک کے بانڈز جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست اترپردیش میں وقف ترمیمی بل کے خلاف علامتی احتجاج کے طور پر جمعة الوداع اور نماز عید کے دوران بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھنے پر 300 سے زائد مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کر کے انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونے اور دو لاکھ روپے کے بانڈز جمع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر میں پولیس حکام نے ان مقدمات کے اندراج اور جاری کردہ نوٹسز کو قانونی قرار دیا ہے۔ مظفر نگر کے ایس ایس پی ابھیشیک سنگھ نے کہا جو نوٹس جاری کیے گئے وہ قانونی ہیں۔ سٹی مجسٹریٹ وکاس کشیپ نے مسلمانوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں 16 اپریل کو پیش ہونے اور دو لاکھ روپے تک کے بانڈز جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مقامی لوگوں اور سول سوسائٹی گروپس سمیت ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ آزادی اظہار پر قدغن کے مترادف ہے اور مسلمانوں کوغیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نوٹس موصول ہونے والے افراد میں سے ایک نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ وہ ایک وکیل کی تلاش میں ہیں۔انہوں نے کہا ہمیں16 اپریل کو عدالت میں پیش ہونے کیلئے کہا گیا ہے۔ ہم نے وکیل کی تلاش شروع کر دی ہے۔ انہوں نے خدشے کا اظہار کیا کہ اگر مجسٹریٹ نوٹس کو منسوخ بھی کر دیتا ہے تو سب سے بڑا مسئلہ بانڈز کا ہے۔ اگر ضلع میں ایک سال کی مدت میں کچھ بھی ہوتا ہے تو ہمیں اٹھایا جا سکتا ہے۔نوٹس میں الزام لگایا گیا ہے کہ مسلمانوں نے نماز کے بعد دوسروں کو اکسانے اور مشتعل کرنے کی کوشش کی جس سے امن عامہ کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ جنہیں نوٹس دیا گیا ہے انہوں نے انتظامیہ کی کارروائی کو مکمل طور پر غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نماز جمعہ کے بعد ایسی کوئی سرگرمی نہیں ہوئی جس سے امن وامان میںخلل پڑتا ہو۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے بغیر کسی ثبوت اور تحقیقات کے یہ کارروائی کی ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف بھی نوٹس جاری کیے گئے جو طویل عرصے سے علاقے میں نہیں رہ رہے ہیں۔ اتر پردیش کے علاقے سیتا پور کی ضلعی انتظامیہ نے بھی وقف ترمیمی قانون کے خلاف بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کرنے پر تمبور قصبے کے مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کئے ہیں حالانکہ وہاں کوئی احتجاجی مظاہرہ بھی نہیں ہوا۔ نوٹس موصول ہونے والوں نے پولیس کی کارروائی کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے، اس بل کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہو چکے ہیں اور اب بھی ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک کی پارلیمنٹ میں اراکین پارلیمنٹ بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر بل کی مخالفت کر رہے ہیں تو ہمارا احتجاج غلط کیسے ہو گیا؟
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نوٹس جاری انہوں نے کے خلاف
پڑھیں:
اسلامی لباس اور فیشن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران میں خواتین کے لیے لباس کے سخت ضوابط رائج ہیں، مگر اب ڈیزائنر کچھ اس انداز کے ملبوسات متعارف کروا رہے ہیں کہ ایرانی اسلامی کوڈ کا خیال بھی رکھا جائے اور فیشن کا بھی۔اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین کے لیے لباس کے لیے سخت ضوابط موجود ہیں۔ عمومی طور پر سیاہ یا گہرے رنگوں کے لباس پہن کر ان ضوابط پر عمل کیا جاتا ہے، مگر اب فیشن ڈیزائنرز ہلکے رنگوں کے ملبوسات بھی تیار کر رہے ہیں۔ایران میں سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد خواتین کے لیے لباس کا سخت کوڈ متعارف کروایا گیا تھا، جس میں خواتین کو سر اور گردن فےکو ڈھانپنا لازمی ہوتا ہے جب کہ لباس ڈھیلا پہنا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں گھر سے باہر نکلتے ہوئے خواتین عموماً سیاہ رنگ کی بڑی سی چادر اوڑھ لیا کرتی تھیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں خواتین خاصے ہلکے رنگ کے لباس بھی زیب تن کیے دکھائی دیتی ہیں۔تہران میں مبلوسات کی اس نمائش میں رکھے گئے پچاس نئے ڈیزائنز میں سیاہ چادر سے بنےبرقعہ نما لباس سے لے کر مختلف رنگوں والے ملبوسات بھی شامل تھے، جب کہ کمر سے کسے ہوئے کوٹ بھی۔ مقامی ڈیزائنر کہتی ہیں کہ ڈیزائن بناتے ہوئے معاشرتی اقدار اور ضوابط کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نوجوان ایرانی خواتین میں رنگین لباس پہننے کا رجحان بڑھ رہا ہےڈیزائنرز کا تاہم یہ بھی کہنا ہے کہ گہرے رنگوں سے ہلکے رنگوں کی طرف منتقلی آسان نہیں کیوں کہ بہت سی خواتین اب بھی سیاہ یا گہرے رنگ کے لباس ہی پہننا چاہتی ہیں۔